بے بسی

32

’’انس! شرافت سے سو جاؤ، ورنہ ابھی بلاتی ہوں ڈوگی کو۔‘‘میں نے اپنے بیٹے کو شرارتیں کرنے پر دھمکایا اور تھپکیاں دے کر سلانے لگی۔

اسی دوران نہ جانے کب میں بھی سو گئی، کیوں کہ رات بھی بہت ہوچکی تھی اور میں انس کی وجہ سے ہی جاگ رہی تھی۔

اندھیرے راستے میں نہ جانے کیوں میں بھاگ رہی تھی، پیچھے دو کتے لگے ہوئے تھے۔ میں نے خاصی دیر تک بھاگ کر اپنے آپ کو بچانا چاہا مگر پھر ایک کتے نے مجھ پر جھپٹا مارا۔ اس کے دانتوں میں میرا بازو تھا، میں چلاّ رہی تھی۔ اسی اثنا میں میری آنکھ کھل گئی۔

منظر اتنا ہولناک تھا کہ میں کچھ وقت کے لیے کمبل میں دبک کر خود کو سمجھاتی رہی کہ یہ خواب تھا۔ فجر کا وقت تھا، گرم بستر سے نکل کر وضو کے لیے گئی، پھر جلد ہی شال لپیٹ لی۔ نماز ادا کرکے جائے نماز پہ بیٹھی تھی کہ مجھے وائرل تصویر یاد آگئی جس میں کتے ایک معصوم بچے کو نوچ رہے تھے اور لکھا تھا ’’یاحبیبی…‘‘ یعنی ’’اے میرے پیارو!‘‘ وہ اس قدر ذہنی معذور بچہ تھا کہ نوچنے والوں کو بھی میرے ’’پیارے‘‘ کہہ کر بلا رہا تھا۔

نہ جانے کیوں میں اس بچے کی تکلیف محسوس کرنے لگی اور رونے لگی۔ سوچیں دوڑ رہی تھیں۔ پھر مجھے ایک ماں یاد آئی جس کو نوچتے، کھاتے، بھنبھوڑتے کتے کھا رہے تھے اور اس کی وڈیو بنانے والے بھی اپنا کام کررہے تھے۔ مگر جن کے پاس وہ وڈیو پہنچی انہوں نے کون سا اس بوڑھی ماں کے بارے میں سوچا!

میں سوچنے لگی اس وقت ہر شخص چاہے کسی بھی عمر، طبقے اور کسی بھی حال میں ہو، اپنے آپ کو اس سرزمین کے انسانوں سے مماثلت دے کر سوچ سکتا ہے، جن کتوں کے خوف سے میرے خواب میں ہی رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے اگر ان کا حقیقت سے تعلق رکھا جائے، اس ماں کی جگہ اپنی ماں کو سوچا جائے، یا اگر بچے کی بات ہو تو اپنے بچے کو ہم سوچنے سے پہلے ہی ’’اللہ نہ کرے…‘‘ کہہ دیتے ہیں۔

مگر سوچیں ابھی سارے کراچی کا پانی بند ہوا تو گھر گھر ہر فون کال میں یہ تبصرہ موجود تھا۔ کیا ہم نے سوچا کہ وہاں پانی اور کھانے کے بغیر، ادویہ کے بغیر، غرض ہر قسم کی انسانی ضرورت یا سانس لینے کی حاجت کے بغیر کیسے زندگی گزر رہی ہے؟ بلکہ برستی بارش، تن پہ کپڑا نہ ہونا اور ٹھنڈ کا بڑھ جانا، کیڑے مکوڑوں کے گرد بستر نما شے پر قیام اپنے اوپر رکھ کر دیکھیں تو کیا گوارا ہے؟

اب تو کہنے سننے کی بھی حاجت نہیں رہی، خدا نے ہاتھ میں دیے ہتھیار کو ہی گواہ بنادیا ہے، اس پر بھی اگر لوگ کہیں کہ ’’ابھی بائیکاٹ کی کوشش کررہے ہیں، مکمل کر نہیں پا رہے‘‘، یا ’’تم مانو نہ مانو ہمارے بائیکاٹ کرنے سے فرق نہیں ہوگا‘‘، یا اس جیسے بہت سے دلائل۔ لیکن کیا یہ ادنیٰ سی خواہش نہیں تھی جو انہوں نے ہم سے کی تھی! ہمیں تو چاہیے کہ جب وہ کٹ مر رہے ہوں تو ہم کم از کم ان کے لیے ایک روزہ ہی رکھ لیں، کم از کم ان کے لیے دن کے چند گھنٹے نفل کے لیے مختص کر لیں۔

ہم نے دلائل اور وقت گزاری کی بحث میں ان سے رشتے کو ہی بھلا دیا کہ ان سے محض قولی نہیں بلکہ اس احساس کا رشتہ ہے کہ ہم بھائی‘ بھائی ہیں۔ میں آج سال کے آخری ایام میں نرم قالین پر گرم شال لیے سوچ رہی ہوں کہ میں اپنے حصے کا کیا کام کر سکتی ہوں کہ اتنے میں انس کے رونے کی کھانستے ہوئے آواز آئی ’’دو،دو۔‘‘

میں اسے دودھ دینے کے لیے اٹھی۔ میرے ایک ہاتھ میں فیڈر اور ایک ہاتھ میں دوائی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ کیسا کلیجہ منہ کو آتا ہوگا جب بچہ دودھ مانگے تو اس کا پیٹ بھرنے کے لیے دودھ، اور بیمار بچے کو دینے کے لیے دوائی نہ ہو۔

حصہ