خواب

58

مریم گیارہ سال کی ایک چھوٹی سی بچی تھی، وہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ حساس طبیعت بھی رکھتی تھی۔ اس کا تعلق غریب گھرانے سے تھا، باپ مزدوری کیا کرتا تھا اور ماں گھروں میں کام کرتی تھی۔ اکثر و بیشتر مریم بھی اپنے ننھے منے ہاتھوں سے اپنی ماں کی مدد کرتی تھی تاکہ کم وقت میں زیادہ گھروں کا کام نمٹا کر زیادہ آمدنی ہوسکے اور گھر کا چولہا جلتا رہے۔

باپ کی دیہاڑی کبھی لگتی اور کبھی مایوس ہی لوٹنا پڑتا۔ گویا دادا، دادی سمیت پانچ بہن بھائیوں کی کفالت کا بوجھ مریم کی ماں کے ناتواں کاندھوں پر تھا… اورگھر مریم دیکھتی۔ مریم نے جوں توں قرآن مجید تو پڑھ لیا۔ اس کے والدین اتنی استطاعت نہیں رکھتے تھے کہ بچوں کو اسکول بھیج سکیں۔

مریم اکثر یہ سوچا کرتی کہ کیا ہمارے حالات سدا یونہی رہیں گے۔ میرے بھائی گلیوں میں کھیل کود کر بڑے ہوں گے اور پھر ابو کی جگہ مزدوری کرنے لگیں گے۔ خاندانی روایات کے مطابق میری بہنوں کی شادی وٹے سٹے میں کردی جائے گی اور زندگی اسی ڈگر پر چلتی رہے گی؟

یہ سب سوچتے ایک دن اچانک اس نے بلند آواز میں کہا ’’نہیں…‘‘ اس کے گھر والے چونک گئے کہ اسے کیا ہوگیا ہے! پوچھنے پر وہ بولی ’’کچھ نہیں‘‘۔ پھر اس نے دل ہی دل میں یہ عزم کرلیا کہ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ میں اللہ رب العزت کی مدد سے اپنے حالات، اپنی دنیا خود بدلوں گی۔

اگلی صبح مریم سوکر اٹھی تو ماں کے ساتھ اس نے قریب واقع ایک سلائی سینٹر کا رُخ کیا اور وہاں داخلہ لے لیا۔ چوں کہ اس کا عزم پختہ تھا اور لگن میں انتہائی شدت تھی، اس نے سلائی کا کام مقررہ مدت سے بھی کم وقت میں سیکھ لیا۔

اپنی لگن اور محنت کے باعث اب مریم اچھی سلائی کرنے لگی تھی۔ اجرت سے جو رقم اس کے پاس جمع ہوئی اس سے اُس نے ایک سلائی مشین خریدی اور گھر پر سلائی کرنے لگی۔ اس کی مہارت کے چرچے ہونے لگے۔ مریم کی آمدنی ہوئی تو اس نے اپنے تمام بہن بھائیوں کو اسکول میں داخل کرادیا۔

ایک روز ایک خوش پوش خاتون مسز زبیر، مریم کا پتا پوچھتے ہوئے مریم کے گھر پہنچیں اور اس سے کہا ’’میں نے سنا ہے آپ بہت اچھی سلائی کرتی ہیں۔‘‘

مریم نے جواب دیا ’’جی! کوشش کرتی ہوں اور اللہ کامیاب کردیتا ہے۔‘‘

مسز زبیر نے آزمائشی طور پر دو سوٹ مریم کو دیے اور ڈیزائن دکھائے کہ اس طرح بنانے ہیں۔ مسز زبیر نے مزید کہا کہ ’’میں ایک بوتیک چلاتی ہوں۔ اگر تمہارے سوٹ مجھے پسند آئے تو میں اپنے بوتیک کے کپڑے تم سے سلوائوں گی اور اچھا معاوضہ دوں گی۔‘‘

ایک ہفتے بعد مسز زبیر سوٹ لینے آئیں تو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئیں کہ جو ڈیزائن مریم کو بتایا تھا سوٹ عین اسی کے مطابق تھا، اس میں ذرا بھی فرق نہ تھا۔ حسبِِ وعدہ مسز زبیر نے بوتیک کے تمام آرڈر مریم کو دینے شروع کردیے۔ آرڈر اس قدر زیادہ ہوا کرتے تھے کہ مریم کو مزید چار خواتین کو اپنی مدد کے لیے رکھنا پڑا۔

مسز زبیر خوش تھیں کہ ان کی سیل چار گنا بڑھ گئی تھی۔ اِدھر مریم کی آمدنی میں بھی خاصا اضافہ ہوگیا تھا۔ مریم نے بہن بھائیوں کو کالج میں داخل کرا دیا اور والدین کو گھر بٹھاکر ان کی خدمت کرنے لگی۔
بلند ارادوں، بلند ہمتی اور سخت جدوجہد کے نتیجے میں آج مریم کا اپنا بوتیک ہے۔ مریم سمیت تمام بہن بھائیوں کی اچھے گھروں میں شادیاں ہوچکی ہیں۔ اُس نے جو خواب دیکھے تھے ان کی تعبیر پا لی۔

حصہ