کچھ ہی سال قبل کی بات ہے جب گھر کے مرد آواز لگاتے کہ ’’لڑکیاں اُوٹ میں چلی جائیں، گھر میں باہر سے کوئی مرد داخل ہورہا ہے‘‘، تو گھر کی خواتین فوراً ڈرائنگ روم یا بیٹھک کو خالی کردیتیں یا صحن سے کچن یا گھر کے اندرونی حصے میں چلی جاتیں اور اُس وقت تک رہتیں جب تک گھر میں غیر مرد کسی کام سے ہوتا۔ اگر کبھی مجبوری یا کسی ضرورت سے سامنے آنا بھی ہوتا تو لباس وغیرہ کی درستی، شائستگی یا حجاب کے ساتھ آتیں۔
پڑوس میں جب بھی تعمیراتی کام ہوتا، سب سے پہلے پڑوسی یا مزدوروں کے نگران کی طرف سے یہ اعلان ہوتا کہ ’’خواتین پردہ کرلیں‘‘ اس اعلان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ خواتین گھر میں برقع پہن لیں، بلکہ مقصد تھا کہ وہ کسی بری نظر کا شکار نہ ہوں جو اس تعمیراتی کام کے دوران گھر کے اندر پڑ سکتی ہیں، اس لیے اپنے تحفظ اور حفاظت کے لیے آڑ اختیار کرلیں۔ گھر چاہے کسی کٹر مذہبی کا ہو یا آزاد خیال لبرل کا… کسی کو گھر کے اندر بلا اجازت پردہ توڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر آج بدقسمتی سے ایسے یوٹیوبر یا وی لاگر پیدا ہوگئے ہیں جو خود اپنا سب سے محفوظ گوشہ یعنی بیڈ روم ساری دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ گھر کی خواتین کو روزمرہ کے کام کرتے پل پل دکھاتے ہیں۔ خاندان کی کوئی تقریب ہو یا شادی بیاہ، ایک ایک منٹ کو ریکارڈ کرکے نہایت ہی فضول اور بلامقصد باتیں شامل کرتے ہیں۔ اکثر ان باتوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا، بے سروپا باتیں ہیں جو اب فحاشی کی حدود کو پار کررہی ہیں۔
شائستگی، تہذیب، تمیز کا مطلب تک نہ جاننے والے اپنی وڈیوز سے لاکھوں کما رہے ہیں۔ حیرت ان علما و مشائخ عظام کی خاموشی پر بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے ایسی ناشائستہ وڈیوز کی کمائی کو اسلام کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے حرام کیوں نہیں کہا؟ کیا گھر میں اپنی بیوی کو باتھ روم سے نکلتے یا دلہن کے ہر ایک زاویے کی وڈیو کو جائز کہہ کر اس کی کمائی اس لیے کھائی جاسکتی ہے کہ ملک میں ان کو پسندیدہ جاب نہیں ملی؟ سوال یہ ہے کہ اگر جاب نہیں مل رہی تو انسان کو معاشرتی اخلاقیات کے ممنوع امور کو سرانجام دینا چاہیے؟
اس وقت کروڑوں وی لاگر ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ ہر گھر میں ایک دو وی لاگر یا یوٹیوبر موجود ہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ مگر ان کروڑوں وی لاگر یا یوٹیوبر کی اصلاح یا تربیت کے لیے نہ تو کوئی نجی سطح پر متحرک ہے، نہ حکومت نے کسی قسم کا کوئی ضابطۂ اخلاق بنایا ہے۔ جب بھی ملک میں ان کی زیادہ مخالفت ہو تو ’’حکومتِ وقت‘‘ اس مسئلے کے تدارک کے لیے اس چیز پر قلیل مدتی پابندی لگا دیتی ہے جیسے ٹک ٹاک پر لگاکر حکومت نے اپنی ’’سنجیدگی‘‘ کا ثبوت دیا تھا۔ حالاں کہ پابندی کسی بھی چیز کی برائیاں ختم کرنے کا حل نہیں بلکہ کچھ قاعدے قوانین بنانے پڑتے ہیں، جس طرح دنیا نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔ ملک کے خلاف یا معاشرتی ضابطہ کے مخالف مواد ایک خودکار سسٹم کے تحت بلاک ہوجاتا ہے مگر ہمارے ملک میں ابھی تک ایسا نہیں ہے۔ اس ضمن میں یوٹیوب انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ وڈیوزکے اصول بنائے اور ملک میں جو معاشرتی اقدار ہیں ان کا احترام کرتے ہوئے یوٹیوبرز کو اجازت نہ دے کہ وہ خلاف ورزی کریں۔