مشینی زندگی احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

81

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

علامہ اقبال کا یہ شعر انسانی رشتوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی نشان دہی کرتاہے۔ مروت ہی وہ جذبۂ انسانی ہے جو رشتوں کو دوام بخشتا ہے۔ مروت یا ہمدردی ہی ایک آدمی کو دوسرے کے دکھ سُکھ میں شامل ہونے پر آمادہ کرتی ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کی غم گساری کے لیے پیدا کیا ہے۔ خواجہ میر درد فرماتے ہیں:

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

انسان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے ذمے دو کام لگائے۔ ایک حقوق اللہ، دوسرا حقوق العباد۔ حقوق العباد کی عدم ادائی وہ گناہ ہے جس کو اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ حقوق العباد کی ادائی کا دارومدار صرف اور صرف ہمدردی اور مروت سے منسوب ہے۔

آپؐ کی بعثت کے زمانے میں پوری دنیا کفر و شرک، ظلم اور جبر کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کمزور انسانوں پر طاقتور قابض تھے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ تھا۔ عورت کی سامان تعیش کے سوا کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ایسے میں آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعالمین بناکر بھیجا۔ آپؐ آئے تو زمانے کو قرار آیا۔ آپؐ غریبوں اور یتیموں کا ملجا و ماوا بن کر آئے۔

ہر سمت میں چھائی تھی جہالت ہی جہالت
انسان کو عظمت بھی محمدؐ سے ملی ہے

آپؐ نے فرمایا ’’جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ اور جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔‘‘ آپؐ نے انسان تو انسان جانوروں پر بھی شفقت و رحمت کرنے کا حکم دیا۔ دکھی انسان پر شفقت و محبت نچھاور کرنا اسلام کی بنیادی اخلاقیات میں سے اعلیٰ ترین حسنِ خلق ہے۔

سورۃ المامون میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو آخرت کو جھٹلاتا ہے، یہ وہی ہے جو یتیموں کو دھتکارتا ہے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتا اور نہ لوگوں کو اس کی ترغیب دیتا ہے۔‘‘

انسان اکیلا نہیں رہ سکتا، ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے۔ ہمارے درمیان خونیں اور نسبی رشتوں کے علاوہ نظریہ ضرورت کا رشتہ موجود ہے۔ ہر آدمی ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کا سامان فراہم کررہا ہے جو ہمارے رزق سے وابستہ ہے۔ پوری دنیا کا کارخانۂ حیات اسی طرح چل رہا ہے۔ کسان، گوالا، بینکر، درزی، مزدور، استاد، تاجر سب ایک دوسرے کے لیے کام کررہے ہیں۔ لہٰذا اس لین دین کے کاروبارِ زندگی میں افادیت اُسی وقت آئے گی جب ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے۔ انسانوں کی آبادی جیسے جیسے بڑھتی گئی، ضروریات پوری کرنے کے لیے ایجادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا، اور اب یہ دنیا مشینوں کی دنیا بن چکی ہے، گھر سے لے کر مل، فیکٹری تک، دفتر سے لے کر بازار تک، سفری سہولیات سے لے کر پیغام رسانی تک کا کام سرعت کے ساتھ مشینیں انجام دے رہی ہیں۔ گھریلو خواتین آٹا گوندھنے کی زحمت سے لے کر کپڑے دھونے تک، مسالہ پیسنے سے لے کر گھر کی صفائی تک ہر کام سے آزاد ہوچکی ہیں۔ کسان کھیتوں میں ہل چلانے، بیج بونے، فصل کاٹنے، بالیوں سے اناج الگ کرنے، کھیتوں میں آب پاشی کرنے تک ہر کام مشین سے کررہا ہے۔

یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد یہ دنیا مکمل طور پر مادہ پرست اور زر پرست بن چکی ہے۔ یورپی اقوام نے ہوسِ ملک گیری میں ایشیا اور افریقہ کے تمام ممالک پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ قتل و غارت گری کا بازار بھی گرم رکھا، اور ان تمام ممالک کی معدنی دولت اور عوام کے سرمائے کو لوٹ کر اپنے ملکوں میں ترقی اور خوش حالی قائم کی۔ ان کی جارحیت کا سب سے بڑا شکار مسلم دنیا ہوئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آج سے 70،80 سال قبل ترکی اور افغانستان کے سوا تمام مسلم دنیا یورپی اقوام کی غلامی میں تھی۔ ان کی ہوسِ ملک گیری جو بے رحمی، بے مروتی، مفاد پرستی اور بالادستی کی مظہر تھی، اس نے ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ پر آمادہ کردیا، اور دو عالمی جنگیں جو 1914ء اور 1939ء میں شروع ہوئیں اور پانچ سال تک جاری رہیں، ان میں کروڑوں انسان موت کی آغوش میں چلے گئے اور اس سے زیادہ معذور ہوئے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک پوری مسلم دنیا خاک و خون میں ڈوبی ہوئی ہے، تمام مسلم ممالک امریکا، یورپ، روس، اسرائیل اور بھارت کی جارحیت اور سفاکی کا شکار، اور تباہی سے دوچار ہیں۔ سوا کروڑ سے زیادہ مسلمان مرد، عورتیں اور بچے جدید ہتھیاروں کے ذریعے تہہ تیغ کیے جا چکے ہیں۔ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بھی استعمال ہورہے ہیں۔

مشین جو انسانوں کی ایجاد ہے، اس نے انسانی کردار کو محدود سے محدود تر کردیا ہے، جس کی وجہ سے بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے جس سے غربت کی شرح میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور جرائم بھی بڑھ رہے ہیں۔

مشینوں نے ایک دوسرے پر انحصار کم کردیا ہے جس سے انسانی رشتے متاثر ہورہے ہیں، خاندان بکھر رہے ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے سرعت کے ساتھ انسان کو اپنا قیدی بنا لیا ہے۔ آج لوگ اپنے گھروں میں بھی موبائل دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو وقت دینے کے بجائے موبائل سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی ایجاد کے بعد یہ دنیا چند سالوں میں روبوٹک ہوجائے گی اور مرد و زن ایک دوسرے سے رشتۂ ازدواج قائم کرنے کے بجائے روبوٹک بیوی اور شوہر رکھنے کے عادی ہوجائیں گے جس کا آغاز جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ہوچکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جاپان کے 40 فیصد سے زیادہ نوجوان شادی کے جھمیلوں میں پڑنے سے خود کو آزاد کرچکے ہیں اور Visual Wife اور Husband Visual رکھ رہے ہیں۔ امردگی یعنی بغیر شادی کے رہنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ BBC پر تو یہ رپورٹ بھی شائع ہوچکی ہے کہ ایسی website موجود ہیں جہاں پوری دنیا سے لوگ امرد ہوکر ممبر بن رہے ہیں اور اپنے نام کا اندراج کرواتے ہیں اور تنہا رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ یورپ کی مادر پدر آزاد تہذیب نے تو خاندانی نظام کو ہی ختم کردیا ہے۔ ایسی کالونیاں بنی ہوئی ہیں جہاں Single Parent یعنی مائیں بچوں کو لے کر رہتی ہیں جن کے حقیقی باپ کا پتا نہیں، اور نہ کوئی مرد اس کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔ بوڑھے ماں باپ کی خدمت اور تیمارداری کرنے کے بجائے انہیں اولڈ ایج ہوم میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کورونا وبا میں سب سے زیادہ اموات یورپ اور امریکا کے اولڈ ایج ہومز میں ہوئیں جہاں سے ان کی دیکھ بھال کرنے والا نرسنگ اسٹاف فرار ہو گیا تھا۔

انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جس کو ’’دل‘‘ کہتے ہیں، جہاں ہر طرح کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ دل کی کساوت سے آدمی کے اندر بے رحمی پیدا ہوتی ہے جو اسے ظالم بنا دیتی ہے۔ جبکہ دل کی نرمی سے رواداری، حلم اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ آج کی جدید سائنسی ایجادات اور الیکٹرانک آلات نے آدمی کو پرلے درجے کا خود غرض اور بے رحم بنا دیا ہے۔

بے مروت بے وفا ہو تم
اپنے مطلب کے آشنا ہو تم
(واجد علی شاہ اختر)

دیکھی ہیں بڑے غور سے میں نے وہ نگاہیں
آنکھوں میں مروت کا کہیں نام نہیں ہے
(جلیل مانک پوری)

آج کل لوگ اتنے مشینی ہو گئے ہیں کہ بیمار کی عیادت اور فوتگی کی تعزیت موبائل سے واٹس ایپ کے ذریعے کرتے ہیں۔ فیس بک اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے ایک دوسرے کی عزتِ نفس مجروح کرنا معمول بن گیا ہے۔ عفو و درگزر کے روادار نہیں رہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو مجھ سے کٹے میں اُس سے جڑوں، جو مجھے محروم کرے میں اسے دوں۔‘‘ یہ مروت اور رواداری کی اعلیٰ صفات ہیں جو مسلم معاشرے کا حسن ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ شخص سب سے بہتر ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ ‘‘

گھر میں بہو آئی تو میری حویلی بدل گئی
تنخواہ لینے والی ہتھیلی بدل گئی
احباب بھی ملنے نہیں آتے ہیں مجھ سے
سننے سنانے والی پہیلی بدل گئی
(محمد امین اللہ)

حصہ