عظیم فارسی شاعررودکی

98

’’میں نے چریکی پہنی (ایک پرانی قسم کا دیسی جوتا)، گدھے پر سواری کی، اور اب میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ چینی جوتے اور عربی گھوڑے کو پہچان سکتا ہوں‘‘۔

یہ الفاظ ابوعبداللہ جعفر بن محمد رودکی کے ہیں جنہیں تاجکستان میں تاجک ادب او
ر ایران میں ’’جدید فارسی شاعری کا بانی‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ رودکی جس کا مطلب ایک ندی ہے، نے فارسی زبان و ادب کو ایک نئی جہت دی اور اپنی شاعری کے ذریعے فارسی ثقافت، اور ایک نئی فارسی زبان ’دری‘ کے احیاء میں نمایاں کردار ادا کیا۔

لندن اکیڈمی آف ایرانی اسٹڈیز کے سربراہ سید سلمان صفوی کہتے ہیں ’’رودکی سے پہلے فارسی ادب بنیادی طور پر زبانی تھا۔ ان کے کاموں نے ادب کو تحریری اور منظم شکل میں تبدیل کرنے میں مدد دی اور اسے آنے والی نسلوں کے لیے ایک حوالہ بنایا۔ رودکی نے اپنی نظموں میں مختلف موضوعات پر بھی توجہ دی ہے، جس نے فارسی شاعری کا دائرہ وسیع کیا۔ ان کی نظمیں سادہ اور رواں اسلوب کی خصوصیت رکھتی ہیں۔

رودکی نے سامانی سلطنت کے جس عہد میں زندگی گزاری وہ فارسی زبان و ادب کے عروج کا زمانہ تھا۔

ماوراء النہر میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ جب سامانی خاندان نے اقتدار سنبھالا۔ یہ خاندان اپنے بانی اسد بن سامان کے نام کی نسبت سے ’’سامانی‘‘ کہلایا۔ اس خاندان کی آزاد حکومت کی بنیاد نصر بن احمد بن اسد نے رکھی، جو اس خاندان کا پہلا حکمران تھا۔ نصر کی سلطنت ماوراء النہر، وسط ایشیا کا ایک علاقہ جس میں موجودہ ازبکستان، تاجکستان اور جنوب مغربی قازقستان کے ساتھ موجودہ افغانستان اور خراسان کے وسیع علاقے بھی اس کے زیرِ اقتدار تھے۔

سامانی عہد فارسی ادب کے سب سے اہم اور زرخیز ادوار میں سے ایک تھا۔ اس دور میں فارسی زبان کے فروغ، قومی تہواروں کی توقیر، اور ادب اور ادب کے بڑے لوگوں کی سرپرستی کی گئی۔ اس میں رودکی جیسے شاعر کو اہم مقام حاصل ہوا۔ رودکی کے اصل مقام پیدائش کے بارے میںاختلاف ہے ۔ کچھ مؤرخین کے مطابق رودکی کی ولادت 21دسمبر 858ء کو ہوئی تھی۔ لکھنے والوں نے رودکی کے بارے میں زیادہ تر معلومات اُن کے اشعار سے اخذ کی ہیں۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اُن کا تعلق سمرقند کے قریب ایک گاؤں رودک سے تھا۔

رودکی دیکھنے سے قاصر تھے لیکن ان کی نابینائی کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔ قدیم شاعروں جیسے دقیقی، فردوسی اور ناصر خسرو نے ان کے نابینا ہونے کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن ان کے اشعار میں قدرتی مناظر کی زندہ تصویرکشی کی وجہ سے کئی محققین اس بات پر سوال اٹھاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری میں بصری تشبیہات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے دنیا کو دیکھا تھا۔

ایک روسی ویب سائٹ کے مضمون کے مطابق سوویت سائنس دان گیراسیموو ایم ایم کا دعویٰ ہے کہ اندھا پن 60 سال کی عمر سے پہلے نہیں تھا، اُس کے مطابق رودکی سے نفرت کرنے والے وزیر کے مشورے پر امیر نصر نے شاعر کو سرخ گرم لوہے کے ٹکڑے سے اندھا کردیا تھا، اور یہ کہ ’’آنکھ کی گولی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا اور شاید خراب بھی نہیں ہوئی تھی‘‘، چونکہ آنکھیں ہٹانے کے نتیجے میں کوئی علامت نہیں ملی تھی۔

ایک درباری شاعر نے، جو پہلے رودکی سے حسد کرتا تھا، امیر نصر کو شرمندہ کرتے ہوئے کہا ’’تاریخ میں آپ کو اُس حکمران کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے عظیم شاعر کو اندھا کردیا۔‘‘

بعد میں امیر نصر نے اپنے کیے پر پچھتاتے ہوئے وزیر کو پھانسی دینے کا حکم دیا اور رودکی کو دل کھول کر تحفے دینے کا حکم دیا، لیکن شاعر نے فراخدلی سے تحفے لینے سے انکار کردیا اور سب کچھ چھوڑ کر اپنے آبائی گاؤں چلا گیا جہاں غربت اور مشکلات میں باقی زندگی گزاری۔ لیکن اس سے قبل ایک روایت کے مطابق اُن کی دولت اور خزانے اس حد کو پہنچ گئے تھے کہ اُن کے دو سو غلام تھے اور اس کے قافلے میں چار سو اونٹ تھے۔ اُن کے بعد کسی شاعر کو ایسی طاقت اور سعادت حاصل نہیں ہوئی۔

رودکی بچپن سے ہی غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے۔ انہوں نے فارسی میں شاعری کے نئے سانچے متعارف کرائے۔ وہ پہلے شاعر تھے جنہوں نے ’’دیوان‘‘ ترتیب دیا۔ ان کی شاعری میں قصیدہ، غزل، مثنوی، اور رباعی جیسی مختلف اصناف شامل تھیٖں، اور اس میں مزید وسعت بھی آپ نے ہی دی۔ اسی کے ساتھ انہوں نے عربی شاعری کے اثرات کو فارسی میں ڈھال کر ایک نئی روایت بھی قائم کی ہے۔

انہیں ’’دوہے‘‘ (دو بیتی اشعار، دوہرا اور دوپد اس کے دوسرے نام ہیں) کے موجد اور تخلیق کار کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ایرانی شعراء ان کی عظمت اور قدر پر اتنا پختہ یقین رکھتے ہیں کہ انہوں نے بار بار اپنے علمی و ادبی اثرات میں ان کے اشعار کو جگہ دی ہے، جس سے ان کی شاعری کی گہرائی اور اثر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

رودکی نے آٹھ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا اور کم عمری میں شاعری اور موسیقی میں مہارت حاصل کرلی تھی۔ انہیں موسیقی کے آلے ’’چنگ‘‘ بجانے کی تربیت ابوالابک بختیار نامی موسیقار سے ملی تھی۔ ’’چنگ‘‘ موسیقی کا قدیم ساز ہے جسے خاص انداز میں ہلاکر آواز نکالی جاتی ہے، یہ بلوچستان کی علاقائی موسیقی کا لازمی جزو ہوا کرتا تھا۔

جیسا کہ ذکر ہوا، رودکی نے سامانی دربار میں امیر نصر دوم کے دور میں بطور درباری شاعر 40 سال خدمات انجام دیں۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ وہ نصر دوم کے والد احمد سامانی کے دور سے ہی دربار سے وابستہ تھے۔

درباری شاعر کا کردار صرف تفریح فراہم کرنا نہیں بلکہ بادشاہ کو مشورہ دینا اور اخلاقی رہنمائی فراہم کرنا بھی تھا۔ سامانی وزیر ابوالفضل بلعمی کا وقت ان کے عروج کا دور رہا، کیونکہ انہوں نے سرپرستی کے ساتھ فارسی ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ بلعمی نے رودکی کو عربی اور فارسی کے تمام شاعروں میں سب سے بہتر تسلیم کیا۔

ان کے اشعار کی اثرانگیزی کے ایک مشہور واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ امیر نصر دوم سامانی بخارا سے ہرات اس خیال سے منتقل ہوئے کہ وہاں کے حالات بہتر ہیں، لیکن ہرات کا موسم اور ماحول بخارا کی خوشبو، سرسبزی، اور جمال سے بہت مختلف تھا۔ بخارا اُس وقت سامانی سلطنت کا مرکز اور فارسی تہذیب کا ایک اہم مرکز تھا۔ اس جدائی نے نہ صرف درباریوں بلکہ خود امیر پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ لیکن امیر ابونصر مختلف بہانوں سے بخارا واپسی کو مؤخر کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے چار سال ہرات میں گزار دیے۔ امیر کے سپاہی اور ساتھی بخارا کو یاد کرنے لگے اور رودکی کے پاس گئے، جو اُس وقت امیر کے قریبی اور معتمد شاعر تھے۔ انہوں نے رودکی سے کہا کہ اگر وہ اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتے ہوئے امیر کو بخارا واپس جانے پر آمادہ کرلیں تو انہیں پچاس ہزار درہم انعام دیا جائے گا۔ فارسی کے ادیبوں نے لکھا ہے کہ رودکی جانتے تھے کہ اس خوبصورت موسم میں نثر کا اثر نہیں ہوگا، لہٰذا انہوں نے ایک غزل کہی اور چنگ بجاکر اسے گانے لگے۔ غزل کے سحر اور رودکی کی گائیکی نے امیر کو اتنا متاثر کیا کہ وہ فوراً بخارا واپس لوٹنے پر راضی ہوگیا۔

’’بوی جوی مولیان‘‘ رودکی کی شاعری کا ایک شاہکار ہے، یہ نظم نہ صرف ان کی شہرت کا باعث بنی بلکہ فارسی ادب میں ایک ایسا سنگِ میل ثابت ہوئی جس نے آنے والی نسلوں کے لیے شاعری کے نئے معیار قائم کیے۔ جب یہ اشعار امیر کے سامنے پڑھے گئے، تو ان کی فصاحت اور جذباتی اثر نے امیر کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ فوراً بخارا واپس جانے کا فیصلہ کربیٹھا۔(باقی صفحہ 15پر)

روایت ہے کہ امیر نے اشعار سن کر اتنا جوش محسوس کیا کہ روایت کے مطابق وہ ننگے پاؤں گھوڑے پر سوار ہوکر بخارا روانہ ہوگیا۔

بوی جوی مولیان آید ہمی
یاد یار مہربان آید ہمی
ریگ آموی و درشتی راہ او
زیر پایم پرنیان آید ہمی
آب جیحون از نشاط روی دوست
خنگ ما را تا میان آید ہمی
ای بخارا شاد باش و دیر زی
میر زی تو شادمان آید ہمی
میر ماہ است و بخارا آسمان
ماہ سوی آسمان آید ہمی
میر سرو است و بخارا بوستان
سرو سوی بوستان آید ہمی

ترجمہ:
’’جُوئے مولیان کی خوشبو آرہی ہے، یارِ مہرباں کی یاد تازہ ہورہی ہے۔

دریائے آمو کی ریت اور اس کے راستے کی سختی و ناہمواری میرے قدموں کے نیچے حریر کی طرح نرم و لطیف محسوس ہورہی ہے۔

یار کے چہرے کے دیدار کی خوشی میں دریائے جیحون کا پانی ہمارے گھوڑے کی کمر تک بلند ہورہا ہے۔

اے بخارا، خوش رہو اور دیر تک جیو، امیر تمہاری طرف خوشی خوشی آ رہا ہے۔

امیر ماہ کی مانند ہے اور بخارا آسمان کی طرح، ماہ آسمان کی طرف جا رہا ہے۔

امیر سرو (چنار) کی مانند ہے اور بخارا باغ کی طرح، سرو باغ کی طرف جا رہا ہے۔

لیکن پھر ابو علی محمد بلعمی کے زوال کے بعد رودکی کی درباری حیثیت ختم ہو گئی،اورانہیں دربار سے نکال دیا گیا۔

رشیدی سمرقندی فارسی زبان کے ایک ایرانی شاعر تھے جو چھٹی صدی ہجری کے دوران سمرقند کے رہنے والے تھے۔ انہیں ’’سیدالشعرا‘‘ اور ’’تاج الشعرا‘‘ کے القاب سے نوازا گیا،کئی تصانیف اورکتابیں تخلیق کیں اور وہ ایلیک خانیان کے دربار سے وابستہ شاعروں میں شامل تھے۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے رودکی کی نظموں کی تعداد کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا ’’میں نے رودکی کے اشعار کو تیرہ بار گنا اور ان کی کُل تعداد ایک لاکھ تک پہنچتی تھی‘‘۔ لیکن ان کا بیشتر حصہ ضائع ہوگیا۔ جو اشعار آج دستیاب ہیں، ان کی تعداد ہزار سے بھی کم ہے۔ ان کے مشہور اشعار اور قصائد فارسی لغات میں محفوظ ہیں، جن میں ’’لغتِ فرس‘‘ بھی شامل ہے۔ رودکی کی سب سے مشہور تخلیق کلیلہ و دِمنہ کی منظوم شکل ہے، جو ہندوستانی کہانیوں کے ایک مجموعے پر مبنی ہے۔ امیر نصر دوم کے حکم پر یہ کتاب عربی سے فارسی میں ترجمہ کی گئی، جسے رودکی نے منظوم انداز میں پیش کیا۔

رودکی کی زندگی اور ان کا ادبی کام فارسی زبان کی ترقی میں بڑی اہمیت اور حیثیت رکھتا ہے، اور ایرانی و تاجک شناخت کے پس منظر میں بھی خاصا اہم ہے۔ ان کی ادبی تخلیقات نہ صرف ان کے عہد کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ آج بھی ثقافتی ورثے کی صورت میں زندہ ہیں۔ 1958ء میں رودکی کی 1100 ویں سالگرہ ایران اور تاجک سوویت سوشلسٹ ریپبلک میں بڑی دھوم دھام سے منائی گئی، جس نے ان کی شاعری اور شخصیت کو دوبارہ زندہ کیا۔ ان کی قبر پنجکنت، تاجکستان میں دریافت کی گئی اور 1958ء میں ہی شاعر کی قبر کے مقام پر ایک مقبرہ تعمیر کیا گیا، جہاں سوویت ماہرِ آثار قدیمہ میخائیل گراسیموف نے ان کا نیا مجسمہ بھی تیار کیا، جس نے رودکی کی عظمت کو مزید اجاگر کیا۔ پھر تاجکستان میں 2002ء سے لے کر اب تک ہر سال 22 ستمبر کو یومِ رودکی منایا جاتا ہے۔ یہ دن خاص طور پر رودکی کی یاد میں مختلف پروگراموں اور تقریبات کے ذریعے منایا جاتا ہے، جس میں علمی مکالمے، محافلِ ادب، اور اہلِ قلم سے ملاقاتیں شامل ہوتی ہیں۔ تاجک معاشرہ اس دن کو ایک اہم موقع کے طور پر دیکھتا ہے تاکہ رودکی کی شخصیت اور کام کو اجاگر اور نوجوان نسل کو اس بلند پایہ شاعر اور اس کے ادبی ورثے سے آگاہ کیا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اہمیت و قدردانی میں تاجکستان کے مختلف علاقوں میں ان کے نام پر ادارے اور مقامات قائم ہیں۔ کولاب شہر کی جامعہ، زبان و ادب کی تحقیق گاہ، بعض مکتب اور کوچے، اور کئی ثقافتی و تعلیمی ادارے رودکی کے نام سے منسوب ہیں۔ ’’پدرِ شعرِ فارسی‘‘ کے لقب سے معروف اس شاعر کے مجسمے بھی مختلف تعلیمی و ثقافتی مراکز کے قریب نصب کیے گئے ہیں، جیسے کہ دوشنبہ کے باغِ رودکی میں، اور زراعتی جامعہ کے قریب موجود مجسمے۔ دارالحکومت کی مرکزی سڑک کا نام بھی رودکی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں تاجکستان میں ادب و ثقافت کے شعبے میں دیا جانے والا ریاستی اعزاز بھی رودکی کے نام پر ہے، جو ہر سال تاجک ادیبوں اور ہنر مندوں کی اہم اور شان دار تخلیقات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایران میں ان کی یاد میں ہر سال 25 دسمبر کو ’’یومِ رودکی‘‘ منایا جاتا ہے۔

ان کا کیا عمدہ شعر ہے:
ہیچ شادی نیست اندر این جہان
برتر از دیدارِ روی دوستان

’’اس جہاں میں دوستوں کے چہروں کے دیدار سے بڑھ کر کوئی اور خوشی نہیں ہے‘‘۔

اسی طرح کہا:

زمانہ پندی آزاد وار داد مرا
زمانہ را چو نیکو بنگری ہمہ پند است
بہ روزِ نیکِ کسان گفت تا تو غم نخوری
بسا کسا کہ بہ روزِ تو آرزو مند است
زمانہ گفت مرا خشم خویش دار نگاہ
کرا زبان نہ بہ بند است پای دربند است

اپنے عہد کا عظیم آدمی، جو علم وادب کا آفتاب تھا، زندگی کے آخری ایام میں غربت کے کرب سہتے ہوئے اپنے گاؤں لوٹ آیا تھا۔ وہیں، اپنی زمین کی خاموش گلیوں میں، دنیا کے ہنگاموں سے دور، اس کی زندگی کا چراغ بجھ گیا۔

اور میں ان کے ان الفاظ پر غور کر رہا ہوں:

’’میں نے چریکی پہنی، گدھے پر سواری کی، اور آج میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ چینی جوتے اور عربی گھوڑے کو پہچان سکتا ہوں۔‘‘

حصہ