کیا پایا کیا کھویا

48

ڈھلتے سال کی یہ ٹھنڈی شامیں آخری سانسیں لے رہی ہیں، گرچہ سردیوں کے دن طویل نہیں، پَر گزرے سال کی گھڑیوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، کیوں کہ سالِ رواں اختتام پزیر ہورہا ہے۔ کیا پایا کیا کھویا۔ ہاں اداس سی آواز آئی :زندگی کا ایک سال اور گزر گیا۔ کہاں گزارا، کن کاموں اور سرگرمیوں میں بیت گیا، کیا کچھ پایا، یا یوں ہی گنوا دیا! اس نے اپنے جھریوں والے لرزتے ہاتھوں کو دیکھا۔ خالی ہاتھ، جو کچھ کمایا اِس دنیا کے واسطے ہی تھا۔

اور اب کسی وقت بھی اس جہاں سے ناتا ٹوٹ سکتا ہے۔ اس کی آنکھیں بھیگ گئیں (لمبی سانس لیتے ہوئے): اب تو اگلا سفر بڑا طویل ہے۔ اسے یاد آیا دو، تین سال قبل جب وہ کسی سفر کے لیے روانہ ہورہا تھا تو کیسے اُس نے کام کی ایک ایک چیز اپنے ساتھ رکھ لی تھی کہ کہیں راستے میں یا دوسرے شہر جاکر اسے پریشانی نہ ہو، بلکہ جانے سے کئی دن پہلے ہی ان اشیاکی فہرست بنا لی تھی جسے کئی مرتبہ چیک کیا کہ کوئی ضرورت کی چیز رہ تو نہیں گئی۔ اور اب جو میں کسی وقت بھی اُس اگلے جہاں کے سفر پر روانہ ہوسکتا ہوں تو کیا اس دوسرے ٹھکانے کے لیے مال و اسباب میرے پاس جمع ہے جو مجھے اُس جہاں میں سکون اور آرام دے؟ اس نے ایک جھرجھری لی اور اپنا دامن ٹٹولا … چند ٹوٹی پھوٹی نمازیں، سال کے چند روزے اور، اور……

اس نے ٹیرس کے باہر نگاہ دوڑائی، رات کی پرچھائیوں نے شام کو اندھیروں میں سمیٹ لیا تھا۔ اُسے قبر کا اندھیرا یاد آگیا اور مولانا صاحب کی آواز کانوں میں گونجتی سنائی دی: قبر کے اندھیرے کو آپ کے اعمالِ صالحہ ہی ختم کرکے اجالا کرسکتے ہیں۔ ذہن کے دریچوں پر بازگشت ہوئی: نیک اعمال، حقوق اللہ اور حقوق العباد؟ نہ ہی میں حقوق اللہ اور نہ حقوق العباد کی پاس داری کرپایا۔ وہ ان یادوں کے ساتھ بہت پیچھے چلا گیا: میرے سامنے میرے کتنے عزیز میری مدد کے طلب گار تھے، بہن کتنی امید لے کر میرے دروازے پر آئی تھی۔ میں نے اس بے بس بہن کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اِس وقت تو میں خود بہت پریشان ہوں، تمہاری کوئی مالی مدد نہیں کرسکتا۔ اسے اس وقت بہن کی آنکھوں کی بے بسی یاد آگئی، چند آنسو ڈھلک پڑے۔ لیکن اب ان آنسوؤں کا کیا فائدہ…! پھر اسی قسم کے بہت سے واقعات اسے یاد آتے گئے۔

میں تو صرف اپنی اولاد کی ضروریات ہی پوری کرنے اور مال جمع کرنے میں مصروف رہا۔ اولاد کی صحیح تربیت کرنے سے بھی محروم رہا۔ آج میرا مال اور میری اولاد میرے کس کام کے؟ میرے اس مال کی وجہ سے بھائی، بھائی کا دشمن ہوگیا ہے۔ پھر اُس نے گھڑی کی طرف دیکھا، رات کے دس بج رہے تھے، بہو اور بیٹا ابھی تک واپس نہیں آئے تھے، لیکن پھر وہ خود ہی مسکرانے لگا، یہ تو روز اسی طرح دیر سے لوٹتے ہیں اور اب تو بچوں کی بھی اسکول کی چھٹیاں ہیں۔

شاید میں بھی اسی طرح دیر سے لوٹتا تھا تو اماں کی آنکھیں ہمارے انتظار میں دروازے پر لگی ہوتی تھی۔

میں تو اس زندگی اور یہاں کی لذتوں میں گم اپنے اگلے سفر اور منزل سے غافل رہا، لیکن اب بھی کچھ گھڑیاں میرے ہاتھ میں ہیں، ان گھڑیوں میں مَیں آخرت کے ابدی گھر کے لیے کچھ سامان سمیٹ سکتا ہوں۔ وہ سامنے لگے آئینے کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ سفید بال، جھریوں بھرا بے رونق چہرہ …کیا اوقات ہے تیری اے انسان! جس جوانی اور خوب صورتی پر تجھے گھمنڈ اور ناز تھا وہ تو تیرا ماضی بن گیا، سب ختم ہوگیا۔ اب جس طرح اس سالِ رواں کے اختتام میں چند دن رہتے ہیں، اسی طرح تیری زندگی کے بھی چند دن رہ گئے ہیں۔ دل سے ایک آواز آئی: اب بھی وقت ہے، توبہ کا دروازہ کھلا ہے، کچھ تلافی تو ہوسکتی ہے۔

آج وہ حقیقت میں اپنے رب کے آگے سر بہ سجود اشک بار اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا ۔ بے شک رب اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔

 

حصہ