ساکنان شہر قائد عالمی مشاعرہ

29

4جنوری 2025ء بروز ہفتہ ایکسپو سینٹر کراچی میں ساکنانِ شہر قائد عالمی مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ اس مشاعرے کے منتظم اعلیٰ محمود احمد خان ہیں جنہوں نے 30 دسمبر 2024ء کو یونین کلب طارق روڈ کراچی میں اپنے احباب کا اجلاس طلب کیا تھا جس میں انہوں نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا تھا کہ ہم گزشتہ 29 برس سے یہ عالمی مشاعرہ منعقد کررہے ہیں، یہ اظہر عباس ہاشمی کا لگایا ہوا پودا ہے جو کہ اب تناور درخت بن چکا ہے۔ اظہر عباس ہاشمی گروپ کے بیشتر اراکین انتقال کرچکے ہیں، اب ہم پروفیسر ڈاکٹر قاسم رضا صدیقی کی سربراہی میں ہر سال عالمی مشاعرہ منعقد کرتے ہیں۔

راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) نے کہا کہ میں قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اب اس شہر میں دو عالمی مشاعرے ہوں گے۔ بہرحال محمود احمد خان نے تمام دشواریوں اور مخالفتوں کے باوجود بہت شان دار پروگرام ترتیب دیا۔ اس مشاعرے کی پبلسٹی کے لیے تمام شہر میں بینر لگائے گئے تھے، ایکسپو سینٹر میں سامعین کے لیے کورڈ پنڈال بنائے گئے تھے جن میں چاندیاں اور گائو تکیے لگائے گئے اور کرسیوں کا بھی انتظام تھا۔ میدان میں کتابوں کے اسٹال تھے جہاں پر 50 فیصد رعایت پر کتابیں مہیا کی جارہی تھیں۔ کھانے کے بھی اسٹال تھے۔ پارکنگ کا معقول انتظام تھا۔ سندھ پولیس کی بھاری نفری مشاعرے کے انتظامی امور میں شامل تھی۔ تمام کرسیوں پر شائقینِ شعر و سخن موجود تھے۔ مشاعرے کے اسٹیج اور سامعین کے درمیان مناسب فاصلہ تھا جس کے سبب ابلاغ کے مسائل پیش نہیں آئے اور مشاعرہ کامیابی سے چلتا رہا۔

مشاعرے کی رپورٹنگ کے لیے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے معتبر نمائندے موجود تھے جو اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ مشاعرے کا پورا ماحول قابلِ تعریف تھا، پنڈال برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا، لائوڈ اسپیکر کا معقول بندوبست تھا، بہترین سائونڈ سسٹم کے ساتھ مشاعرہ شروع سے آخر وقت تک جاگتا رہا۔ یہ واحد مشاعرہ ہے جس میں بہت سے اہم شعرا بھی سامعین کی حیثیت سے موجود تھے، ورنہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ مشاعرے میں صرف وہ شعرا جاتے ہیں جنہیںکلام سنانا ہوتا ہے۔ سامعین نے ہر اچھے شعر پر کھل کر داد دی اور مشاعرے کی فضا کو گرما رہے۔

عباس تابش، خالد عرفان، جاوید صبا اور عمران عامی کو بہت زیادہ پسند کیا گیا، انہیں سب سے زیادہ داد ملی۔ بھارتی شاعر وجے تیواری کا مشاعرہ گاہ میں بھرپور استقبال کیا گیا۔ انہوں نے بہت عمدہ اشعار سناکر اپنی قابلیت کا سکہ جما دیا۔ مشاعرے میں پاکستان کے تمام صوبوں کے انتہائی اہم شعرائے کرام کو مدعو کیا گیا تھا، اس کے علاوہ بھارت، امریکا، کینیڈا، فرانس، عرب امارات اور دیگر ممالک کے شعرا بھی مشاعرے کی رونق تھے، تاہم مدعو شعرا میں احمد عادل (بحرین)، ریحانہ قمر (امریکا)، عاطف توقیر (جرمنی)، سید وصی شاہ (لاہور)، مدد علی سندھی (حیدرآباد) اور رفیع الدین راز (امریکا) بوجوہ مشاعرے میں شریک نہیں تھے۔ 44 شعرا نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ مشاعرے کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ کمپیئرنگ عنبرین حسیب عنبر اور وجیہ ثانی نے کی، انہوں نے مشاعرے کا ٹیمپو کہیں بھی ٹوٹنے نہ دیا بلکہ سامعین کو بھی چھوٹے چھوٹے جملوں سے فیض یاب کرتے رہے۔ مشاعرہ رات ساڑھے دس شروع ہوا جو کہ صبح پانچ بجے تک بلاتعطل جاری رہا۔ تلاوتِ کلام مجید اور نعت ِرسولؐ کے بعد منتظمِ اعلیٰ محمود احمد خان نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا، انہوں نے کہا کہ میں اردو زبان و ادب کا سپاہی ہوں، اور اپنی مدد آپ کے تحت ادبی پروگرام ترتیب دے رہا ہوں، تاہم مالی تعاون کے بغیر کوئی پروگرام نہیں ہوسکتا، لہٰذا مجھے جن لوگوں اور اداروں نے سپورٹ کیا میں اُن کا ممنون و شکر گزار ہوں۔ میں پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا اور پروفیسر سحر انصاری کی سرپرستی میں اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہوں، انہوں نے قدم قدم پر مجھے مفید مشوروں سے نوازا، میں مشاعرے کے انتظامی امور میں شریک تمام خواتین و حضرات کا بے حد شکر گزار ہوں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی امان میں رکھے اور ہم اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کام کرتے رہیں۔ کراچی تمام دبستانوں کا اہم مرکز ہے، یہاں کی شاعری میں زندگی کے تمام عنوانات نظر آتے ہیں، دوسرے صوبوں کے شعرا اپنے اپنے معاشرے کا احوال لکھ رہے ہیں، شاعری تو دراصل ہمارا تہذیبی ورثہ ہے، شعرائے کرام ہمارے معاشرے کا اہم کردار ہیں، یہ وہ طبقہ ہے جو عوام کی زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ میں محمود احمد خان کو طویل عرصے سے جانتا ہوں، یہ شریف النفس انسان ہیں، محبتوں کے سفیر ہیں، اردو زبان و ادب کے مداح ہیں، انہوں نے زندگی کے مسائل کا مقابلہ کیا ہے اور ہر محاذ پر کامیاب قرار پائے۔ یہ ساکنانِ شہر قائد عالمی مشاعرہ کمیٹی کے بنیادی لوگوں میں شامل ہیں، ان کی خدماتِ ادب سے انکار ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے اظہر عباس ہاشمی کے قائم کردہ ادارے کو مزید ترقی دی ہے۔ ان کا ہر پروگرام شاندار اور کامیاب ہوتا ہے، مجھے امید ہے کہ یہ اپنا کام کرتے رہیں گے اور ہمت نہیں ہاریں گے۔

صدرِ مشاعرہ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ ساکنانِ شہر قائد مشاعرہ کراچی کی پہچان بن گیا ہے، اس کا سہرا محمود احمد خان کے سر جاتا ہے کہ وہ بڑی محنت اور لگن سے یہ پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ یہ مشاعرہ جس میں کثیر تعداد میں سامعین موجود ہیں، اپنی مثال آپ ہے کہ سردی کے باوجود سامعین مشاعرے میں بھرپور شریک ہیں۔ کراچی میں ادب نواز اور شعر فہم انسان بھی آباد ہیں جن کی بدولت اردو کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ یہ ادب نواز لوگ ہیں۔ اس وقت کراچی کی ادبی فضا پوری توانائی کے ساتھ مشاعروں اور ادبی تقریبات سے لبریز ہے۔ اب کراچی میں ایک ہی دن میں کئی کئی مشاعرے ہورہے ہیں، امن و امان کی بحالی نے ادبی ماحول کو زندہ کردیا ہے۔ محمود احمد خان ادب کی خدمت کررہے ہیں، انہوں نے مشاعرے کو کامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔

انور شعور نے اپنا کلام سنانے سے قبل تمام سامعین کو مبارک باد پیش کی، کہ جن کی وجہ سے مشاعرہ زندہ ہے، مشاعرہ گاہ میں سماعتیں جاگ رہی ہیں اور شعرائے کرام کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری ہے۔

جن شعرا نے مشاعرے میں اپنا کلام نذرِ سامعین کیا ان میں پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر ڈاکٹر قاسم رضا صدیقی، افتخار عارف، انور شعور، صابر ظفر، فراست رضوی، جاوید صبا، ڈاکٹر عقیل عباس جعفری، ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، فاضل جمیلی، اختر سعیدی، خالد معین، ناصرہ زبیری، اقبال خاور، ڈاکٹر رخسانہ صبا، ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر، کاشف حسین غائر، وجیہ ثانی، نینا عادل، سیمان نوید، نعیم ثمیر اور عبدالرحمن مومن کے علاوہ شکیل جاذب، محبوب ظفر، عمران عاصی، عباس تابش، زاہد فخری، حمیدہ شاہین، واجد امیر، شعیب بن عزیز، ناصر علی سید، محسن شکیل، امر پیرزادہ، مبشر سعید، ظہیر ظریف، عقیل دانش، شاہدہ حسن، حمیرہ رحمن، خالد عرفان، تبسم عابدی، ثمن شاہ اور دیگر شعرا شامل ہیں۔

اس عالمی مشاعرے میں خالد مقبول صدیقی، نسرین جلیل، ڈاکٹر فاروق ستار، امین الحق، سینیٹر وقار مہدی، اقبال میمن، رضا زیدی، ڈاکٹر سیف الرحمن، نہال ہاشمی، سرمد علی، مظہرہانی کے اسمائے گرامی قابل ستائش ہیں کہ انہوں نے مشاعرے میں تشریف لا کر حوصلہ افزائی فرمائی۔ یہ مشاعرہ ایک کامیاب پروگرام تھا۔ اس طرح محمود احمد خان کے کریڈٹ پر ایک اور شان دار مشاعرہ شامل ہوگیا۔

حصہ