( آخری قسط)
وہ لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرے گا جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو پسند ہو۔ پڑوسیوں کے کھیتوں کی بھی حفاظت کرے گا۔ بغیر اجازت ان میں داخل نہیں ہوگا اور نہ کوئی نقصان پہنچائے گا۔ کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو کترائے گا نہیں۔ بیج اور زرعی آلات کی ضرورت ہو تو وہ بھی دے گا، اور اپنے مفید تجربات سے بھی انھیں فائدہ پہنچائے گا۔ کسی کی برائی نہیں کرے گا، نہ کسی سے حسد کرے گا۔ اگر وہ کوئی ہنرمند ہے تو یہ سمجھ کر کہ اللہ تعالیٰ کسی اچھے کام کا اجر ضائع نہیں ہونے دیتا اور یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ جب کوئی شخص کوئی کام کرے تو اسے اچھی طرح کرے‘‘ (بخاری)، اپنے ہنر کے مطابق بہترین کام کرنے کی کوشش کرے گا۔ لوگوں سے جو وعدہ کرے گا اسے پورا کرے گا۔ وقت پر کام پورا کرکے دے گا۔ کسی طرح کی فریب کاری نہیں کرے گا۔ اس طرح اُس کی شہرت بھی بڑھے گی اور آمدنی بھی۔ ساتھ ہی وہ قوم و وطن کی خدمت کرکے دنیا و آخرت کی سعادت بھی حاصل کرے گا۔
اگر وہ ایک معلم و استاد ہے تو اپنے فرائض کی اہمیت محسوس کرے گا اور یہ سمجھے گا کہ طلبہ کی اصلاح کا دارومدار خود اس کی اصلاح پر ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو رہنما بنائے گا کہ ’’میں تم لوگوں کے لیے ویسا ہی ہوں جیسا باپ اپنے بیٹوں کے لیے ہوتا ہے‘‘۔ وہ طلبہ سے نرمی و محبت کا برتائو کرے گا، ان پر سختی نہیں کرے گا۔ اپنے شریفانہ سلوک و اخلاق سے ان کی عملی تربیت کرے گا۔ ان کی تعلیمی ترقی اور کامیابی کے لیے پوری کوشش کرے گا۔ انھیں بلند ہمتی اور محنت سکھائے گا۔ ساتھ ہی وہ طلبہ کی ذہنی سطح کا لحاظ بھی کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہم انبیا کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہم لوگوں سے ان کے مرتبے و مقام کے مطابق برتائو کریں اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق ہی ان سے گفتگو کریں‘‘۔ اچھا استاد اپنے شاگردوں کو اپنا پورا علم سکھانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے کوئی مفید علم چھپایا وہ قیامت کے دن آگ کی لگام لگائے ہوئے پیش ہوگا‘‘۔ پھر اپنے علم کے مطابق عملی نمونہ بھی پیش کرے گا تاکہ لوگوں پر علم کا فائدہ ظاہر ہوسکے اور وہ بھی علم سیکھنے کی کوشش کریں، ورنہ لوگ اس کے علم کو بے کار سمجھ کر اس سے بے نیازی اختیار کریں گے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ ’’جب عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا تو جاہل علم سیکھنے ہی سے رک جاتا ہے‘‘۔
اگر وہ شاگرد طالب علم ہے تو اپنے استاد کی عزت کرے گا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید نے اپنے کسی درباری سے پوچھا: آج کے دور میں سب سے معزز شخص کون ہے؟ اس نے جواب دیا: ہم تو امیرالمومنین (ہارون رشید) سے زیادہ کسی کو معزز نہیں جانتے۔ خلیفہ نے کہا: نہیں، کسائی مجھ سے زیادہ معزز ہیں، میں نے امین اور مامون (شاہ زادوں) کو ان کے جوتے اٹھانے کے لیے دوڑتے دیکھا ہے۔
غرضیکہ ہر طرح کے حالات اور اپنی ہر ایک حیثیت میں آئین و ضوابط اور پاکیزہ روایات کا پابند ہوکر رہنے کی کوشش کرے گا۔
نیکی کرنا ذمے داری ہے:
خود بھی نیکی کرنا ایک انسانی ذمے داری ہے اور دوسروں کو نیکی کرنے پر آمادہ کرنا بھی نہایت پسندیدہ کام ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی بھلائی کی طرف رہنمائی کی، اسے (وہ بھلائی) کرنے والے جیسا ہی اجر ملے گا‘‘ (مسلم)۔ یعنی جس نے کسی دینی یا دنیوی بھلائی کی طرف کسی شخص کی رہنمائی کی یا اسے آمادہ کیا، اسے بھی بھلائی کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بہتر نیکی لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانا ہے۔ اسی طرح لوگوں کی کسی قسم کی مدد کرنا، انھیں سہارا دینا، ضرورت مند کی دادرسی کرنا، معذور کی مدد کرنا، قرض دینا، کوئی چیز مستعار دینا، تحفہ دینا وغیرہ اچھی بات ہے۔‘‘
مسنداحمد میں حضرت ابوحزی جہنیؓ کی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی کے بارے میں دریافت کیا، توآپؐ نے فرمایا: ’’کسی بھی نیکی کو حقیر و کم تر نہ سمجھو، چاہے کسی کو رسّی کا ایک ٹکڑا ہی دیا ہو یا جوتے کی کیل ہی دی ہو، یا کسی کے برتن میں پانی ہی ڈالا ہو، یا راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہی ہٹائی ہو، یا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملے ہو، یا ملنے پر اپنے بھائی کو سلام ہی کیا ہو‘‘۔
ابنِ حبان میں حضرت ابوذرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کے بہت سے کام گنانے کے بعد فرمایا کہ اگر کچھ بھی نہ ہوسکے تو لوگوں کو ایذا رسانی ہی سے محفوظ کردے۔
مسلمان بھائی کے حقوق ادا کرنا بھی نیکیوں میں شامل ہے جیسے مریض کی عیادت کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، سلام کرنا، دعوت قبول کرنا، جنازے میں شریک ہونا وغیرہ۔
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں: جو اپنے بھائی کے کسی کام سے جائے تو اُس کا ہر قدم نیکی ہے۔ اسی طرح کسی تنگ دست پر قرض ہو تو اسے ڈھیل دیتے رہنا بھی نیکی ہے، حتیٰ کہ جانوروں سے اچھا برتائو کرنا بھی نیکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’ہر جان رکھنے والے جگر میں اجر ہے‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’ایک زانی عورت نے پیاس سے تڑپتی ہوئی ایک بلی کو پانی پلا دیا تھا، اس کی بخشش اسی بات پر کردی گئی۔‘‘
جو مسلمان بھی کوئی درخت لگائے گا تو اس میں سے جو کھایا جائے گا وہ اس کا صدقہ ہوگا، جو اس میں سے چرا لیا جائے گا وہ اس کا صدقہ ہوگا، جو جانور یا پرندے کھا لیں گے وہ اس کا صدقہ ہوگا، اوراس میں جو بھی کم ہوگا وہ اس کا صدقہ ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا صدقہ قیامت تک کے لیے ہوگا۔
تاریخ بخاری میں حضرت جابرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے کوئی کنواں کھودا تو انسانوں، جنوں، جانوروں اور پرندوں میں سے جو بھی پیاسا پیے گا اس کا ثواب اسے قیامت تک ملتا رہے گا۔‘‘
ایک دوسری روایت میں عمارت بنانے کے سلسلے میں بھی ایسا ہی قول منقول ہے۔ اس طرح کے کام اسی لیے صدقۂ جاریہ کہلاتے ہیں۔ الغرض معاشرے کو صحت مند اور خوش گوار بنانے کے لیے حتی المقدور اچھے کام کرتے رہنا انسان کی ذمے داری ہے، اور یہی مثبت اور تعمیری طرزِعمل ہے جس سے معاشرہ امن و سکون اور محبت و یگانگت کا گہوارا بنتا ہے۔
سماجی خدمات:
یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے، اس لیے خدمت ِ خلق یا باَلفاظِ دیگر سماجی خدمات کی نہایت اہمیت ہے۔ ان کے ذریعے انسان نہ صرف اپنے معاشرے کی خدمت کرتاہے بلکہ وہ پورا ماحول سازگار بناتا ہے جس میں خود اسے زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ دنیا کی دیگر قوموں نے سماجی خدمات میں حصہ لینا اپنی زندگی کا ایک اہم جز بنا رکھا ہے۔ تعلیمی اداروں، یتیم خانوں، بے سہارا لوگوں کے لیے پناہ گاہوں اور بیماروں کے لیے اسپتالوں وغیرہ کا جال پھیلا کر وہ اپنے معاشرے کے دکھ درد کوبانٹنے کی کوشش بھی کرتی ہیں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ یہ بھی انسانی سلوک کا ایک لازمی جز ہے کہ انسان حیوانوں کی سطح سے اُوپراُٹھ کر دوسرے بھائیوں کی ہمدردی اور راحت رسانی کو بھی اپنی ذمے داریوں میں شامل سمجھے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت سے پہلے بھی اس طرح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے جس کی وجہ سے قوم آپؐ کو اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتی تھی۔ وحی کے نزول کے بعد جب آپؐ پر ایک طرح کی گھبراہٹ طاری تھی تو اُم المومنین حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے انھی اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ کوتسلی دی تھی کہ آپؐ رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، لوگوں کے لیے مشقت اٹھاتے ہیں، مہمانوں کی خاطر تواضع میں کسر نہیںچھوڑتے اور لوگوں کی راحت رسانی کے لیے ایسے ایسے کام کرتے ہیں جو عام طور پر نایاب ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔
صحابہ کرامؓ خدمت ِ خلق کو کتنی اہمیت دیتے تھے اس کا اندازہ آپ ایک واقعے سے کرسکتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن عباسؓ مسجد میں اعتکاف کررہے تھے کہ ایک شخص پریشان و مغموم آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ آپ نے پریشانی کا سبب معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ فلاں شخص کا مجھ پر قرض ہے اور میں ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ حضرت ابن عباسؓ فوراً مسجد سے نکل کر اُس شخص کے پاس گئے اور اُس سے (مہلت دینے کے لیے) بات کی۔ مقروض شخص نے عرض کیا: آپ تو اعتکاف میں ہیں، کیا بھول گئے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بھولا نہیں، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور یہ زیادہ دن کی بات بھی نہیں (اور یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے) کہ ’’جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت کے لیے قدم اٹھائے اور پوری کردے تو یہ اس کے لیے دس برس کے اعتکاف سے زیادہ بہتر ہوگا‘‘۔
مسلمان کی زندگی خیرخواہی، عالی ظرفی اور میانہ روی سے عبارت ہوتی ہے اور وہ پورے وقار اور ذمے داری کے ساتھ اپنی ہر ڈیوٹی انجام دینے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
انسانی مساوات:
انسانوں کے ساتھ سلوک میں یہ بات بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ (حضرت آدمؑ و حواؑ) کی نسل سے ہیں۔ ان میں کسی طرح کا نسلی امتیاز نہیں ہے۔ دنیا کی حیثیت ایک گلشن کی ہے اور مختلف قوم و وطن اور مختلف رنگوں کے لوگ اس گلشن کے رنگ برنگے پھولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ اس گلشن کے حسن کا ذریعہ ہے، ورنہ ایک ہی رنگ کے پھول اسے کشش سے محروم کردیتے۔ پھر علم و فضل، صحت و جسم، مال و دولت وغیرہ کی تقسیم خدا کی طرف سے ہے۔ ان میں کسی بھی بنیاد پر دوسرے انسانوں کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے۔ خدا کے نزدیک بہتر صرف وہ ہوگا جوزیادہ پاک باز ہوگا، لہٰذا ذہن میں کسی طرح کے تعصب و تنگ نظری کو دخل نہیں دینا چاہیے اور جب ذہن میں کوئی تنگ نظری نہیں ہوگی تو معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا جس سے پورا ماحول سازگار ہوگا۔
اتحاد پسندی:
فرد معاشرے کا ایک جزو ہوتا ہے، اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ وہ اختلاف کا شکار ہوں، بلکہ انھیں وحدت کا سبق دیا ہے۔ توحید کے ماننے والوں پر تو یہ اور بھی لازمی ہے کہ وہ وحدت کی لڑی میں پروئے رہیں، اسی لیے جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب تنہا نماز سے پچیس گنا رکھا گیا ہے۔ اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان خود اپنے دائرے میں محدود ہوجائے، بلکہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ دیگر بھائیوں کے ساتھ منسلک و مربوط ہوکر رہا جائے۔ باہمی پھوٹ تو طاقت ور قوموں کو بھی کمزور کردیتی ہے اور کمزور قوموں کو تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتی ہے۔
کسی بزرگ سے کہا گیا کہ جلدی سے مسجد پہنچیے، لوگ باہم لڑ رہے ہیں۔ انھوں نے دریافت کیا: کس بات پر؟ بتایا گیا کہ کچھ لوگ تراویح 8 رکعتیں پڑھنا چاہتے ہیں اور کچھ لوگ 20 رکعتیں۔آپ کے فیصلے کا شدت سے انتظار ہورہا ہے۔ بزرگ نے کہا: میرا فیصلہ یہ ہے کہ مسجد بند کردی جائے اور اس میں تراویح کی نماز کی اجازت نہ دی جائے، کیونکہ تراویح کی نماز نفل ہے اور مسلمانوں کا اتحاد فرض ہے۔ فرض کو ختم کرنے والی نفل نماز کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
جب انسان کے ذہن میں یہ سب باتیں صاف رہیںگی، وہ کسی تعصب و تنگ نظری کا شکار نہیں ہوگا۔ بہترین کردار و اخلاق ہر وقت اس کے ذہن نشین ہوں گے تو اس کے طرزِعمل پر لازماً ان باتوں کا بہترین اثر پڑے گا اور وہ بہترین سلوک کا نمونہ بن سکے گا۔
انسانی طرزِعمل کی کج ادائیوں پر حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی اس روایت میں خاص طور پر روشنی ڈالی گئی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں تمھارے برے لوگوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں برا وہ ہے جو اکیلا سفر کرتا ہے، اپنے غلام کو پیٹتا ہے اور کسی کو مدد نہیں پہنچاتا‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں اس سے زیادہ برے کے بارے میں نہ بتادوں؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’جو لوگوں کو ناپسند کرتا ہو اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں۔‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا ’’کیا میں تمھیںاس سے زیادہ برے لوگوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’جو کسی لغزش کو قبول نہیں کرتے، نہ کوئی معذرت قبول کرتے ہیں، نہ کوئی خطا معاف کرتے ہیں۔‘‘ پھر آپؐ نے فرمایا: ’’کیا میں اس سے زیادہ برے کے بارے میں نہ بتا دوں؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا’’ جس سے بھلائی کی امید نہ کی جائے اور جس کے شر سے محفوظ نہ سمجھا جائے۔‘‘ (طبرانی)