ایک دھوکہ:
ایک اہم اور سنجیدہ موضوع سوشل میڈیا سے نکال کر لائے ہیں۔ لبرل ازم کی ہولناک شاخوں میں ایک فیمن ازم ہے۔ اس غلیظ فیمن ازم اور خواتین کے تحفظ کے نام پر چلائی گئی تحریکوں کے بارے میں اب سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تحریکیں خواتین کو مزید غیر محفوظ کررہی ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے جواب میں اب ’مَردانہ حقوق‘ لانچ ہوگئے ہیں۔ بھارت ڈیڑھ ارب آبادی والا اہم ملک ہے۔ وہاں ہونے والا کوئی واقعہ معمولی نہیں۔ ہمارے ملک میں تو شادی بیاہ، خوشی غمی، سیاسی و مذہبی سمیت تہذیبی مظاہر بھارت سے ہی نقل شدہ نظر آتے ہیں، اس لیے اثرات کی منتقلی کی اہمیت کا انکار کوئی نہیں کرسکتا۔
اس ہفتے سوشل میڈیا پر بھارت میں مردانہ حقوق کا معاملہ اہم موضوع بن گیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا، ایک دہائی میں کئی بار سامنے آیا ہے۔ اس وقت فیمن ازم کی تیسری لہر یورپ و امریکا میں چھائی ہوئی ہے، جس میں عورت جنس کی قید سے آزاد ہوچکی ہے۔ وہاں اب پہلی دو لہریں وقت پورا کرکے بڑی حد تک ختم ہوچکیں۔ ہمارے برصغیر میں بدقسمتی سے فیمن ازم کی تینوں لہریں بیک وقت چل کر خوب ’رائتہ پھیلا‘رہی ہیں۔ یہاں آپ کو عورت مارچ، مورت مارچ، ٹرانس جینڈر، عورت حقوق، ویمن ایمپاورمنٹ، اسلامی فیمن ازم سمیت ہر ’مال‘ بآسانی ملے گا۔ بھارت میں خودکشی معمول ہے مگر حالیہ واقعے نے دوبارہ توجہ حاصل کرلی ہے، کیونکہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ بھارت میں یہ بحث زندہ ہوچکی ہے کہ خواتین کے تحفظ کے نام پر بنائے گئے قوانین مردوں کے لیے خطرناک بن چکے ہیں۔
اتل سبھاش کیس:
9 دسمبر 2024ء کو بنگلورو کے 34 سالہ انجینئر اتُل سبھاش نے خودکشی کرلی۔ اُتل بہار سے تعلق رکھنے والا، مڈل کلاس گھرانے کا فرد تھا۔2019ء میں اُس نے رشتہ کرانے والی ویب سائٹ سے نکیتا سنگھانیا کو پسند کرکے شادی کی۔ نکیتا جون پور کی رہائشی تھی، یہ بنگلورو میں تھا۔ یہ دو الگ شہر ہیں۔ 2020ء میں اُن کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا۔ شادی کے بعد اتل کے سسرال کی جانب سے مستقل بہانوں سے رقوم کی ڈیمانڈ آنا شروع ہوگئیں۔ شروع میں تو وہ رشتے دار سمجھ کر دیتا رہا۔ اس دوران کورونا آیا، بچے کی پیدائش کے بعد اتل کی ساس اُس کے گھر رہنے آئی۔ یہاں اتل سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا گیا۔ اتل نے معذرت کی۔ مئی 2021ء میں اتل کی ساس اپنی بیٹی اور نواسے کو وہاں سے کورونا کا بہانہ کرکے جون پور لے گئی۔ اتل نے کچھ عرصے بعد جب بیوی بچے کی واپسی کی کوشش کی تو اُس کو حیران کن ردعمل ملا۔ یہاں سے شروع ہوتا ہے وہ سلسلہ جو دسمبر 2024ء میں اتل کی خودکشی پر ختم ہوا۔
اُس کی بیوی اور سسرال والوں نے اتل اور اس کے گھر والوں کے خلاف مقدمات کے ڈھیر لگادیے۔ اتل نے اپنی خودکشی سے قبل 90 منٹ کی ایک وڈیو بنائی اور 24 صفحات کا خط چھوڑ کر ہولناک حقیقت سے پردہ چاک کیا۔ ظاہر ہے کہ مرنے سے قبل انسان جھوٹ نہیں بولے گا، اُس کو یہی لگتا تھا کہ اب مجھے اپنی سچائی جان دے کر ہی بتانی پڑے گی۔ خودکشی کے نوٹ میں اتل سبھاش نے اپنی بیوی اور اس کے خاندان کو اپنی موت کا ذمہ دار قرار دیا۔ اُس کی بیوی نے اپنے بھائی اور ماں کی مدد سے پیسہ بٹورنے کی خاطر جھوٹے مقدمات کے ذریعے اُس پر جہیز مانگنے، گھریلو تشدد، قتل کی کوشش، اور مالی استحصال، غیر فطری جنسی تعلق جیسے الزامات ٹھونک دیے تھے۔ یہ سارے کیس الگ الگ کیے گئے۔ ایک کیس جھوٹا ثابت ہوتا تو دوسرا کرتے، پھر دوسرا ختم ہوتا تو تیسرا۔ ایک مقدمہ اُس کی بیوی نے یہ کیا کہ اتل نے مجھ سے 10لاکھ روپے بطور جہیز مانگے، جس پر میرے باپ کو دل کا دورہ پڑا اور وہ مرگیا۔ بھارت میں جہیز مانگنے پر سزا کا قانون ہے۔ کیس چلا تو معلوم ہوا کہ لڑکی کا باپ تو 2019ء میں ہی مر چکا تھا۔ پھر اُس کی بیوی نے گھریلو تشدد کا کیس 2022ء میں ڈال دیا، جبکہ وہ 2021ء میں ہی گھر چھوڑ چکی تھی۔ یہ کیس بھی دو سال تاریخ پر تاریخ کے بعد ختم ہوگیا، مگر کورٹ کے چکر لگا لگا کر، اپنی بے گناہی ثابت کرتے کرتے اتل آدھا ہوچکا تھا۔ طلاق اور جہیز کے بعد یہ تیسرا مقدمہ تھا۔ اتل اس دوران کورٹس میں 120 سماعتوں کو ایک شہر سے دوسرے شہر، بنگلورو سے جون پور جاکر بھگتتا۔
اتل کا باپ کہتا ہے کہ جو لڑکی خود نوکری کرکے لاکھ روپیہ کما رہی ہے وہ کیسے بچے کی پرورش کے نام پر شوہر سے پیسے مانگ سکتی ہے! کیونکہ بچے کا خرچ اس لیے دیا جاتا ہے کہ عورت گھر پر صرف بچے کی پرورش کرے گی۔ ستمبر 2024ء میں اس کی بیوی نے تشدد کا جعلی کیس کردیا۔ اتل کی برداشت ختم ہوچکی تھی، اُس کو باقاعدہ خودکشی کے لیے اکسایا گیا، جس میں کورٹ کی جج سے لے کر اُس کی بیوی بھی شامل تھی کہ اگر وہ اتنی رقم نہیں جمع کرسکتا تو زندہ ہی کیوں ہے؟ یہ رقم آخر میں 3 کروڑ برائے طلاق سیٹلمنٹ تک جا پہنچی تھی، یہ تمام جملے ریکارڈ پر لاکر اَتُل نے خودکشی کرلی۔
اُس کی بیوی نکیتا کو ہریانہ سے، ساس نِشا اور سالے انوراگ کو دیگر مقامات سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ انہیں عدالت میں پیش کرکے 14دنوں کی عدالتی حراست میں جیل بھیج دیا گیا۔ اتل نے اپنے سسرالیوں پر ہی نہیں بلکہ ججوں پر بھی سیٹلمنٹ کے نام پر رشوت مانگنے کا مدعا اُٹھایا۔
میڈیا کا ردعمل:
میڈیا کو خبر چاہیے، 90 منٹ کی وڈیو سوشل میڈیاپر وائرل ہوگئی۔ نجی زندگی میں جھانکنے کا مزہ سوشل میڈیا پر الگ ہی ہوتا ہے کیونکہ اب کسی کا کوئی نج نہیں رہا۔ اتل نے بھی سوشل میڈیا کی ابلاغی قوت کو پیش نظر رکھ کر یہ قدم اٹھایا اور اُس کو وہی نتائج ملے۔ اس میں نیا موضوع ’جھوٹے مقدمات پر مردوں کی خودکشی‘ ہے۔ بھارت میں متعلقہ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ دو چار نہیں بلکہ لاکھوں مرد ہیں جنہوں نے خودکشی کی ہے اور کئی نے وڈیوز بھی بنائی ہیں۔ متعدد نیوز چینلز نے اس واقعے کو مردوں کے حقوق کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ ’’MirrorNow‘‘ کی صحافی شریا دھونڈیال نے ’’دی اربن ڈیبیٹ‘‘ میں کہا کہ گھریلو تشدد اور جہیز کے خلاف قوانین مردوں کے خلاف تعصب پر مبنی ہیں۔ اسی طرح ’انڈیا ٹی وی‘ کے رجت شرما نے ان قوانین کو ’’ظالمانہ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ قوانین مردوں کو خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کررہے ہیں۔
قوانین پر رائے:
اتل کا بھائی کہتا ہے کہ اگر سسٹم نہیں بدلا گیا تو ایسا وقت آئے گا کہ لڑکا شادی کرنے سے ہی ڈرے گا۔ ہندو ایکٹ کے مطابق لڑکی کو بھی برابر کا حصہ باپ سے ملتا ہے لیکن کوئی لڑکی اپنے ساتھ یہ وراثت نہیں لاتی۔ لڑکی شادی کے باوجود 10افیئر بھی چلائے تو طلاق پر لڑکی ماہانہ خرچ کے نام پر بھاری رقم لیتی ہے۔ مرد ظالم ہے، ظلم کرے گا اس لیے ایسے قوانین بنائے گئے کہ خواتین کو بچایا جاسکے۔ لیکن صورتِ حال یہ ہوچکی ہے کہ قوانین کا مستقل غلط استعمال ہورہا ہے۔ نتیجے میں مرد یہ بہتر سمجھتا ہے کہ موت کو گلے لگا لے۔ کورٹ جانے کے بعد جتنا چاہے کورٹ ’’صلح‘‘کی جانب مجبور کرے مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ جب عورت ایسے سنگین جھوٹے الزام شوہر پر لگاکر کورٹ میں گھسیٹے گی تو کیسے، کہاں سے صلح ہوگی؟
بھارت میں خواتین حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ’’قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے، لیکن اصل میں تو قوانین خواتین کے تحفظ کے لیے ہیں‘‘۔ دیپکا نارائن بھردواج ایک خاتون صحافی اور فلم میکر ہیں۔ یہ بھارت میں مردانہ حقوق کی نمایاں آواز جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے بھارتی جہیز کے قانون 498Aپر 8 سال قبل ایک دستاویزی فلم بنائی ’’martyrs of marriage‘‘۔ اس فلم نے بھارتی مردوں پر جہیز کے قانون کی آڑ میں ہونے والے مظالم کے راز کھول دیے۔ اُنہوں نے مغرب سے درآمد شدہ ’’می ٹو‘‘ موومنٹ کے بھی راز فاش کیے اور جواب میں ’’مین ٹو‘‘ مہم چلائی۔ دیپکا نے بھارتی معاشرت میں میڈیا کے ذریعے پھیلتی لبرل اقدار کی وہ داستانیں بیان کیں جنہیں آپ اِن صفحات پر برداشت ہی نہیں کرسکتے۔ بس یہ جان لیں کہ اُن کے مطابق بھارتی خواتین اپنی 1: مستقل بڑھتی ہوئی لامحدود خواہشات، 2: مرضی کی ہروقت خریداری، 3: محنت کے بغیر پُرتعیش زندگی کی خاطر ہر حد پار کررہی ہیں۔
مسئلہ کہاں ہے:
ہندو مذہب میں میاں بیوی کا رشتہ جسمانی، معاشرتی اور روحانی مانا جاتا ہے۔ ’’اردھ ناریشور‘‘ (آدھا مرد آدھی عورت) کہا جاتا ہے، یعنی دونوں ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں۔ ہندو دھرم کی کتاب ’’منوسمرتی‘‘ کے مطابق میاں بیوی کا رشتہ زندگی بھر کے لیے ہے۔ شوہر کو گھر کا سربراہ اور خاندان کی ذمہ داری اٹھانے والا قرار دیا جاتا ہے۔ بیوی کو ’’گھر کی دیوی‘‘کے طور پر شوہر کی معاون، وفادار، اور خاندان کی دیکھ بھال کرنے والی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دینِ اسلام میں بھی میاں بیوی کے حوالے سے جو احکامات ملتے ہیں وہ ’مجازی خدا، قوام، سجدے کی اجازت‘ جیسے اشاروں سے کافی ہیں سمجھانے و تذکیر کے لیے۔ جب مذہب کی ایسی تعلیمات ہیں، تو پھر وہ کون ہے جو اپنے عقیدے پر عمل سے یکسر روک دیتا ہے؟ ایسے کہ کسی رشتے کی کوئی قدر باقی نہیں رہتی۔ نہ ماں، نہ باپ، نہ بیٹا، نہ شوہر، کوئی نہیں۔
قانون:
انسانوں کو جنس قرار دے کر، رشتوں سے کاٹ کر، صرف حقوق کے نام پر بننے والے قوانین کبھی بھی کوئی مسئلہ حل نہیں کرسکتے۔ یہ ایک لغو، خیالی، idealistتصور ہے کہ قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔ کہاں؟ کس ملک میں کون سے قانون کا غلط استعمال نہیں ہوتا؟ پاکستان ہو یا بھارت، برطانیہ ہو یا امریکا… قتل کے جھوٹے الزام سے لے کر ہر طرح کا الزام لگاکر مقدمہ بنانا کوئی حیرت یا اچنبھے کی بات نہیں۔ جدید لبرل ’قانون‘ سارا کا سارا طاقتور کے لیے ہوتا ہے، یہ اس ’قانون‘ کا اصل جوہر ہے۔
اس لیے ہم کہتے ہیں کہ وحی، مذہب، خالق کے احکامات کو چھوڑ کر انصاف کے اصول و پیمانے جب بھی، جہاں بھی بنائے گئے، ہمیشہ ناکام ہی رہے ہیں۔ اس حقیقت کو جتنا جلدی سمجھا جائے گا اُتنا ہی جلد افاقہ ہوگا۔ مگر اس کے لیے پہلے اپنے آپ کو ’’مجرد فرد‘‘کے خانے سے نکالنا ہوگا۔
دُنیا کے جس خطے میں مغربی عقائد کو جگہ دی گئی، وہاں خاندانوں کی تباہی ہولناک حد پر پہنچ رہی ہے۔ ہزاروں سال پر محیط معلوم انسانی تاریخ میں ایسی صورتِ حال کبھی پیش نہیں آئی۔ مال، سونے چاندی کی محبت ہمیشہ انسانوں میں رہی ہے، اس کی خاطر جنگ و جدال سب ملے گا، مگر خاندانوں کی ایسی تباہی کسی معاشرت میں نہیں ملے گی۔ کسی تاریخ دان کی کتاب پڑھ لیں، رشتوں کی معنویت ختم ہوجانے کا یہ منظر آپ کو کہیں کسی معاشرت میں نہیں ملے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے مال کی محبت کو اُس کے پُرتعیش استعمال کی ’’اندھی کھائی‘‘ فراہم کی ہے۔ خواہشات انسان پر غلبہ پاتی ہیں تو اُس کے نزدیک رشتہ نہیں خواہش پر عمل اہم ہوجاتا ہے۔ خواتین کو آزادی دینے یا empower کرنے کا مغربی عقیدہ جب برصغیر میں آیا تو یہی تباہی لایا۔ اس مضمون کی تیاری میں جتنے کیسز مزید دیکھنے، جاننے، سننے کو ملے وہ تحریر کردوں تو آپ کی روح تک کانپ اُٹھے گی، گوکہ وہ سب انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہماری معاشرت میں عورت کو رشتوں سے کاٹ کر الگ ’جینڈر‘ کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے۔ ایسا آزاد جینڈر جس پر کسی کا زور نہیں چل سکتا۔ وہ اپنی مرضی، اپنی خواہش کی تکمیل میں کسی کی پابند نہیں۔ کوئی خدا، کوئی کتاب، کوئی مذہب، کوئی شوہر، کوئی اولاد، کوئی باپ، بھائی، کوئی رشتہ نہیں ہوتا، سب ’سوشل کنٹریکٹ‘ ہیں۔ یہاں سے ہی ’میریٹل ریپ‘ کی ہولناک اصطلاح نکلتی ہے۔ عورت کا حق ہے کہ وہ آزاد ی سے ہر فیصلہ کرے۔ ابھی کراچی میں ہمارے ایک دین دار صحت مندگھرانے کا رشتہ ’میریٹل ریپ‘ کے گھنائونے الزام پر ختم ہوا۔ اب یہ صورتِ حال کراچی پہنچ چکی ہے، تو مردانہ حقوق کا کیا ہوگا؟ یوں ظلم کی نئی شکلیں سامنے آئیں گی اور سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا جو درحقیقت مذہب سے آزاد ہونے کا نتیجہ ہے۔