بزمِ یارانِ سخن کے زیر اہتمام

46

بزمِ یارانِ سخن کراچی ایک ادبی تنظیم ہے جو کہ 1976ء سے ادبی پروگرام منعقد دے رہی ہے۔ ہر مہینے ان کا مشاعرہ ہوتا ہے، ان کے تمام پروگرام طے شدہ وقت پر شروع ہوتے ہیں اور تاخیر سے آنے والے شعرا کو مشاعرے میں کلام سنانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس تنظیم نے کُل سندھ مشاعرہ منعقد کیا جس کی مجلسِ صدارت میں رفیع الدین راز اور رونق حیات شامل تھے۔ مہمانانِ خصوصی میں اختر سعیدی، پروفیسر نوید سروش، افتخار ملک ایڈووکیٹ اور نعمان حسن ایڈووکیٹ شامل تھے۔ مشاعرے کی نظامت عابد شیروانی ایڈووکیٹ اور کشور عروج نے کی۔ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے تلاوتِ کلام پاک کی سعادت حاصل کی جبکہ صاحبزادہ عتیق الرحمن اور انیلہ نعمان نے نعتِ رسولؐ پیش کی۔

رفیع الدین راز‘ رونق حیات‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ اختر سعیدی‘ پروفیسر نوید سروش‘ سلیم فوز‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ سلمان صدیقی‘ حکیم نصر عسکری‘ شوکت کمال چیمہ‘ شاعر علی شاعر‘ سید مقبول زیدی‘ اختر ہاشمی‘ ڈاکٹر رانا خالد‘ احمد سعید خان‘ شبیر نازش‘ پروفیسر شائستہ سحر‘ عتیق الرحمن‘ تنویر سخن‘ حامد علی سید‘ یاسمین یاس‘ یاسر سعید صدیقی‘ سید افسر علی افسر‘ لاریب رحمن‘ ذیشان عثمانی‘ اریب قاضی‘ کشور عروج‘ سرور چوہان‘ حنا سجاول ایڈووکیٹ‘ ہما ساریہ‘ شہ زین فراز‘ انیلہ نعمان‘ افتخار خان زادہ‘ نعمت منتشا اور نورین فیاض نے کلام سنایا۔ سامعین میں زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد شامل تھے جن میں محمد ابراہیم بسمل‘ محمد قمر خان‘ شاہ کفیل الدین‘ نور محمد‘ طلعت نثار‘ عبدالباسط‘ ہما ناز‘ سید فیاض الحسن‘ شرمین سانول‘ محمد قاسم‘ صغیر شاہد انصاری‘ جاوید حسین صدیقی‘ فروق عرشی‘ فراز احمد شامل تھے۔

بزم یارانِ سخن کراچی کے صدر سلمان صدیقی نے کہا کہ کراچی میں اس وقت ادبی فضا پوری توانائی کے ساتھ قائم ہے، اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت جاری ہے، کراچی کی ادبی تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت مشاعرے کررہی ہیں۔ شاعر ہر اہم بات پر قلم اٹھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاعری میں وہ تمام مضامین شامل کیے جائیں جن سے معاشرے میں بہتری پیدا ہو، ہماری نوجوان نسل غالب اور میر تقی میر سے واقف نہیں۔ اردو بین الاقوامی زبان ہے جو کہ پوری دنیا میں بولی جاتی ہے، لہٰذا اردو کو اس کا جائز مقام دیا جائے۔

راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے کہا کہ مشاعرہ ہماری تہذیبی روایت ہے‘ متحدہ ہندوستان میں نوابین اور ریاستوںکے والی وارث ادبی محافل کی مدد کیا کرتے تھے۔ کراچی کی بہت سی تنظیمیں اس لیے ختم ہوگئی ہیں کہ انہیں فنڈز نہیں مل رہے، اس وقت جو لوگ ادبی تنظیموں کی مدد کررہے ہیں وہ قابلِ ستائش ہیں۔ کراچی دبستانوںکا دبستان ہے، تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد پڑھے لکھے تھے جنہوں نے پاکستان کے لیے بہت قربانیاں دیں، ہر شعبے میں پاکستان کے لیے کام کیا، پاکستان کی ترقی میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ جینوئن قلم کاروں کو ان کا جائز مقام اور حق نہیں مل سکا۔ حکومتِ پاکستان اور حکومتِ سندھ نے جن اداروں کو اردو ادب و زبان کی ترقی کے لیے مختص کیا ہے وہاں تعصبات کی بنیاد ڈالی گئی، اردو زبان کی ترقی محدود کردی گئی۔

رفیع الدین راز نے کہا کہ میں جو کچھ بھی ہوںکراچی کے لوگوں کی محبت کی وجہ سے ہوں۔ کراچی زندہ دلوں کا شہر ہے اور منی پاکستان ہے۔ سندھ میں سندھی اردو مشاعرے ہوتے ہیں، ہم سندھی زبان کے مخالف نہیں ہیں، سندھی زبان کی ترقی سے اردو کی ترقی مشروط ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بزمِ یارانِ سخن بہترین ادبی تنظیموں میں سے ایک ہے جس نے آج کامیاب مشاعرہ منعقد کیا۔ شعرائے کرام محبتوں کے سفیر ہیں، ان کے کلام سے درس حاصل کریں، یہ زندگی کے تمام مسائل پر ڈسکس کرتے ہیں۔

پروفیسر نوید سروش نے کہا کہ میں اور میری ٹیم میرپور خاص سے بزم یارانِ سخن کی دعوت پر کراچی آئے ہیں۔ کراچی اور میرپور خاص کی شاعری میں زمین آسمان کا فرق ہے، کراچی ایک بین الاقوامی شہر ہے جب کہ میرپور خاص چھوٹا سا علاقہ ہے جس میں مختلف اقوام رہائش پزیر ہیں۔ ہم مشکل حالات کے باوجود اردو زبان کی پروموشن میں مصروف ہیں، وہاں سندھی مشاعروں کا بھی رواج ہے، سندھی ہمارے محسن اور بھائی ہیں، ہم سندھ کی دھرتی سے محبت کرتے ہیں۔ آج کے مشاعرے میں شریک ہوکر بہت خوشی ہورہی ہے۔

فیاض الحسن فیاض نے کہا کہ میں حیدرآباد سے مشاعرے میں شرکت کے لیے آیا ہوں، حیدرآباد ایک بڑا شہر ہے جو کراچی سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشاعروں میں اب کرسیاں لگائی جارہی ہیں، فرشی نشستوں کا رواج ختم ہورہا ہے۔ میں کامیاب مشاعرے کے انعقاد پر بزم یارانِ سخن کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاکستان کی ترقی میں شاعروں کا بڑا حصہ ہے، جن شعرا نے پاکستان بنانے کی تحریک میں اپنی شاعری سے لوگوںکو گرمایا، ان میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی، اُن میں علامہ اقبال بھی شامل ہیں۔ ہم نے ان کے فن اور شخصیت کی ترویج و اشاعت کے لیے اقبال اسٹوڈیو بنایا ہے جہاں ہم اقبالیات پر کام کررہے ہیں۔

افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ شاعری ہمارے لہو میں شامل ہے، ہمارے معاشرے کا حصہ ہے، ہر زمانے کے تعلیمی نصاب میں شاعری کو دخل ہے۔ جو ادارے شاعری کو ترقی دے رہے ہیں وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

حصہ