پتھر کے دور میں انسان خود سے زندہ رہنے کی جدوجہد کرتا تھا اور خود کے لیے زندہ رہتا تھا۔ مگر جب سے انسانوں نے مل جل کر رہنا سیکھا… خاندان، قبائل اور معاشرہ وجود میں آئے، ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف پیشے وجود میں آئے، خونیں رشتوں کی بنیاد پر خاندان وجود میں آئے اور خاندان کا ہر فرد ایک دوسرے کے لیے جیتا اور مرتا رہا، اور آج بھی جن ممالک میں خاندانی نظام موجود ہے اور مشترکہ خاندان یعنی تمام لوگ ایک چھت کے نیچے رہتے ہیں اور ساتھ کھاتے پکاتے ہیں وہاں حلم، رواداری، محبت، والدین کی خدمت، بڑے بوڑھوں کا احترام اور رشتوں کا تقدس نہ صرف قائم ہے بلکہ خوش حالی اور یگانگت بھی ہے۔
یورپ کے صنعتی انقلاب اور مادیت پرستی نے ایک نئی ثقافت اور تہذیب کو جنم دیا، اور جدید فلسفۂ حیات نے خودغرض اور انسانیت سوز تہذیب و ثقافت کو اپنی لپیٹ میں لے کر پورے خاندانی نظام کو تار تار کردیا جس سے رشتوں کا تقدس بھی پامال ہوگیا۔ یورپ، امریکا اور ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں Joint Family Systemکا کوئی تصور نہیں۔ اگر میاں بیوی کچھ برسوں کے لیے ساتھ رہ رہے ہیں تو وہ ایک دوسرے کا بوجھ اٹھانے کے روادار نہیں ہیں۔ دونوں life partner بن کے رہتے ہیں اور یہ partnership مفاد پر ذرا سی ضرب پڑنے سے فوراً ختم (بریک اَپ) ہوجاتی ہے اور ’’تُو نہیں اور سہی، اور نہیں اور سہی‘‘ کے مصداق یہ جا وہ جا۔
تین سال قبل امریکی اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں اسٹوری چھپی تھی کہ ایک نوجوان لڑکی اپارٹمنٹ کے نیچے رو رہی تھی، اخبار کے نمائندے نے اُس سے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو؟ تو اُس نے روتے ہوئے بتایا کہ یہ اپارٹمنٹ میرے باپ کا ہے، میرے باپ نے یہ کہہ کر نکال دیا ہے کہ ’’دوسرا شخص مجھے زیادہ کرایہ دے رہا ہے جو تم نہیں دے سکتیں‘‘۔ یہ مادر پدر آزاد خودغرض معاشرے کی ایک جھلک ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہاں خاندان کا تصور بالکل ختم ہوچکا ہے، ہر شہر میں single parentکالونیاں بنائی گئی ہیں جہاں عورتیں تنہا اپنے بچوں کو پالنے یا لاوارث بچوں کے اداروں میں ڈال دینے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے حقیقی باپ کی شناخت نہیں ہے۔ اگر گھر چار افراد پر مشتمل ہے تو چاروں کا نوکری کرنا لازمی ہے کیوں کہ ماں باپ بچوں کی، اور بچے ماں باپ کی کفالت سے بری الذمہ ہوتے ہیں۔
حکومتوں نے بے روزگاروں کے لیے وظیفے وغیرہ کا انتظام کررکھا ہے۔ سہولیاتِ زندگی تو میسر ہیں لیکن حقیقی خوشیاں میسر نہیں۔
آسائشِ حیات تو مل جائے گی
لیکن سکونِ قلب مقدر کی بات ہے
یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں خودکشیوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ جاپان نے ہر لحاظ سے ہوش ربا ترقی کرلی ہے مگر سب سے زیادہ خودکشیاں جاپان میں ہی ہوتی ہیں۔ جاپان بوڑھوں کا ملک بنتا جارہا ہے۔ پیدائش کی شرح اس رفتار سے کم ہورہی ہے کہ آئندہ پچاس سال میں جاپان کی آبادی کم ترین سطح پر پہنچ جائے گی۔
ترقی یافتہ ممالک کے منتشر خاندانی نظام کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے شادی جیسے پاکیزہ اور مقدس بندھن کو مکمل طور پر خیرباد کہہ دیا ہے حالانکہ آج بھی روایتی طور پر یہ چرچ یا اپنے مذہبی عبادت خانوں یا عدالتوں میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں، مگر خودغرضی اور مادہ پرستی نے ان کو اپنی ذات تک محدود کردیا ہے۔ دیکھیں تو ترقی اور خوش حالی اُوجِ ثریا پہ پہنچ چکی ہے مگر انسانی اقدار کو ذاتی مفادات نے کچل کر رکھ دیا ہے۔ مشینی زندگی نے دلوں میں کسل پیدا کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی اقوام اور امریکا و روس نے گزشتہ تین صدیوں میں دنیا میں انسانیت کُش جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
الحمدللہ مسلم دنیا میں طاغوتی تہذیب، جدید ذرائع ابلاغ اور حقوقِ نسواں کے نام پر کی جانے والی تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی مسلمان نکاح مسنونہ کے ذریعے ہی رشتۂ ازدواج قائم کرتے ہیں جس سے نیا خاندان وجود میں آتا ہے۔ رشتوں کا تقدس آج بھی قائم ہے۔ شریعت نے جن رشتوں کو حرام اور جن رشتوں کو جائز قرار دیا ہے، اس کی پاس داری آج بھی قائم ہے۔ مگر یہ بات بھی تیزی سے پھیل چکی ہے کہ مشترکہ خاندان اور ایک چھت کے نیچے رہنے والوں کی تعداد تیزی سے گھٹتی جارہی ہے۔ طلاق اور خلع کی شرح شہروں میں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ شادی کے فوراً بعد علیحدہ رہنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور بوڑھے والدین بے سہارا ہوتے جارہے ہیں جو کہ شرعی اعتبار سے قابل ِ سزا جرم دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر ہے۔ اسی لیے ہندوستان، پاکستان اور دیگر ملکوں میں parents protections law بنائے گئے ہیں اور بیٹوں کوقانونی طور پر بوڑھے والدین کی کفالت کا پابند بنایا گیا ہے۔ والدین اولاد کی عدم توجہی کے باوجود اُن کی محبت کی وجہ سے عدالت نہیں جاتے۔
عرب دنیا میں دولت کی فراوانی کی وجہ سے ایک دوسرے کی محتاجی ختم ہوگئی ہے لہٰذا الگ الگ رہنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ جنوبی ایشیاکے مسلم ممالک بھی جدیدیت کی لپیٹ میں ہیں جہاں خاندانی شیرازہ بکھر رہا ہے۔ قبائل تو آج بھی مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، بھارت کے ہندو معاشرے میں شہری زندگی کے مقابلے میں دیہات میں آج بھی مشترکہ خاندانی نظام موجود ہے۔ چونکہ ہندوؤں میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہیں ہے اور نہ بیوہ و طلاق یافتہ خواتین کو دوسری شادی کی اجازت ہے، اس وجہ سے دیگر اخلاقی برائیاں عام ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام کو بکھیرنے میں آزاد شہوت رانی اور معاشرتی اور ملکی قوانین کا اہم کردار ہے۔
نصف صدی سے پہلے تک مسلم معاشرے میں علیحدہ رہنے کا رجحان خال خال ہی تھا مگر ریڈیو ، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور اب سوشل میڈیا کی ایجاد کے بعد پوری دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے، لہٰذا مشرق اور مغرب کے فاصلے مٹ چکے ہیں۔ چند منٹوں کے اندر پوری دنیا کے واقعات اور حالات سے ہر کوئی واقف ہوجاتا ہے۔ فلموں اور ڈراموں نے خاندانی تصور کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں بے پردگی کا دور دور تک شائبہ نہیں ہوتا تھا، مگر الیکٹرانک آلات اور اسمارٹ فون نے بے پردگی کی تمام حدود کو پھلانگ لیا ہے۔ بیجنگ پلس کانفرنس کے بعد حقوقِ نسواں کے نام پر عورت کی آزادی کو اقوام متحدہ کی حمایت کے بعد آج کی عورت نہ صرف اپنے نسوانی تقدس سے محروم ہو گئی ہے بلکہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسی عالمی تحریک نے خاندانی نظام کے تار و پود کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ عورت ہی وہ قابلِ احترام ہستی ہے جس کے کردار و عمل سے خاندانی نظام قائم رہتا ہے۔
وجودِ زَن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں