’’آجاؤ دلہن! تم بھی ناشتے کی ٹیبل پر سب کے ساتھ ناشتہ کرلو۔‘‘ خالدہ بیگم نے نئی نویلی دلہن کو پیار بھرے لہجے میں بلایا۔
’’نہیں آنٹی! میں اپنے کمرے میں خرم کے ساتھ ناشتہ کروں گی۔ آجائیں خرم روم میں۔‘‘ نئی نویلی دلہن نے نخوت بھرے لہجے میں شوہر کو بلایا اور اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ بے چاری خالدہ بیگم اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں اور خرم جو ناشتہ کرنے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر آچکا تھا، خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔
خالدہ بیگم نے ناشتے کی ٹرے بناکر اپنی بیٹی سے خرم کے کمرے میں تو بھجوا دی مگر وہ اپنی نئی بہو کے اس رویّے سے ماضی کے جھروکوں میں جا پہنچیں۔
ان کی شادی ایک بھرے پرے گھر میں ہوئی تھی۔ ان کے شوہر آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ والد ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے اور سارے گھر کی ذمہ داری ان کے شوہر پر ہی تھی۔
شادی کی رات ہی خالدہ کے شوہر نے ان پر یہ بات واضح کردی تھی کہ جس طرح میں گھر کا بڑا بیٹا ہوں اب تم بڑی بہو ہوگی اور میری ذمے داریوں میں تم کو میرا ساتھ نبھانا ہوگا، اسی طرح تم میرے دل میں اپنا مقام بنا پاؤ گی اور میری محبت پا سکو گی۔
حالانکہ خالدہ اپنے گھرمیں چار بھائیوں سے چھوٹی اور اکلوتی لاڈلی بیٹی تھیں مگر انہوں نے شوہر کی محبت پانے والی بات کو اپنے پلو سے ایسے باندھا کہ پھر کبھی بھی شوہر کو شکایت کا موقع نہ دیا۔
ساس، سسر کے صبح اٹھنے سے پہلے ہی اٹھ کر چائے بناکر ان کے کمرے میں پہنچاتیں، پھر جب تک وہ دونوں فجر کی نماز پڑھتے خود بھی جلدی سے نماز پڑھتیں اور پھر اُن کا ناشتہ اُن کے کمرے میں ہی دے آتیں، اس کے بعد اسکول کالج جانے والے دیور اور نندوں کا ناشتہ تیار کرکے انہیں روانہ کرتیں اور شوہر کی دفتر جانے کی تیاری میں مدد کرتیں، ان کا لنچ باکس تیار کرکے دیتیں اور انہیں دروازے تک رخصت کرکے آتیں۔
سب کے جانے کے بعد یہ وقت ایسا ہوتا تھا کہ وہ اگر چاہتیں تو تھوڑا آرام کرسکتی تھیں، مگر وہ اس وقت بھی اپنی ساس کے پاس ان کے کمرے میں آکر بیٹھ جاتیں، کبھی ان سے باتیں کرتیں، کبھی ان کی الماری سیٹ کردیتیں، اور کچھ نہیں تو ان کے سر میں مالش کرنے بیٹھ جاتیں، اور ساس انہیں دعائیں دیتے نہ تھکتیں، وہ ہر آئے گئے کے سامنے بھی ان کی ڈھیروں تعریفیں کرتیں، اور اسی طرح ان کی نندیں اور دیور بھی ان کو بھابھی بھابھی کہتے نہ تھکتے۔کالج کی جس دن چھٹی ہوتی ان کی نندیں ہر کام میں ان کا ہاتھ بٹاتیں اور انہیں آرام دینے کی کوشش کرتیں۔
ان ہی عادتوں کی وجہ سے خالدہ کے شوہر ان سے بے انتہا محبت کرنے لگے تھے، وہ ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ اب انہیں سارا دن گھر کی فکر نہیں رہتی تھی، انہیں پتا تھا کہ گھر میں ان کی بیوی ان کے گھر والوں کا ہر طرح سے خیال رکھتی ہے۔
نندوں کی شادی طے ہوئی تو خالدہ خود ماں بننے کے مرحلے سے گزر رہی تھیں، مگر انہوں نے اپنے آرام کو پس پشت ڈال کر شادی کے سو کام اپنے ذمے لیے اور ہر کام کو انتہائی خوش اسلوبی سے نبھایا۔
سسرال میں اور شوہر کے دل میں خالدہ کی عزت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی، اور یہ سب اسی لیے ممکن ہوا تھا کہ خالدہ نے سسرال کو اپنا گھر سمجھا، وہاں کے دکھ سکھ کو اپنایا، ہر قدم پر اپنے شوہر کا ساتھ دیا۔
دو نندوں کی شادی کے بعد خالدہ کی ساس بیمار رہنے لگیں اور کچھ عرصے بعد ان کا انتتقال ہوگیا۔ اب گھر کی پوری ذمہ داری خالدہ کے کندھوں پر آگئی، اور خالدہ نے ہمیشہ کی طرح ہر ذمہ داری کو ہنسی خوشی نبھایا۔ تینوں دیوروں کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کی شادیاں بھی کرائیں۔ دونوں شادی شدہ نندیں ماں کے انتقال کے بعد بھی اسی طرح میکے آتیں اور رہ کر بھی جاتیں، مجال ہے جو کبھی خالدہ بھابھی کے ماتھے پر کوئی شکن آجائے۔ ہمیشہ ان کی بھابھی نے ان کی ماں کی کمی پوری کی، ان کے میکے کا مان سلامت رکھا۔
’’امی… امی!‘‘ خالدہ بیگم، بیٹی کی آوازوں سے چونک کر ماضی کی یادوں سے واپس آگئیں۔ ’’ہاں کیا ہوا؟‘‘
’’امی! بھابھی نے ہمارے ساتھ ناشتہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ بیٹی نے بھولپن سے سوال کیا۔
’’کوئی بات نہیں، ابھی نئی ہے نا اِس گھر میں، شرما رہی ہوگی… آہستہ آہستہ گھل مل جائے گی۔‘‘ خالدہ بیگم نے بہو کی برائی کرنے کے بجائے رسانیت سے بیٹی کو سمجھا دیا۔ مگر انہوں نے دل میں ضرور سوچا کہ ایک میرا وقت تھا کہ سسرال کو جوڑے رکھنے کے لیے میں نے ہر طرح کی قربانیاں دیں اور سسرال میں اپنا مقام بنایا، کاش میری بہو کو بھی اللہ ایسی ہی سمجھ بوجھ عطا فرمائے اور وہ بھی اپنے رویّے سے سسرال میں اپنا اچھا مقام بنائے۔ میں اپنے بچوں کے لیے ہر پل دعا کرتی رہوں گی کہ وہ خاندان کو جوڑنے والے بنیں، نہ کہ توڑنے والوں میں شامل ہوں۔