احسان

53

’’ارے تم جانتی ہو…گوہر پرسوں دکان دار کی منتیں کررہی تھی کہ ادھار آٹا دے دو… لیکن وہ اس بات پر اصرار کررہا تھا کہ پہلے کے پیسے ادا کرو۔ لیکن وہ کہاں سے دیتی؟ وہ تو اُس کی قسمت اچھی تھی کہ میں نے یہ دیکھ لیا اور اُس کی مدد کی۔‘‘

’’واہ آپا…! کیا بات ہے آپ کی… آپ تو سب کا اتنا خیال رکھتی ہیں۔‘‘
نگہت کے یہ جملے خالدہ کے لیے تسکین کا باعث تھے۔

خالدہ دردِ دل رکھنے والی خاتون تھی۔ اس کے دل میں دوسروں کی مدد کا جذبہ تھا اور وہ ہمیشہ ہر کسی کی مدد کے لیے تیار رہتی۔ کسی کے گھر میں کوئی مسئلہ ہوتا، خالدہ پہنچ جاتی۔ کسی کو مالی پریشانی ہوتی، خالدہ اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرتی۔

لیکن خالدہ کی ایک عادت تھی جو آہستہ آہستہ اس کی نیک نیتی کو دھندلا رہی تھی۔ وہ مدد کرنے کے بعد اس بات کا ذکر ضرور کرتی کہ اس نے کس کی کیسے مدد کی۔ اگرچہ اس کا مقصد صرف اپنی نیکی کو نمایاں کرنا ہوتا، لیکن دوسروں کو اس سے شرمندگی محسوس ہوتی۔

ایک دن محلے میں ایک خاتون گوہرکے گھر معاشی تنگی کی وجہ سے اس کی مدد کے لیے آئیں۔ خالدہ کو جب پتا چلا تو ان کی مدد کی، مگر چند دن بعد سب کے سامنے ذکر کیا کہ وہ کیسے ان کے کام آئی۔ وہ خاتون بہت شرمندہ ہوئیں اور دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ آئندہ خالدہ سے مدد نہیں لیں گی۔

آہستہ آہستہ محلے کے لوگ بھی خالدہ سے مدد لینا چھوڑنے لگے۔ خالدہ یہ دیکھ کر پریشان ہوگئی کہ جن لوگوں کی وہ مدد کرتی تھی، وہ اس سے دور ہورہے ہیں۔

’’کیا بات ہے آپا! آج اتنی اداس کیوں ہیں؟‘‘ نادیہ نے آپا کو اس طرح بیٹھے دیکھا تو پوچھا۔

’’کیا بتائوں نادیہ! کل میں نے دیکھا کہ فلک بڑی مشکل سے چل رہی ہے، وہ وین تک اپنی بیٹی کو چھوڑنے جارہی تھی۔ میں نے پوچھا تو پتا چلا کہ اس کے پائوں میں موچ آگئی ہے۔ میں نے کہا میں بچی کو وین تک لے جاتی ہوں، تو اس نے صاف منع کردیا کہ ’’آپا! میں نے آپ سے کوئی مدد نہیں لینی۔‘‘ میں نے اس سے بار بار پوچھا تو کہنے لگی کہ ’’میں نے اپنا اشتہار نہیں لگوانا۔‘‘ اب بھلا بتائو، میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں اور وہ مجھے برا بھلا کہہ رہی ہے! سب کے رویّے تبدیل ہوگئے ہیں۔‘‘ خالدہ رنجیدہ ہوگئی۔

’’آپا! نیکی ایک چھپے خزانے کی طرح ہے۔ اگر اسے ظاہر کردیا جائے تو اس کی قدر کم ہوجاتی ہے۔ مدد کرنا نیکی ہے، لیکن اس کا ذکر کرنا دوسروں کو شرمندہ کردیتا ہے۔ اگر تم واقعی نیک نیتی سے مدد کرتی ہو تو اسے اللہ کے لیے کرو اور خاموشی سے کرو۔ کسی سے تذکرہ نہ کرو۔‘‘

نادیہ کی بات خالدہ کے دل میں گھر کر گئی۔ اس نے اپنی عادت پر قابو پانے کا فیصلہ کیا۔ اب خالدہ خاموشی سے مدد کرتی اور اللہ سے اجر کی امید رکھتی۔ اس کے رویّے میں یہ تبدیلی دیکھ کر لوگ دوبارہ اس کے قریب آنے لگے اور اسے حقیقی معنوں میں ایک مددگار سمجھنے لگے۔

حصہ