(دوسری قسط)
یہ انسانی فطرت ہے کہ گفتگو میں بے مقصد تکرار اور بحث و مباحثہ پسند نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ دوسرے کی عزت کریں گے تو وہ آپ کی عزت کرے گا۔ انسان کے اندرچھپے ہوئے پاکیزہ جذبات کو اُبھارنا چاہیے اور اس پہلو کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ کسی کو بھی اپنے مقابلے میں کم تر سمجھنا اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھنا انسانیت و شرافت کا نہیں‘ شیطنت اور کمینگی کا خاصہ ہے۔ اپنے عیوب اور خامیوں پر اور دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھنا حقیقی انسانی شخصیت کے ارتقا کا باعث ہوتا ہے۔ اپنے سے چھوٹے منصب یا عمر والوں کی بھی عزت کرنی چاہیے اور ان سے بھی مشورہ کرنا چاہیے۔
جن لوگوں سے آپ کو سابقہ پڑتا ہے انھیں مناسب مواقع فراہم کرکے ان میں خود اعتمادی پیدا کیجیے۔ کسی کی صلاحیتوں کو نظراندازکرنا اُس کے اندر دل شکستگی اور بے زاری پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ مومن اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کام کرتا ہے، تاہم انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ قدردانی اور حوصلہ افزائی کو پسند کرتا ہے۔
ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کیا اُس نے اللہ تعالیٰ کا شکر بھی نہیں کیا‘‘۔ کسی کے حق میں کلمۂ خیر کہنا اور اسے دعا دینا بھی حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس سے مزید اچھے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہاں‘ کسی کی جھوٹی تعریف نہیںکرنی چاہیے۔
یہ بھی ایک بہت اہم اور پسندیدہ بات ہے کہ لوگوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان کی غلطیوں اور خامیوں کی حکمت و دانائی سے اصلاح کی جائے اور مثبت پہلو اُبھارا جائے۔ مثلاً ایک صاحبِ علم آپ سے مشورہ کرتا ہے کہ وہ تجارت کرنا چاہتا ہے۔ آپ اُس کے اندر نہ اس کا ذوق پاتے ہیں اور نہ اس کی صلاحیت، تو آپ اُس سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ ایک صاحب ِ قلم و صاحب ِ فکر شخص ہیں، اس میدان کو نہ چھوڑیے۔ اس کے بجائے اگر آپ نے کچھ ایسی بات کہہ دی کہ وہ کوئی کاروباری صلاحیت ہی نہیں رکھتا تو عین ممکن ہے کہ آپ کی بات اسے ناگوار ہو۔
یہ بات بھی لوگوں کو اچھی لگتی ہے کہ انھیں اچھے ناموں سے پکارا جائے، تحقیر آمیز انداز نہ اختیار کیا جائے۔
لوگ کیا ناپسند کرتے ہیں:
اس میں اختلافِ رائے نہیں ہوسکتا کہ لوگ برسرِعام نصیحت کو ناپسند کرتے ہیں اور ہرگز نہیں چاہتے کہ ان کے عیب اور برائیاں لوگوں کے سامنے بیان کی جائیں۔ اگر کسی شخص کو نصیحت کرنا چاہتے ہیں تو تنہائی میں کیجیے۔ اس طرح وہ شخص نصیحت قبول کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوگا اور اس کے دل میں آپ کی قدر اور احسان شناسی کا جذبہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔
بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی نصیحت سے انسان فوراً مکمل طور پر بدل جائے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نصیحت کو سمجھنے، قبول کرنے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے لیے انسانی مزاج کو وقت درکار ہوتا ہے۔
انسان براہِ راست نکتہ چینی پسند نہیں کرتا۔ اسے یہ بھی گراں گزرتا ہے کہ اس سے حکم کے انداز میں کہا جائے کہ یہ کرو، وہ نہ کرو۔ اگر وہی بات مناسب موقع پر اور حکمت کے ساتھ کہی جائے تو توقع کی جاسکتی ہے کہ زیادہ قابلِ قبول ہوگی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکمت و نرمی والا اسلوب اختیار فرماتے تھے۔ مثلاً کچھ خستہ حال لوگ آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ ان کی حالت دیکھ کر متاثر ہوئے اور مسجد میں ان کی مدد پر اُبھارنے کے لیے لوگوں کے سامنے تقریر فرمائی۔ لیکن بجائے براہِ راست حکم دینے کے آپؐ نے ماضی کے واقعے کے طور پر ذکر فرمایا کہ کسی نے دینار و درہم صدقہ کیا، کسی نے کپڑے اور کسی نے کھجور۔ اس کے بعد ایک انصاری کافی کھجور لاد کر لائے۔ بوجھ سے ان کے پیر کانپ رہے تھے۔ آپؐ کا چہرہ کھل گیا۔ دوسرے لوگ بھی لا لا کر آپؐ کے پاس ڈھیر کرتے رہے۔ آپؐ نے خوش ہوکر فرمایا ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا اسے وہ طریقہ اختیار کرنے والوں کے برابر ثواب ہمیشہ ملتا رہے گا‘‘۔ (مسلم)
غور کیجیے آپؐ نے کس حکمت کے ساتھ لوگوں کو صدقہ کرنے پر اُبھارا اور پھر کس طرح صدقہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
ایک استاد اپنی میز کلاس روم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ طلبہ بھی اس کا ہاتھ بٹائیں۔ اب اگر وہ کہتا ہے کہ آئو یہ میز اُٹھا کر وہاں رکھ دیں، یا اس طرح کہتا ہے کہ اگر یہ میز اٹھا کر وہاں رکھ دی جائے تو تم لوگوں کے خیال میں کیسا رہے گا؟ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلے گا، لیکن دوسری صورت طلبہ کے لیے زیادہ پسندیدہ ہوگی۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ جوکام کرانا چاہتے ہیں اس کی اہمیت مخاطب کے دل میں پیدا کردیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپؐ لوگوں کو جو حکم دینے والے ہوتے پہلے اس کے بارے میں شوق پیدا کردیتے، مثلاً غزوۂ خیبر کے موقع پر ایک دن آپؐ نے فرمایا ’’کل میں جھنڈا اُس شخص کو دوںگا جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کو محبت ہے۔‘‘ (متفق علیہ) ہر شخص تمنا کرنے لگا کہ کاش وہ شخص میں ہی ہوجائوں، یا مثلاً آپؐ نے حضرت ابوذرغفاریؓ کو امارت سے منع کرتے ہوئے فرمایا ’’میں تمھارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ کبھی دو آدمیوں کے بھی امیر مت بننا‘‘۔ (مسلم)
ایک شخص چند مہمانوں کوکھانے پرمدعو کرتا ہے۔ اب اگر وہ اپنی اہلیہ کو براہِ راست حکم دیتا ہے کہ فلاں فلاں چیز پکا لو۔ پھر بعد میں نکتہ چینی کرتا ہے کہ فلاں چیز کیوں بھول گئیں، تو اس انداز میں اور اس طریقے میں زمین آسمان کا فرق ہوجائے گا کہ وہ اپنی اہلیہ سے کہے کہ آج فلاں وقت کچھ مہمان آنے والے ہیں اور کھانے سے گھر والوں کے ذوق ومعیارکا پتا چلتاہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں کا سر نیچا نہ ہونے پائے۔ ایسی صورت میںاہلیہ زیادہ خوش دلی اور توجہ سے کام کرے گی۔
لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگتا کہ ان کے عیبوں اور خامیوں کو تو تلاش کیا جائے اوران کی اچھائیوں کو نظرانداز کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی کوئی بات اسے ناپسند ہے تو کوئی دوسری بات پسند بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ (مسلم)
کوئی شخص بھی خامیوں سے مبرا نہیں۔ اور نہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص میں خامیاں ہی خامیاں ہوں اور خوبی کوئی نہ ہو۔ ایسے شخص کی تلاش جس میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں ہوں، کوئی بھی خامی نہ ہو، محض خیالی بات ہوگی۔ ہم بعض لوگوں کی کچھ چیزیں ناپسند کرتے ہیں لیکن جب وہ ہم سے دورہوجاتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے اور وہ ان سے بدتر ثابت ہوتے ہیں تب پہلے لوگوں کی قدر معلوم ہوتی ہے۔
زندگی گزارنے کے دوطریقے ہیں۔ ایک طریقہ منفی ہے۔ اس کی بنیاد لوگوں کی برائیوں ہی پر نظر رکھنے پر ہوتی ہے۔ اس میںغلطیاں اصلاح کی خاطر نہیں دیکھی جاتیں بلکہ خودغرضی اورلوگوں کے استحصال کا جذبہ اس کا محرک ہوتا ہے۔ دوسرا طریقہ مثبت ہے اور وہ یہ کہ آپ لوگوں کی خوبیوں پر توجہ دیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی فضیلت کا ذکرکرتے ہوئے اسی طریقے کی نشان دہی فرماتے ہیں ’’میں تمھیں انصارکے بارے میں وصیت کرتا ہوں، کیوں کہ یہ لوگ میرے خاص الخاص ہیں۔ انھوں نے اپنا حق ادا کردیا (یعنی بیعت عقبہ میں جوعہد کیا تھا وہ پورا کردیا)۔ اب ان کے حق کی ادائی باقی رہ گئی ہے۔ لہٰذا ان میں سے جو اچھا کرے اسے قبول کرو اور جو کوئی غلطی کرجائے اس سے درگزر کرو‘‘۔(بخاری)
لوگ ایسے اشخاص کو ناپسندکرتے ہیں جو ان کی غلطیوں کو بھولتے نہیں بلکہ یاد رکھتے ہیں اور موقع بہ موقع یاد دلاتے رہتے ہیں۔ اگر کسی کو معاف کردیتے ہیں تو اس پر احسان جتاتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کردار کو سراہا ہے جو لوگوں کو معاف کردیتے ہیں، ان کی پردہ پوشی کرتے ہیںاور بھول جاتے ہیں۔ آپ جس کے ساتھ کوئی بھلائی کریں گے تو یہ عین متوقع ہے کہ وہ اس بھلائی کو نہیں بھولے گا، لیکن احسان جتانے سے تو بھلائی تلخی میں بدل جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)
اور یہ تو نہایت معیوب بات ہے کہ لوگوں کے ساتھ حقارت آمیز برتائوکیا جائے اور ان پر اپنی بڑائی جتائی جائے۔ اس کے بجائے انکسار و تواضع پر بہت زیادہ زور دیا گیاہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا ایک واقعہ ان کے ایک شاگرد نے بیان کیا ہے کہ امام صاحب ایک رات میرے گھر آئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا، میں نکلا توسلام کلام کے بعد فرمایا: آج میرے دل میں ایک چیز بار بارکھٹکتی رہی۔ میں دن میں گزرا تو آپ لوگوں سے حدیث بیان کررہے تھے۔ آپ سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ دھوپ میں کاغذ قلم لے کر لکھ رہے تھے۔ ایسا نہیں کرناچاہیے۔ سب لوگوں کے ساتھ ہی بیٹھنا چاہیے۔ دیکھیے امام صاحب نے تنہائی میں کس خوب صورتی کے ساتھ نصیحت کی۔ اور یہ واقعہ بیان کرنے والے بھی ان کے وہی شاگرد ہیں۔ خود امام صاحب نے کسی سے بیان نہیں کیا۔ اپنے کسی ساتھی کو بھی سب کے سامنے ٹوکنا پسندیدہ نہیں ہے۔
دوستوں کو جلد جلد ملاقات نہ کرنے پر بھی ملامت نہیں کرنی چاہیے۔ دراصل محبت کا تقاضا باربار کی ملاقات سے پورا نہیں ہوتا۔ کتنے دوست ایسے ہوتے ہیں جن سے بہت دنوں کے بعد ملاقات ہوپاتی ہے لیکن ان کی محبت پختہ اور مخلصانہ ہوتی ہے۔
لوگ اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی شخص اپنی غلطی پر مصر رہے۔ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہیے۔ غلطی سے محفوظ رہنے کی ایک اہم تدبیر یہ بھی ہے کہ جس چیز کے بارے میںصحیح معلومات نہ ہوں، اس کے بارے میں اظہارِ رائے کرنے سے احتراز کیا جائے۔ کسی چیز کے بارے میں اپنی لاعلمی ظاہر کردینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
انسان کی یہ خصلت بھی بدذوقی کی علامت ہوتی ہے اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے کہ وہ ہر کامیابی کو اپنی طرف منسوب کرے اور غلطیاں اورناکامیاں دوسروں کے سر ڈالے۔
مومن کا طرزِعمل:
جب بندہ اپنے پروردگار پرسچا ایمان رکھے گا اور آخرت کے محاسبے پر، اور اس بات پر اسے پورا یقین ہوگا کہ ہر ایک نیکی اور بدی کا اسے بدلہ ضرور ملے گا تو اس کا یہ یقین اسے اس امر کا مستحق بنائے گا کہ اللہ کی ہدایت اسے سیدھی راہ اختیار کیے رہنے کا موقع عنایت کرے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرے گا، اس کی نافرمانی سے بچے گا، لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے گا، دیانت دار و امانت دار بن کر رہنے کی کوشش کرے گا، ایفائے عہد کرے گا، نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرے گا، صداقت شعار ہوگا، اس کے لینے اور دینے کے پیمانے ایک ہوں گے اور اپنی پوری زندگی کو اسی اصول پر استوار کرنے کی کوشش کرے گا۔ ’’پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو، صحیح ترازو سے تولو‘‘۔ (الشعرا)
وہ خرید و فروخت میں کشادہ دلی سے کام لے گا۔ دوسروں پر اپنے حقوق کے تعلق سے نرمی اختیار کرے گا، کسی کے ساتھ دھوکا نہیں کرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ سامانِ تجارت کی قیمت بڑھا چڑھا کر نہیں بتائے گا، نہ جھوٹی قسمیں کھائے گا۔ وہ قیمتیں بڑھانے کے لیے ذخیرہ اندوزی بھی نہیںکرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے غذائی اشیا 40 دن تک روکے رکھیں، اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہوگیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے دُور ہوگیا‘‘ (احمد و حاکم)۔ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پیش نظر رکھے گا کہ سچا دیانت دار تاجر نبیوں، صدیقوں، شہیدوںاور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
اگر وہ کسان ہے تو زمین سے غلّہ وغیرہ پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے مقصد سے اس پر پوری توجہ دے گا، کیونکہ پیداوار کے ساتھ اسے اجر و ثواب بھی ملے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’جو مسلمان بھی کوئی پودا لگاتا ہے یا کوئی کھیت بوتا ہے۔ اس سے انسان، پرندے اور جانور جو بھی کھاتے ہیں اسے اس کا ثواب ملتا ہے‘‘۔
(جاری ہے)