آخر شب کے ہم سفر

57

’’اس وقت کہاں جارہی ہو…؟‘‘
’’گھر… عظیم پورہ‘‘۔
’’تم شادی کے لیے یہاں ارجمند منزل میں نہیں ٹھیری ہو…؟‘‘

’’ہرگز نہیں۔ امی آگئی ہیں۔ وہی ان لوگوں کی محبت میں گھلی جارہی ہیں۔ میں روزانہ آپ سے ملنے یہاں آجاتی تھی۔ اچھا خدا حافظ‘‘۔

دیپالی اسے دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ وہ روش پر سے گزر کر بہ سرعت پھاٹک کی طرف چلی گئی۔ دیپالی نے رات کی تاریکی میں ڈوبی کائی آلود ارجمند منزل پر نظر ڈالی۔ اندر کمروں میں تیز روشنی ہورہی تھی۔ چہل پہل، گہما گہمی۔ مہمانوں سے گھر بھرا ہوا تھا۔ دو دن بعد اکمل اپنی دلہن کے ساتھ مغربی پاکستان واپس جانے والا تھا۔ وہ پشاور ایئرفورس اسٹیشن پر تعینات تھا۔ اپنی کزن ناصرہ کی طرح وہ بھی بڑا شدید قوم پرست پاکستانی تھا۔ پاکستان کی دفاعی سروسز کا ایک فرض شناس، جوشیلا، محب وطن ہوا باز۔

شنکری کا ناچ
نئی دہلی
3 اکتوبر 1965ء
مائی ڈیئر دیپالی!
تمہارا خط آیا تھا۔ جلد جواب نہ دے سکی۔ اپنی شدید پریشانیوں اور فکروں میں مبتلا تھی۔ میرا بڑا لڑکا کمل اب فوج میں لیفٹیننٹ ہے۔ وہ محاذ پر لڑ رہا تھا۔ خدا باپ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ خیریت سے گھر واپس آگیا۔ مگر ایک بُری خبر سناتی ہوں۔ جہاں آراء کا بیٹا اکمل جموں پر بمباری کرتے ہوئے مارا گیا۔ یہ خبر مجھے بالکل اتفاقیہ معلوم ہوئی۔ میں سوچ سکتی ہوں کہ جہاں آراء بے چاری کا کیا حال ہوگا۔ تم تو اس بے چاری کی شادی میں شرکت کے لیے پچھلے سال ہی وطن آئی تھیں۔
جب کمل اور اکمل پیدا ہوئے تو یاد نہیں کس نے یا تم نے یا میرے شوہر نے کہا تھا کہ کسی لفظ سے پہلے ”ا“ لگانے سے اس لفظ کی ضد بن جاتی ہے۔ سچ یہ نام ہی منحوس نکلا۔
موجودہ صورتِ حال میں جہاں آراء کو تعزیت کا خط لکھنا بھی ممکن نہیں۔ کیا قیامت ہے۔ تم اور جہاں آراء ٹیگور کا ’’شنکری ناچے۔ اتی گمبھیر نیل اومبرے ڈمرو باجے‘‘ بہت گایا کرتی تھیں… سو بیچارہ اکمل مرشد زادہ نیل اومبر میں ڈمرو بجانے گیا اور اس کے اپنے پرخچے اُڑ گئے۔ ہندوستان اور پاکستان کی سرحد پر تمہاری شنکری زوروں میں ناچ گئی۔ تم وہاں آرام سے بیٹھی ہو۔ خوش قسمت ہو۔ ٹچ ووڈ۔
بیرسٹر صاحب کو سلام
تمہاری
روزی
گڈ لک ڈائری
یکم جنوری 1967ء…16 پُوش 1373…19 رمضان 1386ھ… 18 پُوہ 2023
نام: یاسمین بلمونٹ
دفتر کا پتا:۔
گھر کا پتہ:۔
ٹیلی فون نمبر:۔
کار نمبر:۔
ڈرائیونگ لائسنس نمبر:۔
ٹی وی لائسنس نمبر:۔
بینک اکائونٹ نمبر:۔
پاسپورٹ نمبر:۔
لائف انشورنس پالیسی:۔
بلڈ گروپ:۔
عینک نمبر:۔

آج سالِ نو ہے۔ اللہ کا نام لے کر اس نئی نویلی ڈائری کو شروع کرتی ہوں جو ڈھاکہ سے کوئی آنے والا مجھے دے گیا ہے۔ نام ہے ’’گڈ لک ڈائری‘‘۔ اس میں مَیں لکھ رہی ہوں۔ لہٰذا اس کا نام ”بیڈلک“ ڈائری ہونا چاہیے۔ توبہ۔ توبہ۔ یااللہ میں تیری ناشکری نہیں کرتی۔ ہزاروں سے اچھی ہوں۔ توبہ۔ توبہ۔ اللہ معاف کرنا۔ اللہ تجھ پر میرا سارا حال روشن ہے۔ میرے گناہوں کو معاف کرنا۔ تُو غفور و رحیم ہے۔ میں نے بہت نافرمانیاں کیں۔ اپنے حافظ قرآن مولوی باپ کو صدمہ پہنچایا۔ اسٹیج پر ناچی، گائی، مشرک سے بیاہ کیا۔ وہ بھی جائز نکاح ہی نہ تھا۔ بیٹی کو عیسائی بنوا دیا۔ اللہ میں تیرے غضب کے خوف سے تھرتھر کانپتی ہوں۔ مجھے عذاب قبر سے بچائیو۔ اللہ تجھے اپنے حبیبؐ کا واسطہ۔

آج سالِ نو ہے۔ میں نے سینئر مسز بلمونٹ کو ٹرنک کال کی تھی کہ نئے سال کی مبارک باد اپنی بیٹی کو دوں۔ معلوم ہوا دادی پوتی دونوں ماسؔ کے لیے چرچ گئی ہوئی ہیں۔ اللہ مجھے معاف کرنا۔ اللہ میں اپنے حالات، اپنی مجبوریوں کا شکار تھی۔ اللہ تُو تو میرے سب مصائب اور مجبوریوں سے واقف ہے۔ پھر بھی مجھے سزا دے گا؟

ڈیر ڈائری۔ اس ملک کی عورتوں کے بھی خون سفید ہیں۔ شہرؔ زاد بیمار پڑی ہے۔ بڑھیا مسز بلمونٹ نے اسے اسپتال میں ڈال دیا۔ اسے دیکھنے بھی نہیں جاتی۔ وہ گائوں یہاں سے اتنی دور ہے۔ صبح کو ٹرین سے جائو، رات کو تھکن سے چُور ٹرین سے لوٹو۔ صبح سویرے پھر فیکٹری وقت پر پہنچو۔ یہ بے کیفی، مسلسل محنت، جدوجہد کی زندگی کب تک چلے گی! ڈاکٹر نے کہہ دیا ہے تمہارا دل کمزور ہے۔ ڈانس کرنا بالکل چھوڑ دو۔ میری بیٹی شہر زاد جس کا اب پورا نام شہر زاد کرسٹینا جوزفین بلمونٹ ہے، مجھ سے کہتی ہے اس کے دین میں احساسِ جرم اور احساسِ گناہ کی شدت ہی بخشش کا باعث بنتی ہے۔ بہت سے راہب اپنی پیٹھ پر خود کوڑے لگاتے ہیں، تو کوڑے تو مجھے زندگی ہی لگا رہی ہے۔ اللہ میرے عیوب سے چشم پوشی کرے۔

ڈیر گُڈ لک ڈائری، پرسوں شام میں شیریؔ کو دیکھ کر اسپتال سے باہر آئی۔ گائوں کی خاموش سڑک شدید بارش میں نظروں سے اوجھل ہوچکی تھی۔ میں بس اسٹاپ پر کھڑی ہوگئی۔ شیری مجھ سے بہت رکھائی سے پیش آئی تھی۔ شاید اس کی دادی نہیں چاہتی کہ میں اس سے زیادہ ملوں جُلوں۔ شہر زاد ابھی ٹانگ برابر چھوکری ہے مگر اپنے باپ کی طرح بے رحم اور کائیاں۔ اور دادی کی طرح سرد مزاج۔ وہ شاید یہ بھی نہیں چاہتی کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ اس کی ماں ایک کالی عورت ہے۔ اس کا اپنا رنگ سفید ہے۔ سبز آنکھیں، چاکلیٹ بال۔ اپنے حسین و جمیل باپ پر گئی ہے۔ وہ اپنے آپ کو دوغلا ظاہر کرنا نہیں چاہتی۔ آج وہ مجھ سے صاف صاف کہہ رہی تھی ’’ممی! تم بار بار ہر ہفتے مجھے دیکھنے اتنی دور سے کیوں آتی ہو۔ مت آیا کرو۔ میں اچھی ہوں‘‘۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں باہر آکر سنسان بس اسٹاپ پر کوچ کا انتظار کررہی تھی۔ مینہ زیادہ تیزی سے برسنے لگا۔ بارش کے قطروں اور میرے آنسوئوں نے میرا چہرہ بھگودیا تھا۔

اچانک مجھے احساس ہوا کوئی مجھے دیکھ رہا ہے۔ اللہ اللہ کہتے ہوئے میں چہرے پر اوٹ کرکے ذرا پیچھے ہٹی۔ اس اجنبی نے مجھے اللہ اللہ کہتے سن لیا۔ اردو میں بڑی ہمدردی کے ساتھ دریافت کیا ’’کیا آپ کا کوئی عزیز اس اسپتال میں ہے؟‘‘

میں نے جھجھک کر اس کی صورت پر نظر ڈالی۔ گورا چٹا، لمبا تڑنگا، پنجابی یا پٹھان.. خاصا خوش شکل.. برساتی اوڑھے وہ بھی اسی کوچ کا منتظر تھا۔ اس کے دردمند لہجے کے یہ دو بول سن کر میں جو اُس وقت اُس لمحے اس اتنی بڑی دُنیا میں خود کو بالکل تنہا، بے سہارا اور بے یار و مددگار محسوس کررہی تھی، مجھے ایسا لگا جیسے تاریک طوفانی برہمپتر کی لہروں پر ایک روشن محفوظ نوکا اچانک نمودار ہوگئی۔ میں نے ممنونیت کے ساتھ اسے جواب دیا ”میری لڑکی اسپتال میں ہے۔ اچھی ہے۔ اگلے ہفتے اُسے ڈسچارج کردیں گے۔“

تو پھر میں اس بُری طرح بلک بلک کر رو کیوں رہی تھی؟ اُس نے وجہ نہ پوچھی۔ روشن کوچ سلیٹی پھواروں میں سے نمودار ہوئی۔ وہ میرے ساتھ ہی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ راستے میں اس نے بتایا بیڈ فورڈ سے آرہا تھا۔ یہاں پہنچ کر اس کی کار خراب ہوگئی۔ اسے ایک گیراج میں چھوڑ کر اب بس پکڑکر شہر جارہا ہے۔ آبائی وطن رامپور۔ یہاں لاہور سے آیا ہے۔ بزنس کرتا ہے۔ باتوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ معلوم ہوتا تھا۔ کہنے لگا: آپ بنگالی ہیں، مگر اردو اتنی صاف کیسے بولتی ہیں اور وہ بھی پنجابی لہجے میں؟ میں نے بتایا: میں برسوں سے لندن کی ایک ایسی گارمنٹ فیکٹری میں مزدوری کررہی ہوں جہاں میری ساتھ والیاں سب پنجابی عورتیں ہیں۔ جی ہاں میں ڈانسر ہوں لیکن ہول سیل قمیص سیتی ہوں۔ ناکام ڈانسر۔

ڈیر گڈ لک ڈائری۔ آج شام میں اور مقبول دیر تک ہمیٹن کورٹ کے باغات میں ٹہلتے رہے۔ وہ کہہ رہا تھا عنقریب بارنزؔ میں ایک بہت بڑا مکان خریدنے والا ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں کہا، مگر عقل مند کو اشارہ کافی ہے۔

مقبول کہتا ہے میں فیکٹری میں مزدوری کرنا چھوڑدوں اور اس کی فرم میں کام کروں۔ چارگنی زیادہ تنخواہ۔ مگر نہ جانے کیوں دل گوارا نہیں کرتا۔ میں اس کی احسان مند نہیں ہونا چاہتی۔ ابھی وہ میری بہت عزت کرتا ہے، بہت رکھ رکھائو سے ملتا ہے۔ پھر میں اس کی ملازم ہوجائوں گی اور وہ میرا آقا… نہیں، یہ بات غلط ہوگی۔ ہے نا اللہ؟ تُو مجھے صراطِ مستقیم پر چلائے جائیو۔ آمین۔

جب شہرؔ زاد چھوٹی سی تھی۔ میں اور جیرلڈ چیلسی کی ایک میوز میں رہتے تھے۔ ٹیلی ویژن پر ایک پلے دیکھا تھا AUTUMN CROCUS۔ ایک غریب اسکول ٹیچر جس کی زندگی میں کوئی رنگ نہیں۔ اسپنسٹر۔ کم مایہ۔ وہ پیسہ جوڑ کر چھٹی گزارنے سوئٹرز لینڈ جاتی ہے۔ وہاں اسے ایک بڑا دلآویز سا شخص ملتا ہے۔ نہایت اداس۔ ہلکا پھلکا غم ناک سا رومانس۔ چھٹیاں ختم ہوتی ہیں۔ وہ آدمی اپنے ملک چلا جاتا ہے۔ اسکول ٹیچر اپنی اجاڑ زندگی میں واپس انگلستان آجاتی ہے۔

بڑھیا مسز بلمونٹ نے آج تک مجھے اپنے گھر نہیں بلایا۔ حرام زادی۔

شہرزاد کہتی ہے بہت خوبصورت دو منزلہ مکان ہے۔ بہت بڑا باغ۔ بڑھیا اپنی جوانی میں ونڈ مِل تھیٹر میں بھی ناچ چکی ہے۔ بہت دولت مند ہے۔ شیری اسی لیے اُس کی خوشامد میں لگی رہتی ہے۔ اور کوئی رشتے دار ہے نہیں۔ بڑھیا اپنے اکلوتے لڑکے جیرلڈ کو عاق کرچکی ہے۔ شہر زاد نے آج تک مجھے کوئی معمولی سا تحفہ تک خرید کر نہیں دیا۔ ہاں پچھلی کرسمس پر ایک ہینڈ بیگ لے آئی تھی۔ سال میں دو ایک بار مجھ سے مل لیتی ہے۔ خیر، خدا اسے خوش رکھے۔ ابا مجھے عاق کرچکے ہیں۔ دوسرے رشتے داروں نے مجھے بھلا دیا۔ شاید وہ لوگ میرا ذکر بھی کرتے ہوں گے تو اس طرح کہ جل پائے گوری کے مولویوں کے خاندان کی لڑکی اور آوارہ نکل گئی۔ خاندان کی ناک کٹادی۔ خیر میرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ میرے ہم وطن جب کبھی یہاں ملتے ہیں خصوصاً ڈھاکے والے، بڑے جوش سے کہتے ہیں کراچی آجائیے، آپ کے لیے حکومت ڈانس اکیڈمی بنادے گی۔ جب میں نے اس کے لیے خط کتابت شروع کی، وہاں سے کوئی جواب ہی نہ آیا۔ میں بہت کمزور، بہت غیر اہم، بہت معمولی ہستی ہوں۔ کون میری سنے گا! وہ تو بالکل شروع شروع کی بات تھی۔ ایک بنگالی منسٹر کو خوش کرنا تھا جس کی سفارش پر حکومت نے میرے فارن ٹور کا بندوبست کردیا تھا۔ اس کے بعد ٹائیں ٹائیں فِش۔

فیکٹری میں میرے ساتھ کی دو پنجابی لڑکیاں بہت اچھی سنگر ہیں۔ ان میں سے ایک نے مجھے بابا فریدؒ کی ایک چیز سکھائی…

مرنے تے مینوں ہٹک نہ مُلّاں
مینوں مرن دا شوق مٹاون دے
کنجری بیناں میری عزت نہ گھٹدی
مینوں نچ کے یار مناواں دے

کراچی میں بندر روڈ کے جگمگاتے اُونچے فلیٹوں کے نیچے رات کے وقت ایک اندھا فقیر، سر پر گول ٹوپی… ایک بچے کی اُنگلی تھامے آنکلتا، اور منہ اُٹھا کر چلّاتا… ”اے گم کے مارو… خدا تمہارا گم دور کرے“۔ اور دفعتاً بڑی سریلی دلدوز آواز میں گانے لگتا… ”نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر۔ رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر، پڑی اپنی برائیوں پہ جو نظر تو نگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا…

اتوار 30 جولائی 1967ء… 21 ربیع الثانی 1387ء… 15 ساون 2024… 12 شرابون 1374ء

گڈ لک ڈائری۔ اس برس کے بھی سات مہینے نکل گئے۔ اور ایک اکیلا، تنہا انسان اور اتنے سارے کیلنڈروں میں گھرا ہوا ہے۔ کیوں؟ مسیحی، اسلامی، بنگالی، بکرمی اور شاید ایرانیوں کا ایک اور کیلنڈر ہے۔ نہ جانے اس ڈائری کے چھاپنے والوں نے ایرانی کیلنڈر بھی کیوں نہ شامل کردیا۔ ذرا وقت کا کنفیوژن اور بڑھتا۔

او مانجھی رے۔ او رنگین کشتی والے ملاح۔ کشتی موڑ لے۔ اس گھاٹ سے لگادے۔ یہ ندی کب تک اس طرح بہے گی۔ اس نائو کو کب تک کھینا ہے۔ شام سویرے کس دُھن میں چلا جاتا ہے۔ تیرے دل میں کیا راز چھپے ہیں۔ بھائی مانجھی۔ کیا اس دریا کا کوئی انت نہیں۔ اس کا کوئی سرا نہیں۔ او مانجھی رے۔
(جاری ہے)

حصہ