’’ارے یاسمین! تجھے اللہ پوچھے! جب موقع لگتا ہے تُو میرے پاندان میں سے پیسے نکال لیتی ہے۔‘‘ دادی چلاّتی ہوئی واویلا کرنے لگیں۔
وہ اپنے دونوں بیٹوں سے ملنے والے پیسوں سے اپنی مہینے کی دوائیاں، پاندان کا خرچا اور خاندان میں لینا دینا کرتی تھیں، کبھی اگر غلطی سے کوئی بچی ہوئی رقم پاندان یا تکیے کے نیچے رکھ دیتیں تو بڑی پوتی یاسمین کے ہاتھوں سے نہ بچ پاتی۔ ان کے دونوں بیٹے بہ مشکل ہی زندگی کی گاڑی کو کھینچ رہے تھے، وہ ان سے بھی مزید پیسوں کا تقاضا نہیں کرسکتی تھیں۔
یاسمین کی شروع سے ہی مانگنے، لڑ کر من چاہی چیز لینے، حتیٰ کہ چوری تک کی عادت تھی۔ چھوٹی بہن جبین اس کے برخلاف نہایت قناعت پسند، صابر اور شاکر تھی۔ اس کو جو جیب خرچ ملتا اُس میں سے اپنی ضروریات پوری کرکے کچھ پس انداز بھی کرلیتی تھی۔ وہ اپنی اچھی عادات و اطوار کی وجہ سے سب کی دعائیں لیتی۔
وقت گزرتا گیا، دونوں بہنیں یونیورسٹی پہنچ گئیں۔ یاسمین کی دوست اسی جیسی فضول خرچ اور چلبلی تھیں، وہ سب گھروں سے پیسے لاتیں اور زیادہ وقت کینٹین میں کھانے پینے میں لگی رہتیں۔ جس دن پیسے کم ہوتے کسی لڑکے کو گھیر لیتیں اور اس کی جیبیں ڈھیلی کرتیں۔ جبیں کو اپنی بہن کا یہ چلن ایک آنکھ نہ بھاتا۔
’’باجی! آپ کیوں اپنی عزت خراب کرتی ہیں! انسان کی خودداری بڑی شے ہوتی ہے۔‘‘ جبین اسے سمجھا سمجھا کر تھک چکی تھی، مگر ڈھاک کے تین پات کی طرح کچھ حاصل نہ ہوتا۔ وہ سب کی نصیحتیں سن سن کر چکنا گھڑا بن چکی تھی۔
آج یونیورسٹی سے واپسی پر وہ اپنی دوستوں کے ساتھ شاپنگ پر چلی گئی تھی، جب لوٹی تو دونوں ہاتھوں میں مختلف برانڈز کے تھیلے تھے۔ جبین کا ماتھا ٹھنکا، اسی ماہ امی کی بی سی نکلنی تھی۔ اس کے احساس دلانے پر امی نے پڑوسن سے بی سی کے بارے میں پوچھا تو اُس نے حیران ہوکر کہا ’’کل شام ہی تو تمہاری بڑی بیٹی کو پکڑا کر گئی ہوں، کیا اس نے تمہیں نہیں دی؟‘‘
امی گڑبڑا گئیں ’’ارے ہاں! میں بھول ہی گئی۔‘‘ پڑوسیوں کے سامنے اپنی بیٹی کو بدنام تو نہیں کرسکتی تھیں۔ رات کو سب بڑے سر جوڑ کر بیٹھے، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تربیت میں کہاں چوک ہوئی! آخر ایک ہی ماحول میں پلنے اور ایک ہی والدین کی اولاد ہوتے ہوئے مزاج، فکر اور سوچ میں زمین و آسمان جیسا فرق کیسے؟
آج یاسمین اور جبین دونوں کی شادی تھی۔ یاسمین کا رشتہ بہت امیر گھرانے کے اچھے پڑھے لکھے لڑکے سے آیا تھا، والدین خوش تھے کہ اب یاسمین کی تمام خواہشات پوری ہوجائیں گی اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ اچھی اور خوش گوار زندگی گزارے گی۔ مگر ان لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب یاسمین نے شادی کے کچھ ہی ماہ بعد اپنے شوہر سے متعلق شکوے شروع کردیے۔ اس کے شوہر کو بھی اس سے بہت سی شکایات تھیں، وہ شوہر کی مزاج شناس نہ بن سکی اور روز روز کی فرمائشوں سے اسے عاجز کردیا۔
دوسری طرف جبین اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ خوش گوار زندگی گزار رہی تھی۔ یاسمین کے شوہر کی طرح جبین کے میاں کے پاس اتنا پیسہ نہ تھا، مگر پیسہ کبھی بھی جبین کا مطلوب نہ تھا۔ اس نے اپنے سلیقے اور سمجھ داری سے گھر کو جنت کا نمونہ بنایا ہوا تھا۔ سسرال والے بھی اس کو بہت چاہتے تھے۔ اس نے بچت کرکے پہلے اپنے ساس سسر کو حج پر بھیجا اور پھر اپنے اور اپنے شوہر کے لیے رقم پس انداز کرنی شروع کردی۔
ادھر یاسمین اپنی اُسی پرانی ڈگر پر چل رہی تھی۔ آج میاں کے ساتھ شاپنگ پر جاتی، قیمتی لباس خریدتی اور ایک بار استعمال کے بعد وہ لباس اسٹور میں پاؤں تلے آرہا ہوتا۔ آخر میاں نے اُس کی اس عادت سے تنگ آکر اسے شاپنگ پر لے جانا چھوڑ دیا۔
ایک دن یاسمین کے میاں دفتر کی بھاری رقم بینک سے نکلواکر جلدی گھر آگئے کہ کل دفتر میں جمع کروا دیں گے۔ یاسمین کو پتا چلا تو اس نے وہ رقم اپنے پرس میں ڈالی اور یہ جا وہ جا۔
بہت دنوں سے شاپنگ نہیں کی تھی، ضرورت سے زیادہ بے ضرورت چیزوں میں ساری رقم اُڑا دی۔ گھر آئی تو میاں نے صاف کہہ دیا کہ ’’تمہارے پاس صبح نو بجے تک کا وقت ہے، اگر دفتر کی رقم نہ دی تو میں تمہیں تمہارے ابا کے گھر چھوڑ آؤں گا۔‘‘
بہت سوچ بچار کے بعد اس نے جبین کو فون کیا اور مسئلہ بتایا۔ جبین، بہن کی محبت میں فوراً اپنے میاں کے ساتھ پیسے لے کر آگئی۔
’’باجی! بہت وقت ناسمجھی میں گزار دیا، اب تو عقل کے ناخن لو۔ ورنہ پچھتاؤ گی۔ کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔‘‘