قاضی نذرالاسلام : بنگالی ادب کا باغی شاعر

65

قاضی نذرالاسلام کو بنگالی ادب کا سب سے بڑا انقلابی شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں سماجی ناانصافی اور استحصال سے نفرت اور آزادی کے لیے جذبہ پایا جاتا ہے۔ ان کی شاعری پر اشتراکیت کا گہرا اثر تھا اور انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے سماج میں تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ قاضی نذرالاسلام کی شاعری صرف کلام نہیں تھی بلکہ یہ سماجی ناانصافی اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا ایک طاقتور استعارہ تھی جس نے قوم کو ایک نئی روح دی اور اسے آزادی کی جنگ میں متحد کیا۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے گزشتہ دنوں باضابطہ طور پر قاضی نذرالاسلام کو قومی شاعر تسلیم کیا ہے۔ بنگلہ دیش کے اخبارات کے مطابق حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں انہیں ’’بنگلہ دیش کا قومی شاعر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے اخبار ڈیلی بنگال کے مطابق قاضی نذرالاسلام کا ’’قومی شاعر‘‘ کے طور پر مقام پہلے ہی ایک مستند حقیقت ہے اور ریاستی سطح پر بھی تسلیم شدہ ہے۔ بنگلہ دیش کے عوام اُس دن سے حکومت کے نوٹیفکیشن کا انتظار کررہے تھے جب وہ ڈھاکہ پہنچے تھے۔ مشاورتی کونسل نے اس تجویز کو اسی پس منظر کے مطابق منظور کیا۔

24 مئی 1972ء کو قاضی نذرالاسلام کو اُن کے اہلِ خانہ کے ساتھ کولکتہ سے ڈھاکہ لایا گیا۔ اُس وقت بنگلہ دیش ایک نئی ریاست کے طور پر ابھر رہا تھا اور اس نے اپنے عظیم شاعر کا استقبال بڑے احترام سے کیا۔ ڈھاکہ میں انہیں 28 (پرانے) روڈ، دھان منڈی میں گھر نمبر 330-B الاٹ کیا گیا۔ یہ گھر ان کے لیے ایک نیا آغاز تھا اور یہیں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری چند سال گزارے۔ اُسی سال 21 فروری کو انہیں ایکوشے پدک سے نوازا گیا۔ یہ بنگلہ دیش کا دوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے جو قاضی نذرالاسلام کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں دیا گیا۔

عزیز احمد جلیلی کے مطابق جنہوں نے اُن کی شاعری کا منظوم ترجمہ کیا ہے، قاضی نذرالاسلام 1899ء میں مغربی بنگال کے ضلع بردوان میں کسان گھرانے میں پیدا ہوئے جو مالی مشکلات اور صعوبتوں کا شکار تھا۔ آپ نے غربت کی وجہ سے صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کی لیکن اپنی توجہ سے انگریزی اورفارسی زبانیں بھی سیکھیں۔ آپ نے دو اخبار بھی نکالے تھے جو بعد میں بند ہوگئے۔

اس مسلم شاعر نے برطانوی راج کے خلاف تحریک ِآزادی کے دوران اہم کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے انہیں ’’باغی شاعر‘‘ یا ’’بیدروہی کوبی‘‘ کا خطاب ملا۔ نذرالاسلام نے بنگالی ادب کو 500 سے زیادہ نظموں اور 2500 گیتوں سے مالامال کیا۔ ان کے انقلابی ادبی کام نے برطانوی حکمرانوں کو بہت پریشان اور بے سکون کیا، جس کی پاداش میں انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ڈھاکہ میں قاضی نذر انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد لطیف الاسلام شبلی کے مطابق ’’نذرالاسلام کو نظرانداز کیا گیا اور ان کے کاموں کو اہمیت نہیں دی گئی، حالانکہ وہ بنگالیوں کے درمیان سب سے اہم شخصیت تھے۔‘‘

شبلی نے کہا ’’قانونی طور پر نذرالاسلام کی تسلیم شدگی نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ جنوبی ایشیا کے مظلوم عوام کے لیے سیاسی و سماجی پس منظر میں تاریخی اہمیت رکھتی ہے‘‘۔ نذرالاسلام کی شاعری نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف جولائی میں ہونے والی بغاوت کے دوران اہمیت حاصل کی، اور یہ حکومت گزشتہ سال 5 اگست کو ختم ہوگئی۔ زیادہ تر طلبہ نے نذرالاسلام کی تحریروں کے اقتباسات استعمال کرکے انہیں دارالحکومت ڈھاکہ کی دیواروں پر چسپاں کیا۔ شبلی نے کہا ’’یہ سرکاری اعلان طلبہ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت اور بھارت کی بالادستی کے خلاف ان کے اثرات کا مظہر ہے۔‘‘

ڈھاکہ کی جہانگیرنگریونیورسٹی میں بنگالی زبان اور ادب کے پروفیسر محمد خورشید عالم نے بنگلہ اخبار اناڈولو کو بتایا کہ ’’نذرالاسلام کو تسلیم کرنا بنگلہ دیش کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے، خاص طور پر بھارت کے مشہور شاعر رابندر ناتھ ٹیگور جیسی اہم شخصیات کے درمیان‘‘۔ٹیگور بھارت میں، خاص طور پر بنگلہ بولنے والے علاقوں میں، جو بنگلہ دیش سے متصل ہیں، ایک قابل ِذکر شاعر کے طور پر مشہور ہیں، انہوں نے اپنا ڈرامہ ’’بسنت‘‘ قاضی نذر کے نام معنون کیا تھا،اور ایک نظم میں خراجِ تحسین پیش کیا جو اخبار’’دھوم کیتو‘‘میں ان کے پیام کے طور پر چھپی تھی۔

خورشید عالم نے کہا ’’بہت کم شاعر ایسے ہوتے ہیں جو مظلوم لوگوں کے حقوق کے لیے لڑنے کی جرأت رکھتے ہیں، اور نذرالاسلام ان میں سے ایک تھے جنہوں نے برطانوی راج اور پہلی جنگ ِعظیم کے دوران شدید مزاحمت کی۔‘‘

ایک موقع پر قاضی نذرالاسلام نے کہا تھا’’اس ملک میں غلامی کو غلامی کہنا کیوں جرم سمجھا جاتا ہے؟‘‘

اسی طرح جیل میں ایک موقع پر کہا ’’میں نے اپنے بھائیوں کی زنجیر کٹوانے کے لیے یہ بیڑیاں پہنی ہیں‘‘۔

تو یہ تھے قاضی نذرالسلام، جو ایک غریب مسلم خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مسجد کے امام اور مزار کے متولی تھے۔ جب والد قاضی فقیر احمد کا انتقال ہوا اُس وقت قاضی نذرالاسلام آٹھ برس کے تھے۔ جس کے بعد اُنہوں نےخاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے مکتب میں بطور معلم اور مسجد میں مؤذن کا کام کیا۔ اسی دوران انہوں نے قرآن، اسلامی علوم، فلسفہ اور دیگر مذاہب کا مطالعہ کیا۔ ان کا رجحان کم عمری میں ہی شاعری کی طرف ہوگیا تھا۔

پہلی عالمی جنگ کے زمانے میں، 1916ء میں بنگال سے فوج میں بھرتی ہونے والے قاضی نذرالاسلام کو ابتدا میں نوشہرہ (خیبر پختون خوا) بھیجا گیا۔ بعد ازاں انہیں کراچی منتقل کردیا گیا جہاں انہوں نے 1919ء تک خدمات انجام دیں۔ اس دوران انہیں سپاہی سے ترقی دے کر حوالدار بنادیا گیا اور انہیں دو سال تک کوارٹر ماسٹر کے اہم عہدے پر فائز رہنے کا موقع ملا۔ ان ہی انگاروں پر کھیلتے ہوئے انہوں نے شاعری کی اور جنگِ آزادی کے دوران انہیں مصیبتوں کا ساماناکرناپڑا۔

کراچی یونیورسٹی کے بنگالی شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ابو طیب خان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ نذرالاسلام کا ادبی کیریئر بنیادی طور پر کراچی سے ہی فروغ پایا، یہیں انھوں نے دیوان حافظ دیکھا۔

ان کی مشہور نظم ’’باغی‘‘ نے انہیں انقلابی شاعر کے طور پر شہرت دی۔ اس نظم میں انسانی حقوق، سماجی انصاف، اور آزادی کے لیے ان کی تڑپ جھلکتی ہے۔ ان کی دیگر نظموں جیسے ’’دھوما کیتو‘‘ اور ’’راجبندی کی جابانبندی‘‘ میں برطانوی سامراج کے خلاف کھلے احتجاج کا اظہار ملتا ہے۔ ان کے مجموعے ’’اگنیبی‘‘ (آگ کی زبانی) اور ’’چلوا‘‘ (چلو آگے بڑھیں) نے بنگالی ادب کو ایک نئی سمت دی۔

قاضی نذرالاسلام کی ذاتی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ انہوں نے سماجی روایات کو چیلنج کرتے ہوئے پرمیلا سین گپتا سے شادی کی تھی، پھر ان کی زندگی میں ایک غم ناک باب اُس وقت شامل ہوا جب 1934ء میں کلکتہ میں ان کے بیٹے بلبل کی موت ہوگئی۔ یہ واقعہ ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا جس نے ان کی شاعری کو گہرا متاثر کیا۔ محمد فخرالدین نے ’’صدائے زندان‘‘ میں لکھا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ بلبل کے انتقال کے ساتھ ہی بظاہر ان کی دہریت بھی ختم ہوگئی تھی۔ دوسرا صدمہ انھیں اُس وقت ملا جب ان کی بیوی پرمیلا دیوی بیمار پڑ گئیں۔ زندگی کی صعوبتوں نے قاضی نذرالاسلام کو مالی طور پر اس قدر کمزور کردیا کہ انہیں اپنی ادبی کاوشوں کی آمدنی بھی گروی رکھنی پڑی۔ 9جولائی 1946ء کو کلکتہ ریڈیو پر تقریر کے دوران قاضی نذرالاسلام کی آواز اچانک بند ہوگئی اور ان کی دماغی صلاحیتیں بھی متاثر ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ ان کی بیماری کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں اور ان کی اہلیہ کو نفسیاتی و ذہنی اسپتال میں داخل کرایا گیا، پھر 1953ء میں علاج کے لیے یورپ بھی گئے، لیکن بعد میں واپس آگئے اور چند سالوں میں بیوی کا انتقال ہوگیا۔

پروفیسر یوسف نے سرمست جو شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی سے وابستہ رہے، لکھا تھا کہ 1969ء میں بنگور میں ہندوستانی ادب پر گرمنبائی اسکول کے پروگرام میں وہاں بنگالی طالب علوں سے ملاقات میں جب دریافت کیا کہ موجودہ زمانے میں بنگال کا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ تو انہوں نے بلاتوقف جواب دیا ’’نذرول‘‘۔ بنگالیوں میں عام طور پر قاضی نذرالاسلام کو ’’نذرول‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نذرول ہندوستان کے اہم اوربڑے شاعروں میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ عزیز احمد جلیلی نے ان کی شاعری کا جو ترجمہ پیش کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔

قاضی نذرالاسلام کو ادبی دنیا نے بھارت کے پدم بھوشن اور پاکستان کے یادگاری ڈاک ٹکٹ کی شکل میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ لیکن قسمت کا پہیہ پھرا اور مشرقی پاکستان کی آزادی کے بعد ان کا پاکستانی وظیفہ تین سو روپے ماہوار بند ہوگیا۔ ڈاک ٹکٹ میں تاریخ پیدائش کی غلطی ایک افسوسناک واقعہ تھا۔ تاہم حکومت ِ پاکستان نے فوری طور پر اس غلطی کو دور کیا اور درست شدہ ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ حکومت قاضی نذرالاسلام کی شخصیت کو اہمیت دیتی ہے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان میں کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔ پی ای سی ایچ ایس میں ایک سڑک کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے اور 1956ء میں نذرول اکیڈمی بھی قائم کی گئی جو اس وقت پاکستان سیکریٹریٹ کے دو کمروں پر مشتمل ہے۔

زندگی کے آخری حصے میں قاضی نذرالاسلام پِک کی بیماری، جو ڈیمنشیا کی ایک شکل ہے،کے باعث لکھنے سے قاصر ہو گئے۔ 29 اگست 1976ء کو وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

حصہ