جدید تعلیم کے سیلاب میں کھویا ہوا خزانہ

103

جدید تعلیم و تربیت نے آج کے انسان کو بہت کچھ دیا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ جدید تعلیم بہت کچھ دے رہی ہے، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اِس بہت کچھ میں غلبہ مادی وسائل کا ہے۔ آج کی تعلیم اوّل و آخر صرف اس لیے ہے کہ انسان کو زیادہ سے زیادہ کمانا سکھایا جائے۔ تخلیقی سوچ بھی اس لیے پروان چڑھوائی جاتی ہے کہ انسان بھرپور مادی کامیابی یقینی بنانے کی تگ و دَو کرے اور اُس کی زندگی کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ کمانا ہو، تاکہ قابلِ رشک انداز سے زندگی بسر کی جاسکے۔

ہر دور کی تعلیم و تربیت نے انسان کو ڈھنگ سے جینا سکھایا ہے۔ تعلیم کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ انسان کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہنے میں مدد دے۔ عصری تقاضوں سے بالعموم صرف یہ مراد لی جاتی ہے کہ انسان بس جدید ترین فطری علوم و فنون کے رجحانات کے مطابق پڑھے، لکھے اور ایسی مہارتیں یقینی بنائے جن کی مدد سے زیادہ سے زیادہ مادی آسودگی یقینی بنانا ممکن ہو۔ ہر دور میں تعلیم کی اصل اِسی نوعیت کی مطابقت کو گردانا گیا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں انسان کو زندگی کے خالص غیر معاشی پہلو کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ انسان کو صرف کمانے کے لیے خلق نہیں کیا گیا۔ لازم ہے کہ وہ زندگی کے غیر معاشی یا معاشرتی پہلو کو سمجھنے، برتنے اور اُسے مضبوط بنانے پر بھی متوجہ ہو۔ معاشرتی پہلو کا مطلب ہے انسان کا باطن اور اخلاقی تربیت۔ جیسے تیسے کمانا تو انسان سیکھ ہی لیتا ہے، اِس سے کہیں بڑا معاملہ جینا یعنی زندگی بسر کرنا ہے۔

ہم اُس عہد میں جی رہے ہیں جو ہر معاملے کو صرف اور صرف مادیت کی چوکھٹ پر لاکر پچھاڑ رہا ہے۔ زندگی صرف اور صرف مادیت کا نام نہیں۔ ہمیں روئے ارض پر عطا کی جانے والی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ہم صرف مادی پہلو پر متوجہ ہیں۔ معاشرتی، اخلاقی، باطنی اور روحانی پہلو مادیت کی چکاچوند میں گم ہوچکا ہے۔ زندگی کا معاشرتی پہلو بگڑتا تو ہے، نقصان تو پہنچاتا ہے مگر جاتا کہیں بھی نہیں۔ ہم متوجہ ہوں یا نہ ہوں، زندگی کا معاشرتی، اخلاقی، باطنی اور روحانی پہلو موجود رہتا ہے اور مستقل بنیاد پر نظرانداز کیے جانے سے اُس میں پیدا ہونے والی خرابیاں پوری زندگی کا ڈھانچہ بگاڑنے میں لگی رہتی ہیں۔ ہم اپنے ماحول پر ایک اُچٹتی سی نظر بھی ڈالیں تو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ زندگی کے صرف معاشی پہلو کو اپناکر اور برت کر ہم اپنے ساتھ کس قدر ناانصافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔

کم و بیش پانچ صدیوں سے دنیائے علم و فن پر مغرب کا راج ہے۔ مغرب نے بھرپور مادی ترقی ممکن بنائی ہے۔ اُس نے دنیا بھر سے علوم و فنون کا ورثہ لے کر اُسے بامِ عروج پر پہنچادیا ہے۔ مغرب میں تحقیق و ترقی کا آغاز چونکہ پاپائیت کے مظالم کے خلاف ردِعمل کی صورت میں ہوا تھا اِس لیے پانچ صدیوں کے دوران مذہب سے بیزاری محض لاشعور کا حصہ نہیں رہی ہے بلکہ شعوری سطح پر سکھائی جاتی رہی ہے، بچوں کے ذہنوں میں تواتر سے یہ بات ٹھونسی گئی ہے کہ جو کچھ ہمیں دکھائی دے رہا ہے بس وہی ہے کُل کائنات۔ مغرب میں تعلیم و تربیت سے متعلق جتنا بھی مواد تیار کیا جاتا رہا ہے اُس میں یہ نکتہ خاص طور پر شامل کیا جاتا رہا ہے کہ دنیا بس وہی ہے جو ہمارے اردگرد ہے، یعنی جس کا ہم حصہ ہیں۔ زمانہ بھی بس وہی ہے جو ہے، یعنی ہم جس عہد میں جی رہے ہیں بس وہی زندگی ہے۔ اور یہ کہ اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں، کسی کو زندہ نہیں کیا جائے گا، کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا۔ حساب نہ ہونے کا تصور اس لیے پروان چڑھا کہ بچوں کے ذہنوں میں پانچ صدیوں سے یہ نکتہ بھی تواتر سے ٹھونسا گیا ہے کہ ہم جس دنیا یا کائنات میں جی رہے ہیں وہ خودبخود معرضِ وجود میں آئی ہے یعنی اُس کا کوئی خالق نہیں۔ جب خالق کا تصور ہی ایک طرف رکھ دیا تو پھر آخرت اور حساب کتاب کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟

خالص مادیت پر مبنی تعلیم و تربیت کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ایک دنیا مغربی تصورات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تگ و دَو میں مادی چمک دمک ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھی ہے۔ دنیا بھر میں مغرب کو ترقی اور خوش حالی کا حتمی اور بے مثال منہج سمجھ لیا گیا ہے۔ مرعوب ذہنیت کے تحت یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ جو کچھ بھی مغرب دے رہا ہے وہی درست ہے اور جو کچھ اُس نے مسترد کردیا ہے وہ واقعی مسترد کیے جانے کے قابل تھا۔ اس ذہنیت کی کوکھ سے محض الحاد نے جنم نہیں لیا بلکہ اب دنیا بھر میں یہ تصور بھی عام ہوتا جارہا ہے کہ مغرب جس طور جی رہا ہے بس اُسی طور جیا جاسکتا ہے۔ مغرب نے مرد و زن کے اختلاط کو ذرہ بھر بُرا سمجھنے سے بھی توبہ کرلی ہے اور اِس نکتے پر زور دیا ہے کہ شرم و حیا کو مکمل طور پر خیرباد کہنے کی صورت ہی میں حقیقی آزاد، خودمختار، بھرپور اور مکمل ذہنی تسکین سے متصف زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔

مغرب کے زیرِ اثر بیشتر مشرقی معاشروں نے اپنی عظیم تہذیبی روایات و اقدار کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ مشرق کی تہذیبیں تین چار ہزار سال کے دورانیے میں جن تہذیبی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کو پروان چڑھاتی رہی تھیں اُنہیں فرسودہ سمجھ کر ٹھکرا رہی ہیں اور مغرب کی اندھی تقلید میں اپنے اندر انتہائی نوعیت کا تہذیبی خلا پیدا کر رہی ہیں۔

آج کا پاکستان بھی تہذیب و ثقافت اور اخلاقی اقدار کے حوالے سے انتہائی درجے کے خلا کا حامل ہے۔ ہماری نئی نسل مذہب سے محروم اور مذہبیت سے ’’مالا مال‘‘ ہے۔ مذہب انسان کے اخلاق درست کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎

خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں

لوگوں کا یہ حال ہے کہ مذہبی تعلیمات کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے مذہبی تعلیمات ہی کو اپنی سہولت کے مطابق تبدیل کرنے پر کمربستہ رہتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ اِس سے بڑی بد بختی کیا ہوسکتی ہے؟

جینے کا ہنر کیا ہے؟ کیا کھانا پینا ہی جینا ہے؟ کیا اچھے کپڑے پہن لینے سے، اچھی گاڑیوں میں سفر کرنے سے، اچھے مکانات میں رہنے سے، اچھی تعلیم پانے سے، اچھا کمانے سے جینے کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ کیا صرف اچھا کمانے کو زندگی قرار دے کر ہم سکون کا سانس لے سکتے ہیں؟ کیا اولاد کا کیریئر بناکر، معاشی مستقبل محفوظ بناکر ہم مطمئن رہ سکتے ہیں کہ حق ادا کردیا، فرض نبھادیا؟

اِن میں سے کسی بھی سوال کا جواب اثبات میں نہیں دیا جاسکتا۔ زندگی بہت بڑا معاملہ ہے مگر ہم یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم نے اپنے طور پر یہ سمجھ لیا ہے، فرض کرلیا ہے کہ کسی نہ کسی طور زیادہ کمانے کے قابل ہو رہنے سے، اور قدرے پُرآسائش طور پر جی لینے سے زندگی کا حق ادا ہو جاتا ہے۔ جہاں صرف مادیت ہی زندگی اور زندگی کا حاصل ہو وہاں ایسی ہی سوچ پروان چڑھ سکتی ہے اور چڑھ رہی ہے۔

ہماری نئی نسل تعلیم و تربیت کے نام پر صرف کمانا سیکھ رہی ہے، اور کچھ نوجوان تو بے چارے اِتنا بھی نہیں سیکھ پارہے۔ نئی نسل کو آگے بڑھنے کے لیے محض راہ نہیں بلکہ راہبر بھی درکار ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت کو راہبر کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اور اگر تعلیم و تربیت ہی کا قبلہ درست نہ ہو تو؟ ایسے میں نئی نسل کیا سیکھے گی؟ وہی، جو سمت سے محروم تعلیم و تربیت کے ہاتھوں سیکھنے کا موقع ملے گا۔

پاکستان میں نئی نسل صرف اور صرف یہ سیکھ رہی ہے کہ مغرب کی طرح بھرپور مادی زندگی کیونکر بسر کی جاسکتی ہے اور اِس کے لیے کیا کیا کرنا پڑے گا۔ فطری علوم و فنون میں ہونے والی بے مثال پیش رفت ہی کو زندگی کا ماحصل سمجھ لیا گیا ہے۔ آج کے لڑکوں اور لڑکیوں کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ ہوچکا ہے کہ حقیقی اور کامیاب زندگی یہ ہے کہ انسان کے پاس زیادہ سے زیادہ مادی وسائل ہوں، آسائشیں ہوں اور اِس طور جیا جائے کہ دل میں کوئی قلق نہ رہے، یعنی کسی بھی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔

مکمل طور پر جامع زندگی تو کوئی بھی بسر نہیں کرپاتا، اور یہ محض تجریدی تصور ہے۔ ہاں، ایسی زندگی یقیناً بسر کی جاسکتی ہے جس میں مادی وسائل بھی بہت ہوں اور دیگر لوازم بھی کم نہ ہوں۔ اب یہ دیگر لوازم کیا ہیں؟ دین ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا کو پانے میں کوئی قباحت نہیں مگر آخرت کی قیمت پر دنیا کو پانا یا پانے کی کوشش کرنا ہر اعتبار سے خسارے کا سَودا ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے بچوں کو صرف یہ سکھا رہے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ مارکس لے کر بھرپور کیریئر کی طرف کیسے جاسکتے ہیں، پیشہ ورانہ تربیت کے ذریعے کس طور زیادہ سے زیادہ کماسکتے ہیں۔ بس، یہ ہے کُل تعلیم و تربیت۔ موجودہ تعلیمی نظام کسی بھی مرحلے پر اچھا انسان بننے سے متعلق خاطر خواہ راہ نمائی نہیں کرپاتا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس نظامِ تعلیم کا اساسی مقصد صرف یہ ہے کہ بچوں کو مادی سُکھ چَین یقینی بنانے کے قابل بنایا جائے۔ والدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ اُن کی اولاد زیادہ سے زیادہ کمانے کے قابل ہوجائے۔ اُنہیں اِس بات سے بظاہر کچھ غرض نہیں کہ بچے کے اندر کیا ہے، روحانی پہلو کیسا ہے، اخلاق کی سمت درست ہے یا نہیں، زندگی کے معاشی پہلو کو برتنے کا سلیقہ ہے یا نہیں۔ سارا کا سارا زور اس بات پر ہے کہ بچہ بالکل ویسی ہی بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے قابل ہوجائے جیسی کہ مغرب کے لوگوں نے ممکن بنائی ہے۔

کمانا، کھانا پینا، سونا جاگنا، کچھ دیر لوگوں سے مل لینا… یہ آج کا یومیہ معمول ہے۔ لوگ یکسانیت سے اُکتاتے بھی نہیں۔ اور جو اُکتا جاتے ہیں وہ بھی کسی بڑی، مثبت تبدیلی کے لیے کچھ نہیں کرتے، خود کو معقول اور متوازن زندگی کے لیے تیار نہیں کرتے۔ بچے اسکول میں یہی کچھ سیکھتے ہیں۔ گھر میں ماں باپ، بھائی بہن اور بزرگ بھی کچھ ایسی ہی زندگی بسر کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ گھر اور معاشرے کے ماحول کے زیرِاثر بچے محض نقالی کرتے کرتے اِس ساکت و جامد طرزِ زندگی کو اپنالیتے ہیں۔ پھر یہ سب کچھ اُن کی فکری یا نفسی ساخت کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔

جو لوگ اپنی اولاد کو صرف زیادہ کمانے کے قابل بنانے پر متوجہ رہتے ہیں وہ اُن پر صریح ظلم ڈھاتے ہیں۔ مادی آسودگی بہت کچھ ہوتی ہے مگر سب کچھ نہیں ہوتی۔ انسان جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے اُسے برتنے، بروئے کار لانے کا ہنر بھی اُسے آنا ہی چاہیے۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کا مقصد صرف کمانا اور خرچ کرنا نہیں ہوتا۔ زندگی تو اِس سے کئی قدم آگے جاکر خود کو کائنات سے ہم آہنگ کرنے اور اِس کائنات کے خالق کی خوشنودی یقینی بنانے کا نام ہے۔

جینے کا ہنر نہ سکھانے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ہماری کئی نسلیں لایعنی فیصلوں کے ذریعے اپنے لیے مشکلات پیدا کرتی آئی ہیں۔ معاشرتی زندگی میں توازن پیدا نہیں کیا جاسکا ہے، صنفِ مخالف میں سطحی نوعیت کی کشش محسوس ہونے پر ساتھ زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرنا عام ہوچکا ہے، جتنی تیزی سے شادی ہوتی ہے اُس سے زیادہ تیزی سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ مل بیٹھنے کے آداب سے کم لوگ واقف ہیں۔ رشتوں اور تعلقات میں یکسر عدم توازن نمایاں ہے۔ بزرگوں کا احترام ناپید سا ہو چلا ہے، پڑوسیوں کے حقوق کی فکر کم کم دکھائی دیتی ہے، حقیقی معنوں میںکسی کی مدد کرنے کا جذبہ ناپید سا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ زندگی کے صرف مادی پہلو کو ذہن نشین رکھتے ہوئے جیا جارہا ہے۔ نئی نسل کو بتانا پڑے گا کہ معقول طرزِ زندگی کیا ہے، متوازن رہتے ہوئے جینے میں کیا فائدہ ہے۔ یہ سب کچھ اخلاقی اقدار کی تعلیم سے ہوگا۔ جدید ترین تعلیم و تربیت میں اخلاقی تربیت کے اسباق کو لازمی طور پر نصاب کا حصہ بنانا پڑے گا۔ یہ سب کچھ محض کرنا نہیں ہے بلکہ تیزی سے کرنا ہے، کیونکہ زمانے کی رفتار انسان میں بے ڈھنگی زندگی کے بیج بہت تیزی سے بورہی ہے۔ اخلاقی اقدار پر مشتمل تعلیم اگر بہت چھوٹی عمر سے دی جائے تو بچے عملی زندگی میں کامیابی کے اسباق تیزی سے یاد کرتے ہیں، بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ مادی تعلیم ہمیں صرف مادی سُکھ یقینی بنانے کی راہ سُجھا سکتی ہے۔ شخصی ارتقا، اخلاقی بلندی اور دیگر اوصاف پر مشتمل دینی نوعیت کی تعلیم انسانی زندگی کا ایک بڑا مقصد ہے، یعنی دنیا میں رہتے ہوئے دوسروں کے کام آنا ہے، اُن کے لیے آسانیاں یقینی بنانا ہے تاکہ سب کے لیے زندگی متوازن اور آسان ہو۔

وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اخلاقی تربیت اور باطن کی تطہیر کو بھی خاطر خواہ اہمیت دیں تاکہ وہ صرف کمانے کے قابل نہ ہو بلکہ اچھی زندگی بسر کرنے کی بھی اہل ہو، اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی کارآمد ثابت ہو۔

حصہ