آخر شب کے ہم سفر

52

’’او… مانجھی رے، بھائی اب ہاتھ تھک گئے۔ کشتی کھینے کی اب سکت نہیں۔ میں نے دریا کے مخالف سمت بھی چپو چلائے، پَر اب ہمت نہیں۔ او مانجھی رے۔‘‘

یہ سارے بھٹیالی گیت بار بار یاد آتے ہیں۔ میرے دکھی، مظلوم، خوبصورت دیس کے ملاحوں کے دل نواز، دل دوز گیت۔ کیا میں کبھی واپس جاسکوں گی؟

آج میں نے دیپالی کو خط لکھا۔
روزی اپنے میاں اور چاروں بچوں کے ساتھ مغرب کی سیاحت پر نکلی ہے۔ کیا ٹھاٹھ ہیں۔ میں نے اسے نہیں بتایا کہاں رہتی ہوں، کیا کرتی ہوں۔ شام کو ان کے ساتھ جاکر پکیڈلی میں کھانا کھایا۔ لامحالہ پرانے دنوں کا ذکر نکلا، جب روزی اور دیپالی انڈر گرائونڈ انقلابی ورکرز تھیں۔ روزی کے بچوں کے ساتھ ان کے ہندوستانی میزبان کے لڑکے لڑکیاں بھی تھے۔ میں نے ذکر کیا، اسکول میں ہم لوگوں کی آرزو تھی کہ پرتی لتا، کلپنا دت اور کنک لتا بروا کی طرح کی ہیروئن بنیں، تو روزی کے میزبان کی لڑکی نے پوچھا: آنٹی کیا یہ لوگ آپ کے زمانے کی فلم اسٹار تھیں؟

کافکا کہتا ہے کہ بعض الفاظ کا مطلب محض اپنے زخموں کے ذریعے ہی سمجھ میں آتا ہے، اور ٹیگور نے بھی ایسا ہی بولا‘‘۔
’’اوہ گوڈ۔ کیپ کوائٹ یاسمین، یو آر کریزی۔ ڈونٹ ڈسٹرب می۔ میں اپنی کمپنی کے کاغذات دیکھ رہا ہوں‘‘۔
’’چھن چھن چھن… اچھا۔ سنو۔ ایک پولش رائٹر نے کہا…‘‘
’’ہیں۔ تم نے پھر ناچ شروع کردیا۔ ڈاکٹر نے تم کو منع کیا ہے‘‘۔
’’مینوں نچ کے یار مناواں دے…ہاہاہا‘‘۔
’’فور گوڈز سیک۔ گھنگرو اُتارو۔ ڈاکٹر کا حکم مانو…‘‘

’’سنوپولش رائیٹر نے کہا ہے۔ انسان کی روح جو سات تالوں میں بند ہے اس میں ایک پوشیدہ گوشہ… بتائوں، سُن رہے ہو…‘‘

’’بکو…‘‘
’’ایک پوشیدہ گوشہ ہے، جس کو صرف مصائب کی کنجی ہی کھول سکتی ہے۔ اور اس گوشے میں کامل مسرت اور افضل ترین فہم اور ادراک چھپا ہوا ہے… اور مقبول ایک جگہ میں نے لکھا دیکھا ہے کہ جب میں مریم تھی میں نے خدا کو دیکھا‘‘۔

’’اور بکو‘‘۔
’’اور جب ہم اپنی مسرت کے بارے میں سوچتے ہیں اُس وقت ہمارا تخیل بچے کے تخیل کی طرح بھولا اور معصوم ہوتا ہے… اور یہ بھی کہ ہم جس دریچے میں کھڑے ہوتے، اس کے سامنے کا منظر ہماری ملکیت ہوتا۔

اور ٹیگور ایسا بول گیا ہے کہ یاد مندر کی وہ پجارن ہے جو حال کو مار کر اس کا دل مُردہ ماضی کے سامنے پیش کرتی ہے‘‘۔

’’اور کیا کیا بول گیا ہے؟ تمہارے ٹیگور نے ناک میں دم کر رکھا ہے‘‘۔
’’چھن چھن چھن
جو پہرا دے سو ہی پہنوں
جو دے سو ہی کھائوں…
جہاں بٹھا دے تاں ہی بیٹھوں…
’’سے یُو لَو می‘‘۔ میں نے التجا کی

’’آئی لو یو‘‘۔ اس نے جواب دیا۔

مقبول اچانک اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ گھڑی دیکھی اور کہا ’’مجھے ضروری کام سے جانا ہے، خدا حافظ‘‘ کہہ کر باہر گیا، کار میں بیٹھا اور چلا گیا۔ مقبول ایک سیلف میڈ بے حد دولت مند کاروباری ہے اور عموماً سیلف میڈ کامیاب لوگ خودغرض، ایگو سنٹرک ، خود پسند اور مغرور ہوتے ہیں۔ وہ بھی ایگوسنٹرک خود پسند اور مغرور ہے۔ مگر بہت سی چیزوں میں اصول پرست اور راست باز۔

وہ اپنی ایک کتاب میرے کمرے میں بھول گیا تھا۔ میں نے اسے اُٹھایا کہ سنبھال کر رکھ دوں، جب دوبارہ آیا، دے دوں گی۔ کتاب میں سے ایک کھلا خط سرک کر نیچے گر گیا۔ زنانہ کچی اردو تحریر۔

ڈیر بیڈ لک ڈائری۔ میں نے وہ خط پڑھا:
’’میرے پیارے خاوند عالی جناب خان مقبول احمد خان صاحب۔ کنیز دست بستہ آداب بجالاتی ہے اور عرض کرتی ہے کہ واضح ہو کہ منی آرڈر موصول ہوا۔ میں خیریت سے ہوں، بچے بھی خیریت سے ہیں گے اور آپ کو یاد کرتے ہیں گے۔ دیگر یہ کہ آپ کو ولایت گئے بہت برس ہوگئے۔ اب آکر اپنی پیاری صورت دکھا جائیے یا ہم لوگوں کو وہاں جلد از جلد کرکے بلالیجیے۔ اپنی ہیلتھ کا خیال رکھیں۔ مکرمہ ساس صاحبہ، مکرم سُسر صاحب آپ کو دُعا لکھواتے ہیں۔ پیاری نند شاہدہ خاتون سلام عرض کرتی ہے۔ باقی ہر دم آپ کو یاد کرنی والی۔

آپ کی
ناچیز زوجہ میمونہ سلطان
آج بتاریخ 9 ستمبر بمقام لاہور پوسٹ کیا۔‘‘

’’اصول پرست راست باز خان مقبول احمد خان صاحب۔ عالی جناب خان صاحب تم بھی۔

3 اکتوبر۔ گہری رات۔ اُلّو کی آنکھ۔ بلی کی آنکھ۔ چیتے کی آنکھ۔ برہن کی آنکھ۔ خاموشی سو رہی ہے۔ زرد خزاں ایک ایسی کمزور بے بس عورت ہے جس کا آدمی اسے چھوڑ کر بھاگ گیا ہو۔ میمونہ سلطان خزاں۔

ہری متی کایا جانے کس کا دلاری کا ایک بہت پرانا گھسا پٹا ریکارڈ ارجمند منزل میں موجود تھا۔ اور جہاں آراء آپا اسے اکثر بجایا کرتی تھیں… جل جانے دو۔ جل جانے دو اس دنیا کو… یاں کوئی کسی کا یار نہیں۔

تم بھی غم مت کرو میمونہ سلطان۔ اے غم کے مارو۔ غم مت کرو۔

ڈیر ڈائری۔ میں نے ابھی ابھی طے کیا ہے کل گارمنٹ فیکٹری کے سالانہ جلسے میں خوب ناچوں گی۔ WHAT THE BLOODY HELL

ڈیر ڈائری۔ تم تو وہی سنہ سڑسٹھ کی پرانی ڈائری ہو۔ آج میں نے اتنے برسوں بعد الماری کے نچلے خانے میں تم کو پڑا پایا۔ 3 اکتوبر کے بعد سارے ورق سادے۔ کیا ہوا تھا؟ ہارٹ اٹیک۔ طویل بیماری پھر DOLE پر جینا۔ شہر زاد موڈلنگ کررہی ہے۔ کبھی دیکھنے بھی نہیں آتی۔ روزی دیپالی کسی کو میں خط نہیں لکھتی، کیا لکھوں اپنی ساس کا سر؟ مقبول نے اچانک ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ ایک دائم المرض عورت کے ساتھ کون اپنا وقت خراب کرے! سنا ہے ایک حسین انگریز لڑکی اس کے ساتھ رہتی ہے۔

اور جب تم گئے تو میں نے دیکھا کہ خدا کے پائوں کے نشان فرش پر بنے تھے۔ ٹیگور نے کہا تھا۔

ہاہاہا ویری فنی۔

BUT WHEN THE NIGHT IS
ON THE HILLS, AND THE
GREAT VOICES
ROLL IN FROM THE SEA,
BY STARLIGHT AND BY
CANDLELIGT HE COMES
BACK TO ME

دُھت…
نادر دام تانا دی رے نا۔ نادر دام تانادی رے نا…

شیری کا باپ جیرلڈ بلمونٹ ایک OAYLIB رسالے کا اسسٹنٹ ایڈیٹر ہوگیا ہے۔ سنا ہے اب ایک جرمن لڑکا اس کے ساتھ رہتا ہے۔ زندگی بڑی ڈرائونی چیز ہے۔ بھیانک۔

ڈیر گڈ لک ڈائری۔ آج صبح برسوں بعد مقبول نے فون کیا۔ بڑی درد مندی سے کہا اگر مجھے ملازمت کی ضرورت ہو ہیمبرگ میں اپنی برانچ میں ہلکا پھلکا ریسپشنسٹ کا کام دے دے گا جس میں مجھے محنت نہ کرنی پڑے۔ میں نے یہ پیش کش قبول کرنے سے انکار کیا۔

ڈیر بیڈ لک ڈائری۔ آج میں خود مقبول کے دفتر گئی تھی۔ وقت مغرور انسانوں کو بھکاری بنا دیتا ہے۔ میں نے اس سے کہا مجھے وہ جرمنی والی نوکری دے دے۔ بڑے اخلاق سے ملا۔ میرے متعلق خاصا متفکر نظر آتا تھا۔ اگلے مہینے سے ان شاء اللہ میں ہیمبرگ میں کام شروع کردوں گی۔ شہر زاد لاپتا ہے۔ شاید امریکا چلی گئی۔ باہر برف موسیقی کی طرح گر رہی ہے۔ پرسوں کرسمس ہے۔ میرے ساتھ کرسمس منانے والا کون ہے۔ چچا سارتر نے سچ کہا ہے: جہنم دوسرے لوگ ہیں۔ HELL IS OTHER PEOPLE

کرشن چتردشی … اندھیری رات میں ایک بار میں دیپالی کے ساتھ پدما پر گئی تھی۔ وہاں دیپالی نے ہم سب کے نام کے چراغ جلا کر پتوں کی کشتیاں بنا کر ان میں رکھے تھے اور ان کو پانی میں چھوڑ دیا تھا۔ وہ چراغ پانی پر بہتے کچھ دور جا کر گھپ اندھیرے میں کھو گئے تھے۔

ریحان الدین احمد سنا ہے کلکتہ سے ڈھاکے واپس چلے گئے۔ انڈیا میں دال زیادہ نہیں گلی۔ اب واپس ڈھاکہ میں بھی منسٹر نہ ہوجائیں تو میرا نام بدل دینا۔ لوگ پرسنالٹی چینج کی بات کرتے ہیں۔

’’اور میں تو ایسی رحم دل تھی کہ کتوں، بلیوں، بے عقل چڑیوں تک کی دلآزاری نہ کرتی تھی، لوگوں نے مجھے اتنے دُکھ کیوں دیے؟‘‘

’’MUSIC IN WHERE YOU HEAR IT‘‘

گارمنٹ فیکٹری میں میری سکھ رفیقِ کار منجیت کور بڑے جذبے سے گایا کرتی تھی: اِک بار جو ترے در آوے۔ وہ بھوساگرتوں تر جاوے۔ ہُن آجا عرشاں والیاں

جانے وہ ہے بھی کہ نہیں۔ اب ذرا ذرا شبہ ہو چلا ہے۔

”LOVE IS THE STATE
OF TOTAL SECURITY
NON-LOVE IS THE
STATE OF TOTAL ABSENCE”

ڈیر گڈ لک ڈائری۔ کل مقبول آیا تھا۔ بہت دیر بیٹھا رہا۔ کہنے لگا: میمونہ سلطان پیدائشی IMBECILE ہے۔ چچا کی لڑکی تھی اس لیے نوعمری میں اس سے شادی کردی گئی تھی۔ اسی وجہ سے وہ اس کے ساتھ کبھی زیادہ نہیں رہا۔ اب تک وہ اپنا بزنس پھیلانے میں مصروف تھا۔ اسلام میں چار جائز ہیں۔ کیا میں…؟

’’ہاں‘‘۔ میں نے جواب دیا۔
’’میں جلد سب معاملات طے کرتا ہوں‘‘۔
’’وہ بارنز والا مکان؟‘‘

’’اس سے زیادہ بڑا اور زیادہ شاندار گردونر اسکوائر میں‘‘۔

اس کے بعد سے وہ پھر غائب ہے… او مانجھی رے۔ افسوس کہ یہ نائو بھی۔

ہیمبرگ برانچ کا منیجر پنجابی ہے۔ جب سے بنگلہ دیش وار چھڑی ہے مجھے طعنے دیتا رہتا ہے۔

میں چُپ رہتی ہوں۔ جواب دے کر کہاں جائوں گی۔ زمانہ انسان کو بزدل اور مصلحت پسند بھی بنا دیتا ہے۔ کل معلوم ہوا مقبول کی بہن بہنوئی اور دو بھائی سب کے سب دوسرے ’’بہاریوں‘‘ کے ساتھ چٹاگانگ میں مارے گئے۔ سنا ہے مقبول کا صدمے کی وجہ سے نروس بریک ڈائون ہوگیا ہے۔ مجھے اپنے گھر والوں کی خیریت معلوم نہیں، اس کالی آندھی میں کس سے معلوم کروائوں۔ آج صبح یہاں کے سابق مشرقی پاکستانی حال بنگلہ دیشیوں کا ایک گروہ میرے پاس آیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں فوراً اس دفتر میں کام کرنا چھوڑ دوں، کیونکہ مقبول پاکستانی ہے۔ میں نے کہا پہلے ہم ہندوئوں کے خلاف تھے، اس لیے پاکستان بنایا۔ کیا مقبول مسلمان نہیں ہے؟ مگر وہ پاکستانی ہے، اور اگر میں یہاں کام کروں تو غدار… پھر کہاں جائوں؟ دوسری ملازمت مجھے آسانی سے نہیں ملے گی۔ میرے پاس کوئی اکیڈیمک کوالی فکیشن نہیں ہے۔ میں نے محض رقص میں مہارت حاصل کی تھی۔ میرے ہم وطن لڑ جھگڑ کر چلے گئے۔

آج صبح پنجابی منیجر نے مجھے خود ہی نوٹس دے دیا۔ میں نے مقبول کو ٹرنک کال کی۔ وہ کراچی گیا ہوا ہے۔

اب میں پھر ڈول پر جاتی ہوں۔
ہندو بنگالیوں کے ہاں کالی اور مہادیو کا تصور لرزہ خیز ہے۔ تخریب، سنسنی، قہر، بلاخیر ہلاکت۔ بھینکر اندھکار، خون، قیامت… دیپالی کی پھوپھی بھوتارنی دیبی چندر کنج میں بڑی عقیدت سے جھوم جھوم کر ایک ہندی کیرتن گاتی تھیں۔
اگڑدم بگڑ دم باجے ڈمرد۔ ناچے سدا شو جگت گرد
برہما ناچے وشنو ناچے، ناچے مہادیو
کھپڑلے کے کالی ناچے، ناچے چاروں دیو
کھپڑلے کے کالی ناچے… کھپڑے کے کالی ناچے…
نذر الاسلام کو کالی کے اس تصور نے کتنا فیسی نیٹ کیا تھا۔ کھپڑلے کے…
آتش نوانذرل کا بنگال اس وقت آگ اور خون میں ڈوب گیا۔ یہ جملہ بھی ڈیر ڈائری ایک کلیشے بن چکا ہے۔ اور کلیشے میں تبدیل ہوکر الفاظ اپنی معنویت اور اہمیت کھو دیتے ہیں۔
(جاری ہے)

چار سال گزر گئے۔ چار سال سے میں منتظر ہوں۔ شاید ایک دفعہ مقبول کے دل میں پھر نیکی آجائے اور وہ یاد کرلے۔ لیکن اب ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ وہ خود گروونز اسکوائر میں منتقل ہوچکا ہے۔ میں یہاں اس ملک میں شہر بہ شہر ادنیٰ ترین نوکریاں کرتی پھر رہی ہوں۔ مزدور طبقہ کے ترکوں اور ایشیائیوں کی بھیڑ میں شامل۔ ہم وطن اعلیٰ مرتبت بنگلہ دیشی یہاں ملتے ہیں کنّی کترا کے نکل جاتے ہیں کہ شاید میں ان سے امداد کے لئے کہوں گی۔ زیادہ تر نئی جنریشن والے تو مجھے پہچانتے ہی نہیں۔ انہوں نے میرا نام تک نہیں سُنا۔ پرانی نسل والوں کے لئے میں اب ایک EMBARRASSMANT ہوں۔ چند ایک نے مجھے سِٹرن مشہور کردیا ہے۔ کیا واقعی میرا کریک اپ ہوتا جارہا ہے؟ برتن دھو چکنے کے بعد رات گئے تک، جب تک ریسٹوران خالی نہیں ہوجاتا ایک کونے میں تنہا بیٹھی سڑک کو تکتی، لگاتار سگریٹ پیتی مغربی پوشاک میں ملبوس سانولی عورت۔ خالص انتظار۔ کچھ نہ ہونے کا انتظار۔ کیا مقبول اب بھی سامنے سڑک کے دھندلکے میں سے نمودار ہوسکتا ہے؟ ناممکن۔ اب یہ کیسے ممکن ہے۔
اسی طرح میں ایک روز ایک گوشہ میں بیٹھی سیاہ قہوہ پی رہی تھی۔ ایک خوفناک بوڑھے گلف عرب نے دور سے مجھے نوٹوں کی گڈی دکھائی۔ اس رات سے میں نے طعام خانے میں بیٹھ کر سڑک کو تکنا بھی چھوڑ دیا۔
رات آئینے میں مجھے اپنا عکس نظر نہیں آیا
کل میں فرینک فرٹ جارہی ہوں
304

حصہ