آخر شب کے ہم سفر

36

(36)

پائلٹ آفیسر اکمل مرشد زادہ
لائوڈ اسپیکر پر دہرایا جارہا تھا ’’مسز دیپالی سین۔ وی آئی پی لائونج میں آپ کا انتظار کیا جارہا ہے۔ مسز دیپالی سین ٹی ڈبلیو اے کی مسافر… پورٹ آف اسپین کی مسز دیپالی سین۔‘‘

ششدر اور مضطرب وہ مسافروں کی بھیڑ سے نکلی۔ پاکستان ایئرفورس کے یونیفارم میں ملبوس ایک سانولا نوجوان اس کی طرف آیا۔ ’’دیپالی آنٹی…؟‘‘ اس نے ذرا جھجھک کر پوچھا۔ ’’میں اکمل ہوں۔ امی لائونج میں آپ کا انتظار کررہی ہیں۔ آپ کی فلائٹ بہت لیٹ تھی‘‘۔

وہ پائلٹ آفیسر اکمل حسین مرشد زادہ کے ساتھ وی آئی پی لائونج کی طرف بڑھی۔ کمرے کے اندر ڈھکئی ململ کی سفید ساڑھی میں ملبوس ایک غمگین دبلی پتلی عورت، کھچڑی بال، خیر مقدم کے لیے صوفے سے اُٹھی۔ دیپالی نے تعجب سے اسے دیکھا۔

’’یہ امی ہیں‘‘۔ نوجوان اکمل نے ذرا گھبرا کر کہا۔
’’میں تمہاری شادی میں شریک نہ ہوسکی تھی، دیکھو اتنی دور سے تمہارے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لیے آگئی!‘‘ دیپالی نے مصنوعی بشاشت سے کہا۔ جہاں آراء کو اس حالت میں دیکھنے کی ذمہ دار میں خود ہوں۔ میں ریحان کو آسانی سے بھلا سکی۔ لیکن ریحان کی وجہ سے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے غارت ہوگئی۔ زندگی کی بربادیوں کا یہ کیسا لامتناہی سلسلہ ہے۔ اس نے اُداس آنکھوں والی جہاں آراء پر پھر نظر ڈالی۔ دو سال قبل وہ بیوہ ہوگئی تھی۔ اکمل اس کا اکلوتا لڑکا تھا۔

دیپالی نے اتنی شان و شوکت پہلے ارجمند منزل میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ اُدما رائے کے ووڈ لینڈز میں بھی نہیں۔ پاکستان کا نیا اوپری طبقہ واقعی بے حد متمول ہوچکا تھا۔ دلہن بھی ایک ملک التجار کی لڑکی تھی۔

جب اکمل کے سہرا باندھا جانے لگا، جہاں آراء وہاں سے ہٹ گئی۔ وہ کونے میں جاکر اپنے مرحوم شوہر کو یاد کرکے رو رہی تھی۔ دیپالی نے ایک بار پھر اسے حیرت سے دیکھا، ہندوستانی… خیر… پاکستانی… عورت! خلافِ مرضی اسے ایک ایسے عیاش، بدہیئت شخص سے بیاہا گیا جس نے ساری عمر اسے جلایا۔ مگر اس نے دوسروں کے سامنے ہمیشہ اپنے شوہر کی حمایت کی اور اس کی خدمت گزار رہی۔ اور اب اسے یاد کرکے رو رہی تھی۔

چند سال قبل جہاں آراء کی چھوٹی کنواری بہنیں انجم آراء اور اختر آراء اپنے بھتیجے منور الزماں سے ملنے لندن جارہی تھیں جو وہاں اسکول میں پڑھتا تھا۔ طیارہ الپس پر گر کر پاش پاش ہوگیا۔ سارے مسافر ہلاک ہوئے۔ برف میں لاشیں بھی نہ ملیں۔ اس دہشت ناک جواں مرگی کے صدمے نے ان کی ماں بیگم قمر الزماں کی جان لی۔ نواب قمر الزماں اس کے بعد سے بہت کم بولتے تھے۔ اس وقت یتیم نواسے کی شادی کے عصرانے میں شامیانے کے نیچے ترکی ٹوپی اوڑھے (اگلے وقتوں کے لوگ ننگے سر رہنا خلافِ تہذیب گردانتے تھے) گورنر، وزرا اور اعلیٰ افسروں سے ایک آدھ بات کرلینے کے بعد پھر خاموش ہوگئے۔ صوفے پر گم صم بیٹھے رہے۔ ان کی نظر دیپالی پر پڑی جو ایک طرف کھڑی جہاں آراء کی پرانی خادمہ مالا سے باتیں کررہی تھی۔ انہوں نے اشارہ کرکے اسے اپنے پاس بلالیا۔ وہ ان کے قریب جا بیٹھی۔ وہ دونوں چپ چاپ سامنے کی چہل پہل کا نظارہ کیا کیے۔

دیپالی کی آنکھ بھر آئی۔ اس نے چپکے سے آنسو پونچھے۔ نواب صاحب نے دیکھ لیا۔ آہستہ سے بولے ’’رونا نہیں چاہیے بیٹی۔ بُری بات ہے۔ صبر بڑی چیز ہے‘‘۔

کچھ دیر بعد اس نے آہستہ سے کہا ’’آپ کے بھانجے ریحان الدین احمد… میں ابھی ان سے کلکتہ میں مل کر آرہی ہوں‘‘۔

نواب صاحب نے چاندی کی موٹھ والی چھڑی کو آہستہ سے قالین پر کھٹکھٹایا اور ذرا توقف کے بعد بولے ’’ریحان اب وہاں بڑا آدمی ہے۔ اپنی پرانی سیاست چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہوگیا۔ پروونشل منسٹر رہ چکا ہے۔ اب کیا کررہا ہے؟‘‘

’’اُدما رائے کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کے بھائی کا کوئی بہت بڑا بزنس ہے۔ رونو اس کی ایک فرم کے جنرل منیجر ہوگئے ہیں۔ میں اپنے چھوٹے بھائی کھوکھوکے ہاں ٹھہری تھی۔ اس نے ان کو فون کرکے میرے آنے کی خبر دی۔ خود ملنے نہیں آئے، اپنی کار بھیج دی۔ میں، کھوکھو اور اس کی بیوی اُدما رائے کے ہاں علی پور روڈ گئے۔ کوٹھی کی دوسری منزل پر اُدما رائے خود رہتی ہیں۔ نیچے ایک وِنگ میں ریحان اور ان کی بیوی اور لڑکا۔ چند روز ہوئے لڑکا گھر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اُدما دیبی کے بھائی نرملیندررائے نے اب تک شادی نہیں کی۔ چوبیس گھنٹے شراب میں غرق، بنگال کلب میں بیٹھا رہتا ہے۔ سارا کاروبار ریحان کے ہاتھ میں ہے۔ سنا ہے چند ماہ کے لیے منسٹر بنے تھے، نرملیندر اور اُدما رائے کے کاروبار کو بہت فائدہ پہنچایا تھا۔ اس وجہ سے وہ لوگ ان کے اور زیادہ احسان مند ہیں۔ ریحان صاحب اپنے اکلوتے لڑکے کے متعلق بہت پریشان تھے۔ مجھ سے کہنے لگے: باغی ہوکر گھر سے نکل گیا تیرہ سال کی عمر میں۔ ابھی سے شاعری کرتا ہے۔ بھوکی پیڑھی کا ہمدرد شاعر‘‘۔

نواب قمر الزماں نے جو سر آگے بڑھائے بغور سن رہے تھے، یک لخت ایک تلخ قہقہہ بلند کیا۔ لوگوں نے اچنبھے سے انہیں دیکھا۔ انجم آراء اور اخترا آراء کی موت کے بعد آج وہ پہلی بار ہنسے تھے۔

بنگال کے ایک قدیم کوی ابھی نند نے کہا تھا ’’تالاب کنول سے بھر گئے بہار میں، مکھیاں آم کے بور پر جمع ہیں۔ مسافت چھوٹی ہو تب بھی، ہوا جب گاڑی کے راستے میں رقص کرتی ہے، غریب الوطن کا دل دکھ سے بھر جاتا ہے‘‘۔ اور ڈھاکہ سے پورٹ آف اسپین کا راستہ بہت طویل تھا۔ واپس جانے سے قبل اس آخری شام وہ سنگِ سرخ کے تالاب کے کنارے پرانے ’’راج سنگھاسن‘‘پر بیٹھی جہاں آراء سے باتیں کرتی رہی، اس نقلی شاہی تخت پر لڑکپن میں یہ لوگ اسی طرح بیٹھا کرتی تھیں۔

معاً جہاں آراء نے پوچھا ’’ریحان بھائی کی دلہن کیسی ہیں؟ کون لوگ ہیں؟‘‘

’’عام سی گھریلو بی بی ہیں‘‘۔ دیپالی نے جواب دیا۔ ’’غریب شریف گھرانے کی لڑکی۔ بتارہی تھیں اُدما رائے کے بھائی نرملیندر رائے نشے میں کار چلا رہے تھے، گاڑدن ریچ میں۔ ان زہرہ بی بی کے باپ اُن کی کار کے نیچے دب کر مر گئے۔ وہ ایک غریب کاریگر تھے… زردوز۔ جن کے دادا لکھنؤ سے کلکتے آگئے تھے۔ اُدما دیدی نے تگڑم کرکے بھائی کو پولیس کچہری سے بچالیا۔ متوفی کی ایک ہی لڑکی تھی۔ ماں مر چکی تھی، بھائی آوارہ نکل گئے تھے۔ اُدما رائے بطور تلافی اس یتیم بے سہارا لڑکی کو اپنے ہاں اپنی نئی کوٹھی میں لے آئیں۔ اپنے وارڈ روب کی دیکھ بھال اس کے سپرد کردی۔ رہنے کے لیے ایک کوٹھری دے دی۔ زردوز کی لڑکی سینے پرونے میں طاق۔ سلیقہ مند۔ احساسِ کمتری کی شکار۔ ریحان صاحب جو حسبِ معمول اُدما کے ہاں آتے رہتے تھے انہیں یہ لڑکی بھاگئی۔ یہ پارٹیشن کے ڈھائی تین سال بعد کی بات ہے۔ ریحان صاحب کے دل میں جانے کیا نیکی آئی ایک دن اس بے چاری مظلوم لڑکی سے نکاح پڑھوا لیا۔ اُدما اس کے ساتھ بُری ساس نند کا برتائو کرتی ہیں۔ وہ خاموش رہتی ہے۔ ریحان بھی اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیتے۔‘‘

اُدما رائے کا ایک دلچسپ مشغلہ زہرہ نے بتایا ’’دائم المریض ہیں۔ سیاست سے کب کی کنارہ کش ہوچکی ہیں۔ صبح سویرے اُٹھ کر نزدیک بیلویڈیر چلی جاتی ہیں۔ ایک ملازم چھیچھڑوں اور ہڈیوں کا برتن لے کر پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ سڑک اور باغ کے سارے آوارہ بلیوں اور کتوں کو ناشتا کراتی پھرتی ہیں۔ پھر کوّوں کو دانہ ڈالتی ہیں۔ گھر واپس آکر ریحان کی بیوی سے جھائیں جھائیں کرتی ہیں۔ ریحان عموماً گھر سے باہر رہتے ہیں۔ واٹ اے لائف‘‘۔

جہاں آراء نے ایک گہرا سانس لیا اور اُٹھ کر مغرب کی نماز کے لیے اندر چلی گئی۔ باورچی خانے کی طرف سے رابعہ آتی نظر آئی۔ ریحان کی چھوٹی بہن رابعہ، جو اکمل کی شادی میں شرکت کے لیے اپنے گھر عظیم پورے سے چند روز کے لیے ارجمند منزل آئی ہوئی تھی۔ وہ راج سنگھاسن کے پاس آکر کھڑی ہوئی۔ شفق رنگ آسمان پر نظر ڈالی اور کہا ’’میں بھی نماز پڑھ آئوں۔ ناصرہ کو تمہارے پاس بھیجتی ہوں‘‘۔

’’ناصرہ نماز نہیں پڑھتی…؟‘‘ دیپالی نے پوچھا۔

’’نماز…؟ وہ خدا ہی کو نہیں مانتی۔ وہ اپنے ماموں پر پڑی ہے۔ اللہ کی شان ہے، مولانا برہان الدین احمد کا بیٹا اور نواسی دونوں ملحد‘‘۔ رابعہ نے جواب دیا اور تیز تیز چلتی کوٹھی کی طرف روانہ ہوگئی۔

چند منٹ بعد اس کی لڑکی ناصرہ نجم السحر ارجمند منزل سے باہر آکر ’’راج سنگھاسن‘‘ پر ٹک گئی۔ وہ ایک حساس، ذہین چہرے والی بیس سالہ لڑکی تھی، اور ایک جوشیلی اسٹوڈنٹ لیڈر۔ لگ بھگ اسی عمر میں مَیں نے انقلابی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔ دیپالی نے سوچا۔ پچھلے ایک ہفتے میں دیپالی کی ناصرہ سے بہت دوستی ہوگئی تھی۔ ناصرہ اسے ایسٹ پاکستان کی پیچیدہ سیاست کے قصے سناتی رہی تھی۔ مولانا بھاشانی کی عوامی لیگ، باریسال اور کھلنا کے قحط، جیسور کی زرعی تبھاگا تحریک، پولیس فائرنگ، زبان کا ایجی ٹیشن، مظاہرے، آدم جی جوٹ مل کا فساد، عوامی محاذ، جیل یاترائیں، بنگال کی سیاست کا پرانا نقشہ۔ ادھر مغربی بنگال میں بھی تقریباً یہی سب ہورہا تھا۔

’’میں تمہارے ماموں کے متعلق تمہاری جہاں آراء خالہ کو بتارہی تھی‘‘۔ دیپالی نے کہا۔

’’مجھے اُن کے متعلق سب معلوم ہے‘‘۔ ناصرہ نے ناگواری سے جواب دیا۔ ’’امی اپنے بھائی کو ہمیشہ سے آئیڈیلائز کرتی رہی ہیں۔ اور جہاں آراء خالہ بھی۔ اور شاید… اور شاید… آپ بھی۔ مگر ہم لوگ آپ لوگوں سے زیادہ تیز فہم ہیں۔ ہم کھرا کھوٹا پہچان لیتے ہیں۔ ماموں جان… کیا خوب چیز ہیں۔ مجسم انٹرنیشنل گڈ وِل۔ آج پراگ میں ہیں، کل قاہرہ، پرسوں نیویارک۔ آج اِس پولیٹکل پارٹی میں ہیں کل اُس میں۔ جہاں منسٹر بننے کے مواقع زیادہ نظر آئیں اُدھر کو لڑھک گئے۔ ماسکو اور واشنگٹن دونوں کے خیر خواہ۔ مکمل غیر جانب داری اسے کہتے ہیں‘‘۔

’’ناصرہ…‘‘ دیپالی نے رسانیت سے کہا ’’کل کے باغی آج کی اسٹیبلشمنٹ میں شامل ہوچکے ہیں۔ تم آج کی باغی ہو، ممکن ہے تم کل کی اسٹیبلشمنٹ میں شامل ہوجائو‘‘۔

ناصرہ نجم السحر استہزا کے ساتھ ہنسی۔ ’’دیپالی آنٹی! معاف کیجیے گا، آپ عمر کے اس اسٹیج پر پہنچ چکی ہیں جہاں انسان CYNICISM کو ایک دفاعی ہتھیار، ایک زرہ بکتر کی طرح استعمال کرتا ہے۔ اس کا زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے۔‘‘

دیپالی کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اس نے کہا ’’ناصرہ ڈیر! تم نے ایلس ان ونڈر لینڈ پڑھی ہے؟ اُس کی وہ نظم یاد ہے:

“You are old, Father William,” the young man said,
“And your hair has become very white;
And yet you incessantly stand on your head—
Do you think, at your age, it is right?”

ناصرہ بھی ہنسنے لگی اور بولی… ’’یہ بات تو آپ کے پنڈت نہرو سے کہنی چاہیے‘‘۔

مالاؔ اندر قہوے کی ٹرے لے کر آئی اور اسے تخت پر رکھ دیا۔ اس کے واپس جانے کے بعد دیپالی نے کہا ’’ناصرہ! تم جہاں آراء سے ملتی رہا کرو۔ مجھے محسوس ہوا ہے کہ وہ بے حد تنہا ہے۔ نیرالزماں کی بیوی سے اس کی نہیں بنتی۔ دیناج پور اپنی سسرال میں اب وہ رہنا نہیں چاہتی۔ ماں مرگئیں۔ دو جوان بہنوں کی خوفناک موت کا غم سہہ چکی ہے۔ باپ چراغِ سحری ہیں۔ وہ ان سے ہمیشہ سے خائف رہی ہے۔ شوہر مر گیا۔ جیسا کچھ بھی تھا، اب لڑکے نے اپنا گھر بسالیا۔ وہ کتنی اکیلی ہے‘‘۔

’’ہوں گی، مجھے ان سے کوئی ہمدردی نہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اکمل مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا؟ مجھے بھی وہ بے حد پسند تھا۔ مگر میرے باپ معمولی آدمی ہیں… کلاس ٹو افسر۔ ہم لوگ عظیم پورے کے ایک بہت معمولی سرکاری فلیٹ میں رہتے ہیں۔ ہماری کوئی سماجی حیثیت نہیں۔ جہاں آراء خالہ اپنے اکلوتے بیٹے کی خواہش رد کرکے ایک کروڑپتی انڈسٹریلسٹ کی لڑکی بیاہ لائیں۔ یہ طبقہ ناقابلِ معافی ہے۔ جب میں پیدا ہوئی تھی جہاں آراء خالہ نے میرے بڑے چائو چونچلے کیے تھے۔ میرا نام نجم السحر انہوں نے ہی رکھا تھا۔ امی کو کپڑے بناکر دیتی تھیں۔ گویا ہماری سرپرستی کرتی تھیں۔ ہم لوگ ان کے POOR RELATIONS تھے۔‘‘ غصے میں بپھر کر اس نے ایک کنکر اُٹھایا، اسے زور سے تالاب میں پھینکا، اور بات جاری رکھی…’’اور یہ نواب قمر الزماں… ہمارے نانا… یہ اب تک اس تگڑم میں رہے کہ ان کو مرکزی کابینہ میں لے لیا جائے۔ ناکام رہے۔ ساری زندگی ان کی سیاسی دائو پیچ میں گزری۔ اولڈ گارڈ مسلم لیگی۔ جب یہاں زبان کا ایجی ٹیشن ہوا انہوں نے اردو کی موافقت میں آواز اٹھائی۔ جلوس نعرے لگاتا یہاں ارجمند منزل کے پھاٹک پر آیا… اردو بھاشا چولبے نا… اردو بھاشا چولبے نا… یہ اپنی چھڑی ہاتھ میں لیے ترکی ٹوپی اوڑھے برآمدے میں جا کر چلّائے: ضرور چولبے… ضرور چولبے… جلوس اتنا مشتعل ہوا کہ پتھرائو کردیتا۔ بچ گئے۔ اب یہ ایک پولیٹکل بیک نمبر ہیں اور فرسٹریٹڈ … لیکن یاد رکھیے…‘‘ اس نے سنگھاسن پر سے اٹھ کر خطیبانہ انداز میں کہا ’’یہ نہ سمجھیے کہ چونکہ ہم لوگ اردو امپیریلزم کے خلاف ہیں یا مغربی پاکستان جو ہمارا استحصال کررہا ہے اُس سے متنفر ہیں تو اس وجہ سے ہم انڈیا سے جاملیں گے۔ ہرگز نہیں۔ جہاں انڈیا سے مقابلے کا سوال پیدا ہوا ہم پاکستان کی حفاظت اور سالمیت کے لیے کٹ مریں گے۔ ہم پکے پاکستانی ہیں… اچھا دیپالی آنٹی! اب میں چلوں، کل آپ کو ایئرپورٹ پہنچانے آجائوں گی‘‘۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔(جاری ہے)

حصہ