’’مما! مجھے پیزا کھانا ہے، یہ کھانے کا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘نومی نے کھانوں سے سجی میزکو نظرانداز کرتے ہوئے نخرے دکھائے۔
’’ایسے نہیں کہتے بیٹا! اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے ہمیں اتنے مزے مزے کے کھانے میسر کیے ہیں، اپنی مما کا شکریہ ادا کرو کہ انہوں نے اتنی محنت اور محبت سے ہم سب کے لیے اتنی ذائقے دار چیزیں بنائی ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن لوگوں کے بارے میں سوچو جنہیں ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہوتا۔‘‘ زاہد صاحب نے اپنے پوتے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’سوری دادو! شکریہ اللہ میاں… شکریہ مما۔‘‘ نومی نے فوراً ہی اپنے دادا کی بات مان لی۔
’’شاباش میرا پیارا بیٹا! اسی طرح اپنے بڑوں کا کہنا مانا کرو۔‘‘زاہد صاحب کے بڑے بیٹے سمیر نے بیٹے کے منہ میں نوالہ دیتے ہوئے کہا۔
’’اور بہو تم سے بھی ایک بات کہنی ہے، اگر کوئی مہمان آئے یا کوئی دعوت ہو تب بے شک اتنا اہتمام کرو، ورنہ ایک وقت میں ایک ڈش ہی کافی ہے، اس طرح وقت بھی بچتا ہے اور بے جا اصراف سے بھی بچا جاسکتا ہے۔‘‘ زاہد صاحب نے اپنی بڑی بہو راجیہ کو نرمی سے سمجھایا۔
’’جی بابا! میں آئندہ خیال رکھوں گی۔‘‘
’’جیتی رہو بیٹی! تمہاری یہی بات اچھی لگتی ہے کہ برا مانے بغیر ہر بات مان لیتی ہو۔‘‘ ناہید بیگم نے بہو کی دل جوئی کی۔‘‘
’’امی برا ماننے کی کیا بات ہے! آپ دونوں ہمارے بھلے کے لیے ہی تو کہتے ہیں۔‘‘بہو نے ساس کی طرف سالن کی ڈش رکھتے ہوئے سعادت مندی سے کہا۔
’’امی کیا ہوا، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ سمیر نے ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو جلدی سے انہیں پانی نکال کر دیا۔
’’کچھ نہیں بیٹا! عمیر اور اس کے بچوں کاخیال آگیا تھا۔‘‘
عمیر، زاہد صاحب کا چھوٹا بیٹا تھا جوکہ اپنی بیوی عروج کی ضدی طبیعت اور خودسری کی وجہ سے کچھ عرصہ پہلے ہی الگ ہوا تھا۔
’’بیٹا! مجھے پتا ہے وہ الگ ہوکر خوش نہیں ہے، ڈھکے چھپے لفظوں میں اس نے اظہار کیا ہے۔ عروج جاب کرتی ہے۔ نہ گھر پر اس کی توجہ ہے، نہ بچوں پر اور نہ ہی شوہر کی ضروریات کا خیال ہے۔ اس کے پاس ان مسئلوں کا ایک ہی حل ہے کہ مستقل طور پر ملازمہ رکھ لی جائے۔‘‘ ناہید بیگم نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں… نہیں گھر اور بچے ایک انجان عورت پر چھوڑنا صحیح نہیں ہے۔ آج کل حالات ٹھیک نہیں ہیں، کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ میں عمیر سے بات کرتا ہوں۔‘‘ زاہد صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’میں نے بھی عروج کی باتوں سے اندازہ لگایا ہے کہ وہ اپنے جذباتی فیصلے پر پچھتا رہی ہے لیکن اعتراف کرتے ہوئے جھجک رہی ہے۔ میں نے اپنے بڑوں سے سیکھا ہے کہ رشتے موتیوں کی طرح ہوتے ہیں، اگر کوئی موتی ٹوٹ جائے تو اسے جھک کر اٹھا لینا چاہیے۔‘‘ راجیہ نے اپنی بیٹی کے پسندیدہ کباب اس کی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے گہری بات کہی۔
’’واہ! کیا خوب صورت بات کی ہے۔‘‘سب نے راجیہ کی بات کو سراہا۔
’’بیٹا! گھر کے بڑے سائبان کی طرح ہوتے ہیں، زمانے کے سرد و گرم خود جھیل کر اپنے خاندان کو مضبوط اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں، اپنے بچوں کی بہتری کے لیے انہیں کسی بات پر ٹوک دیتے ہیں یا ناراضی ظاہر کرتے ہیں تو اس کا یہ مطلب تھوڑی ہوتا ہے کہ وہ ان سے پیار نہیں کرتے یا انہیں کم تر سمجھتے ہیں۔ ہم نے دونوں بہوؤں اور بچوں میں کبھی فرق نہیں کیا، لیکن عروج کو ہمیشہ ہم سے شکایت ہی رہتی تھی، وہ سمجھتی تھی الگ ہوکر بے فکری کی زندگی گزارے گی۔ خاندان سے جڑے رہنے میں ہی بہتری ہوتی ہے۔ ماں باپ سے الگ ہوکر آزادی تو مل جاتی ہے لیکن سکون ختم ہوجاتا ہے۔ ‘‘ زاہد صاحب کے لہجے میں افسردگی نمایاں تھی۔
’’مستحکم اور مضبوط خاندان اُسی وقت بنتا ہے جب سب کے دل ایک ہوں، دکھ سُکھ سانجھے ہوں۔ ہم عمیر اور عروج کو سمجھاکر واپس بلالیں گے۔‘‘ سمیر نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ہُرے…! ہم سب پھر سے ساتھ رہیں گے، اب مزا آئے گا۔‘‘ نومی نے نعرہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’چلو بھئی! آج کا یہ شان دار کھانا اسی خوشی کے نام۔‘‘ سمیر کے کہنے پر زاہد صاحب اور ناہید بیگم کے چہروں پر اطمینان بخش مسکراہٹ دوڑ گئی۔