آسمان پر طلوع ہونے والا سورج گواہی دے رہا تھا اور اس روز پیغامِ محبت عام کرنے والی ان نوجوان لڑکیوں کے چہروں کو بظاہر تو نقاب نے ڈھانپا ہوا تھا مگر ان کی آنکھوں میں موجود حیا کی روشنی اور عزم و استقلال کی ایک الگ سی چمک اس بات کا ثبوت تھی کہ اب بھی جہاں تاریکیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے اس دنیا میں اپنی پوری قوت کے ساتھ دلوں کو اندھا اور ضمیر کو مُردہ کرنے کا کام کرتے نظر آرہے ہیں وہیں یہ نوجوان لڑکیاں حکمِ ربی کی حدود کو اپنا فخر سمجھتے ہوئے اور نبیؐ کی سیرت کو اپنا شعار بناکر اجالوں کی پیامبر کی صورت اپنے ہاتھوں میں ٹمٹماتے ہدایت کے جگنو اور چمکتے ہوئے کردار کو لیے اس 11 جنوری 2025ء کی صبح کے لیے کئی دنوں سے ان تھک محنت کررہی ہوں گی، اور یہ محنتیں اس شاندار اور کامیاب انعقاد کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ عزائم کی تکمیل کے لیے حوصلوں کی بلندی اور نگاہ میں مقصد کا واضح ہونا بہت اہم ہے، کیوں کہ نصب العین تو نام ہی اسی عالمِ جنوں کا ہے جس جنون کی حدوں کا معاملہ دنیا کی بے ثباتی کا احساس دل میں پیدا کرتا اور سوزِ قلب کی آگ کو اتنا بھڑکا دیتا ہے کہ صبح و شام سے لے کر زندگی کے ہر لمحے کا جائزہ اسی سوزِ عشق کی روشنی میں لیا جارہا ہوتا ہے۔ پھر چاہے اندھیرے کتنے ہی قابض کیوں نہ ہونے کی کوشش کریں، حرا کا نور اپنے چراغوں سے روشنی پھیلانے کی راہ پر گامزن رہتا ہے اور آخرکار اس صبحِ انقلاب کا سورج طلوع ہوکر ہی رہتا ہے۔
اسی سوزشِ دل میں دھڑکتی ہوئی دھڑکنیں اور عزم و ہمت کی داستان سناتی ہوئی وہ حیا کے نور سے چمکتی آنکھیں میں نے 11 جنوری 2025ء کے دن اسلامی جمعیت طالبات کراچی کی صورت میں ڈالمیا روڈ پر واقع بینکویٹ میں دیکھیں جہاں اس وسیع و عریض ہال میں ہر جانب حکمِ ربی اوڑھے ہوئے وہ طالبات اپنے جیسی کئی قیمتی نوجوانیوں کو باطل کی یلغار اور اس کی چکا چوند سے خبردار کرنے کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر ذمہ داری کا حق ادا کرنے کی کوشش میں مصروف تھیں جس فریضے کا شعور انہیں قرآن کے نور سے ملا تھا، اور سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ قرآن کا شعور دینے والا بھی تو کوئی نہ کوئی ذریعہ ہوگا نا؟
کیا تھا وہ ذریعہ، اور وہ بھی اس دورِ دجل میں جب ہمارے تعلیمی اداروں میں ہر جانب طاغوتی نظام اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے، جہاں ہر نئی صبح ایک میوزیکل نائٹ یا پھر کسی مشہور و معروف سیلبریٹی کو بطور رول ماڈل اپنے تعلیمی اداروں میں دوستوں کے درمیان موضوع گفتگو بنایا جارہا ہوتا ہے، یا پھر کسی سیر و تفریح کے نام پر اسلام کی حرام کردہ سرگرمیوں کا انعقاد ہورہا ہوتا ہے۔ جی ہاں یہی المیہ ہے ہمارے تعلیمی اداروں کا، جو کہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو آزاد خیالی کے نام پر دھوکا دیتے ہیں ساتھ ہی نسلِ نو کو حقیقی شعور سے دور کرنے میں اپنا مکمل کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں، مگر کاملیت کے اصل تصور کو فراموش کردیتے یعنی عبدیت کے تقاضوں کو سامنے رکھنے سے جی چراتے ہیں۔ مگر ذرا ٹھہریے!
یہیں کہیں، انہی تاریک راہوں میں قندیلِ رہبانی کو لیے یہی اسلامی جمعیت طالبات ہر محاذ پر کھڑی نظر آتی ہے، ساتھ ہی انسان کو انسانیت، پھر انسانیت سے لے کر خود شناسی کے مقام تک پہنچاتی ہے، اور خودشناسی کے بعد ایمان کی لذت سے سرشار کرتی ہوئی شخصیت کی تعمیر، صلاحیتوں کی تشخیص اور فکری تربیت کے مراحل سے گزار کر اسے خدا شناسی تک لے جاتی ہے۔ جمعیت ہر آن اپنی چھتری تلے اس راہِ حق کے قافلے کو تیار کرتی ہے جو آئندہ مستقبل میں صبحِ انقلاب کی امید بن کر ابھریں گے۔ یہی نوجوانیاں ان طاغوتی قوتوں کے بتوں کو توڑیں گی اور اپنے جیسی کئی ضائع ہوتی ہوئی نوجوانیوں کو ان کے مقصدِ حیات سے وابستہ کرکے ان کو اپنی ملت کے لیے، اپنے دین کے لیے نافع بنائیں گی اِن شاء اللہ۔
بالآخر اس خوبصورت دن کا اختتام تو ہوگیا مگر ساتھ ہی اس پیغامِ وفا کا حق سمجھا گیا کہ اسلام ہماری خواہشات کو پورا کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ وہ تو ہمیں اپنی ذات کو بہترین ساخت پر پیدا ہونے یعنی احسن تقویم کے حق کو سمجھانا چاہتا ہے، وہ تو یہ کہتا ہے کہ ’’اپنی صلاحیتوں کو،‘ اپنی توانائیوں کو، اپنے خوابوں کو اور اپنے حوصلوں کو بلندی کی جانب لے جاؤ تاکہ تم بلند ترین مقام کو پہنچو۔‘‘
یہ اسٹوڈنٹس فی میل ایکسپو بھی اسی بلندی کے سفر کی جانب جاتی ہوئی ایک کڑی تھی جہاں ہر مثبت تفریح اور بڑی خوب صورت گیدرنگ کے ساتھ آپ اور میں اپنی ہر صلاحیت کی نمائش حلال طریقے اور پھل دار درخت کے سائے میں کرسکتے ہیں، ساتھ ہی آپ کو بتاتی چلوں کہ اگر آپ کو تیار ہونا اور میک اَپ کرنا پسند ہو تو اس ایونٹ میں اسکن کیئر کارنر بھی موجود تھا۔ آپ کو کتابوں سے شغف ہو یا پھر قلم کے جوہر دکھانے کا شوق ہو تو یہاں علم و ادب کارنر کے ساتھ بک اسٹال اور خوب صورت سی اقبالیات پر ترتیب دی جانے والی وال تھی۔ اور ہاں اگر آپ اپنے تعلیمی مسائل میں گھرے ہیں اور خود کو پڑھائی یا ذاتی زندگی سے متعلق مسائل میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں تو یہاں مینٹل ہیلتھ کارنر اور کیرئیر کاؤنسلنگ کا بھی اہتمام تھا جہاں آپ کو کوئی بے پردگی کا سامنا یا نامحرم سے بات چیت کرنے کا گناہ سمیٹنا نہ پڑتا، کیوں کہ یہاں اپنی فیلڈ میں ایکسپرٹ خواتین سائیکالوجسٹ اور کائونسلرز موجود تھیں۔ جی ہاں اسی فی میل ایکسپو میں اسی وسیع و عریض ہال کے بیچ میں مَیں کھڑی یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور جذبہ شکر سے میرا دل سرشار تھا کہ اسلامی جمعیت طالبات کراچی کے نام سے موسوم لڑکیاں یقینا وہ گوہر نایاب کی حیثیت رکھتی ہیں جو خود تو اپنی زندگیوں میں اجالے بکھیر رہی ہیں مگر ساتھ ہی اقامت ِ دین کا فریضہ انجام دیتی اپنی ہی طرح کی طالبات کو عام سے خاص کرنے کی فکر میں خود کو کھپا رہی ہیں، کیوں کہ انہیں دنیا مطلوب نہیں بلکہ مطلوب آخرت ہے۔ محبت لوگوں سے تو ہے، درد دل میں تو ہے مگر نصب العین کی خاطر ہے۔