انقلابی نوعیت کی تبدیلیوں کے اِس دور میں انسان کو ایسا بہت کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے جس کے بارے میں اُس نے سوچا بھی نہ تھا۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں اس قدر واقع ہورہی ہیں کہ ذہن کے گھوڑے دوڑاتے رہیے، سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا۔ تبدیلیاں ہیں کہ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ تین ساڑھے تین ہزار سال کے علمی ارتقا کے سفر میں انسان نے جو کچھ بھی پایا ہے وہ اب مجموعے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ یہ سب کچھ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہماری زندگی میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتا جارہا ہے۔ فطری علوم و فنون کے معاملات وہاں پہنچے ہوئے ہیں جہاں ذہن پہنچتے پہنچتے تھک جاتا ہے۔
کچھ کی کچھ ہوتی ہوئی دنیا
ٹیکنالوجیز کی دنیا نے ہمارے معاملات کو کچھ کا کچھ کردیا ہے۔ بہت سوچنے پر بھی ذہن سمجھ نہیں پاتا کہ جو تبدیلیاں ہر طرف رونما ہورہی ہیں اُن سے کیا نتائج اخذ کیے جائیں اور اُن نتائج کے منفی پہلوؤں سے بچنے کے لیے کیا حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔ دنیا بھر میں شدید بدحواسی ہے جو معاملات پر چھائی ہوئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ترقی پزیر یا پس ماندہ دنیا کے لیے مسائل ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا بھی الجھنوں اور پیچیدگیوں کی سُولی پر لٹکی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کرتا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں تمام ہی معاملات آپس میں ایسے الجھ گئے ہیں کہ کسی بھی معاملے کی کوئی کَل سیدھی دکھائی نہیں دیتی۔ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ آج کا انسان معاملات کو سمجھنے کی خاطر خواہ کوشش بھی نہیں کررہا۔
ٹیکنالوجی کی گرم بازاری
ایک طرف ٹیکنالوجیز میں پیش رفت کی گرم بازاری نے قیامت ڈھا رکھی ہے اور دوسری طرف دنیا بھر میں معاشرے پریشان کن رفتار سے خطرناک حد تک تبدیل ہورہے ہیں۔ فطری علوم و فنون کے نتیجے میں سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر بھی بہت سی ایسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جن کے نتیجے میں زندگی کا پورا ڈھانچا تبدیل ہورہا ہے۔ بعض معاشروں میں یہ عمل اس قدر اور اتنا تیز ہے کہ بقا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
زندہ رہنے کی بڑھتی قیمت
آج کی دنیا میں زندہ رہنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ نئی نسل اس حقیقت کو خوب سمجھتی ہے، اس لیے بہت سے معاملات میں، کسی کے سکھائے بغیر بھی، بہت کچھ سیکھ گئی ہے اور وہی کچھ کررہی ہے جو اُسے درست دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا بھر کے بڑے اور درمیانے حجم کے شہروں میں زندہ رہنے کی قیمت اس قدر ہے کہ لوگ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی تگ و دَو ہی میں کھپ رہے ہیں۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے زیادہ مالی وسائل کی ضرورت انسان کو بہت سے ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کررہی ہے جن کے بارے میں انسان نے کم ہی سوچا تھا۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ دنیا بھر کے بڑے شہروں میں بالعموم اور ترقی یافتہ دنیا کے بڑے شہروں میں بالخصوص نئی نسل شادی کے بندھن سے کترا رہی ہے۔ بڑے شہروں ہی پر کیا موقوف ہے، سچ تو یہ ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کی نئی نسل گھر اور فیملی کی ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے۔ ایسا کچھ تو اپنے مزاج کی بنیاد پر ہے اور معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ معمولی آمدنی میں گزارا مشکل ہے۔
معمر افراد کی بڑھتی تعداد
دنیا بھر میں صحتِ عامہ کا عمومی معیار بلند ہورہا ہے۔ بہت سی ہلاکت خیز بیماریوں کا مؤثر اور قابلِ اعتماد علاج دریافت کیا جاچکا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں صحت ِ عامہ کا عمومی معیار قابلِ رشک حد تک بلند ہوچکا ہے۔ اِس کے نتیجے میں اوسط عمر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ چند ممالک میں معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد معاملات کو انتہائی پریشان کن مرحلے تک لے جارہی ہے۔ جاپان، جنوبی کوریا، چین، روس، امریکا اور یورپ میں علاج کی بہتر سہولتوں اور دیگر معاون عوامل کی بدولت لوگ زیادہ جی رہے ہیں۔ لوگوں کو اچھی صحت کے ساتھ خاصی بڑی عمر تک جینے کا موقع مل رہا ہے۔ اِس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے؟ خیر، یہ بات ہے تو بہت اچھی، مگر اِس میں بھی قباحتیں چھپی ہوئی ہیں۔
ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ اوسط عمر بڑھنے سے معاشروں میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں تو پھر بھی معمر افراد سے اُن کے تجربے کا نچوڑ حاصل کرنے کی خاطر اُنہیں کام پر لگایا جاتا ہے، مگر ترقی پزیر اور پس ماندہ معاشروں میں اُنہیں ناکارہ قرار دے کر ایک طرف بٹھادیا جاتا ہے۔ معمر افراد کے ذہنوں میں بھی یہ خیال راسخ ہوچکا ہے کہ بڑھاپا صرف آرام کے لیے ہوتا ہے۔ اُن کے ذہنوں سے یہ تصور کھرچ کر پھینکنا انتہائی دشوار ثابت ہورہا ہے کہ کام کرنے کی اصل عمر بڑھاپا ہے جب انسان اپنا زندگی بھر کا یعنی کم و بیش چار یا ساڑھے چار دہائیوں کا تجربہ نچوڑ کر پیش کرسکتا ہے، نئی نسل کی ڈھنگ سے راہ نمائی کرسکتا ہے۔ عمومی ماحول ایسا ہے کہ معمر افراد کام کرنے کی توانائی محسوس نہیں کرتے اور اُن میں کچھ کر دکھانے کی لگن کا گراف بھی گرا رہتا ہے۔ اِس کے برعکس ترقی یافتہ معاشروں میں حکومتیں اور کمیونٹی اُن کے تجربے سے مستفید ہونے پر متوجہ رہتی ہیں۔
بجٹ پر معمر آبادی کے اثرات
بہت سے ممالک میں معمر افراد کی تعداد خطرناک رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ صحتِ عامہ کے بلند معیار اور اِس کے نتیجے میں اوسط عمر میں اضافے نے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر معاشروں میں معمر افراد کی تعداد بڑھا دی ہے۔ علاج کی بہتر، بلکہ قابلِ رشک سہولتوں نے زندہ رہنے کی لگن بڑھانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
جاپان اِس حوالے سے بہت نمایاں ہے۔ وہاں معمر افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ملک کی آبادی میں 80 سال یا اِس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 50 تا 55 فیصد ہوچکی ہوگی۔ جن معاشروں میں معمر افراد کی تعداد زیادہ ہے اُنہیں اُن کی فلاح و بہبود اور پنشن کی مد میں غیر معمولی اخراجات کا سامنا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ جس شخص نے معاشرے کو اپنی عمر دی ہو اُس کے لیے بڑھاپے میں بہت کچھ کرنا ہی چاہیے، مگر اوسط عمر میں اضافے کی رفتار بڑھنے سے حکومتوں پر پنشن اور دیگر متعلقہ اخراجات کا دباؤ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے کسی بھی حالت میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
نوجوانوں کی تعداد میں کمی
بہت سے معاشروں کو نوجوانوں کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان اس اعتبار سے انتہائی خوش نصیب ہے کہ یہاں مجموعی آبادی میں نئی نسل کا تناسب دنیا میں شاید سب سے زیادہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی نئی نسل سے کماحقہٗ مستفید نہیں ہوپا رہے۔ دنیا بھر میں جواں سال افرادی قوت کو عمدگی سے بروئے کار لانے پر توجہ دی جاتی ہے، منصوبہ سازی کی جاتی ہے، وسائل لگائے جاتے ہیں، اُنہیں ہنرمند بناکر معاشرے کے لیے معقول حد تک مفید بنایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اِس حوالے سے قابلِ رشک نوعیت کی منصوبہ سازی عنقا ہے۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور افریقا کے چند ممالک کے سوا دنیا بھر میں شرحِ پیدائش گرتی جارہی ہے۔ نئی نسل کا گراف گررہا ہے یعنی معاشروں کو جواں سال افرادی قوت کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ چند معاشروں یا خطوں میں تو یہ معاملہ انتہائی نوعیت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ جاپان جیسے معاشرے زیادہ بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں کیونکہ معمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور نئی نسل شادی کرکے فیملی شروع کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتی دکھائی نہیں دیتی۔ لڑکے اور لڑکیاں دیر سے شادی کررہے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ چھوٹی عمر میں شادی کرنے سے اُن کے کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جائے گا اور وہ زندگی سے زیادہ لطف اندوز نہیں ہوپائیں گے۔ یہ سوچ دن بہ دن گہری ہوتی جارہی ہے۔
ٹیلنٹ کا حصول
دنیا بھر میں باصلاحیت افراد کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے جس کے نتیجے میں اُن کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک دنیا کے انتہائی باصلاحیت افراد کی خدمات حاصل کرکے اپنی اپنی معیشتوں کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔ پس ماندہ اور ترقی پزیر ممالک کے انتہائی باصلاحیت نوجوانوں کو ترقی یافتہ معیشتیں اپنے اندر جذب کررہی ہیں۔
کام کرنے والوں کی کمی
دنیا بھر میں اس وقت کام کرنے والی نسل (15 سے 64 سال کی عمر والے لوگ) کم و بیش 5 ارب ہے۔ 1970ء میں یہ تعداد 2 ارب تھی۔ 2000ء کی دہائی کے اوائل میں یہ تعداد 4 ارب تک پہنچی اور اب 2040ء کی دہائی تک یہ تعداد 6 ارب ہونے والی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ 2070ء تک دنیا بھر میں کام کرنے کی عمر والے افراد کی تعداد 6 ارب 30 کروڑ ہوچکی ہوگی۔ اِس کے بعد گراف نیچے آئے گا کیونکہ آبادی کے گھٹنے کی رفتار دنیا بھر میں غیر معمولی ہے۔
چین کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ حکومت کے وسائل پر معمر افراد کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ 2023ء میں چین میں 60 سال یا اِس سے زیادہ عمر والے افراد کی تعداد 20 فیصد تک تھی۔ 2100ء تک چین میں 52 فیصد افراد 60 سال یا اِس سے زائد عمر کے ہوں گے۔
سوال صرف جاپان اور چین کا نہیں۔ آسٹریلیا میں بھی معمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ 2100ء تک آسٹریلیا میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والے اور پہنچے ہوئے افراد کی تعداد آبادی میں 28 فیصد ہوچکی ہوگی۔
یورپ میں بھی کام کرنے کی عمر والے افراد کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ یورپی حکومتیں ترقی پزیر اور پس ماندہ ممالک سے باصلاحیت نوجوانوں کو بلانے پر مجبور ہیں۔
انسان بمقابلہ مشین
نوجوانوں کی کمی اور معمر افراد کی تعداد میں اضافے سے نپٹنے کے لیے ٹیکناجی اور خود کاریت کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ جنوبی کوریا میں ہر 10 ہزار ملازمین پر ایک ہزار، سنگاپور میں ہر 10 ہزار افراد پر 730 روبوٹ، اور جرمنی میں ہر 10 ہزار افراد پر 400 کمپیوٹر کام کررہے ہیں۔
جنریشن گیپ کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو ایک بڑے معاشی اور معاشرتی بحران سے بچایا جاسکے۔