آخر شب کے ہم سفر

44

یاسمین پر پھر بیزاری کا دورہ پڑا۔ اس نے سوئی اٹھائی۔ ریکارڈ پلٹا۔ کماری دیپالی سرکار کا دوسرا بھجن۔ سوئی پھر وسط پر پڑی۔ جو پہرا دے سو ہی پنہوں… جو کھلا دے سو ہی کھائوں… جہاں بٹھا دے تاہیں بیٹھوں… میرا کے پر بھو…

واہ ری عورت کی اوقات۔ یاسمین نے دل میں کہا۔
نیگرو بٹلر کمرے میں آکر بولا… ’’مِس! لنچ اِز سروڈ‘‘۔
گراموفون بند کرکے وہ ایوانِ طعام کی طرف بڑھی۔ سامنے آتش دانِ پر روزی کی دستخط شدہ تصویر پر نظر پڑی۔ رادھیکا سا نیال۔ نئی دہلی۔16 مارچ1949ء۔

ایستھر گری بالا بنرجی
ڈھاکہ۔ مشرقی پاکستان۔ دسمبر94ء

مشن کمپائونڈ کے ایک کوارٹر کے سیٹنگ روم میں کروشیا کے میزپوش سے ڈھکی بڑی میز پر تین تصویریں رکھی ہیں۔ کمل، نیرا، ایلا… روزی کے بچے۔ پادری بنرجی آرام کرسی پر آنکھیں بند کیے لیٹے ہیں۔ ڈاکیہ سامنے سے گزر جاتا ہے۔ وہ اس کے قدموں کی آہٹ پہچانتے ہیں۔

’’روزی کا خط آیا؟‘‘
’’نہیں‘‘۔ ایستھر گری بالا اسٹوو پر بھات اُبالتے ہوئے جواب دیتی ہیں۔
’’اتنے برسوں سے وہ آئی بھی نہیں۔ کب آئے گی؟ ہر سال انتظار کرتا ہوں کہ شاید اس کرسمس پر آجائے‘‘۔
’’پال! اس کے لیے یہاں آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ویزا بڑی مشکل سے ملتا ہے‘‘۔
’’جب پارٹیشن نہیں ہوا تھا تب کون سا آتی تھی! اسے اب بھی ہم سے شرم آتی ہے۔ وہ ہم سے ہمیشہ سے چڑتی تھی۔ وہ بڑے آدمی کی بیوی ہے۔ ہم دیسی کرسچین غریب لوگ ہیں۔ مگر ہمارے بعد اسے شاید ہماری قدر آئے۔ ہم اس کے ماں باپ تھے‘‘۔

چرچ سے ریٹائر ہونے کے بعد ان کو دو کمروں کا کوارٹر مل گیا ہے۔ عسرت سے گزر ہوتی ہے۔ گری بالا اچار چٹنی بناکر بیچتی ہیں۔ دونوں کا باری باری موتیا بند کا آپریشن ہوچکا ہے۔ پادری صاحب کا آپریشن ٹھیک سے نہیں ہوا۔ ان کی بصارت زائل ہوچکی ہے۔ شام کو گری بالا پادری صاحب کا ہاتھ تھام کر ان کو ٹہلانے لے جاتی ہیں۔ سفید داڑھی، نابینا، پُرنور چہرے والے پادری بنرجی سڑک پر آہستہ آہستہ چلتے یسوع کے ایک حواری معلوم ہوتے ہیں۔ آلے لُویاہ۔ آلے لُویاہ۔

کل رات پادری بنرجی اپنے منجی سے جاملے۔ آخری وقت میں وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو نہ دیکھ سکے۔ گری بالا نے روزی کو موت کی اطلاع کا تار بھیجا۔ اس کا خط آیا ’’ماما تم فوراً میرے پاس چلی آئو‘‘۔

لیکن برہمن نژاد گری بالا بنرجی اپنے داماد کے ٹکڑوں پر پلنے نئی دہلی نہیں جائیں گی اور نہ اپنے امیر زادے نواسوں کی آیا گیری کریں گی۔ مشن والے ان کی مدد کررہے ہیں۔ مشن اسکول میں ہاسٹل وارڈن کا کام دلوا دیا ہے۔ مگر پرنسپل سے اُن کی نہیں بنتی۔

ایک روز وہ رکشا پر بیٹھ کر ارجمند منزل پہنچتی ہیں۔ 1905ء میں ایک بال ودھوا برہمن ہندو پندرہ سالہ بچی سسرال والوں کے مظالم سے بچنے کے لیے کشتی پر بیٹھ کر فرید پور کے گائوں سے بھاگ کر اپنے زمیندار آقا کے ہاں پناہ لینے ارجمند منزل ڈھاکہ آئی تھی۔ ایک بوڑھی عیسائی غریب بیوہ نے ارجمند منزل پہنچ کر نواب قمرالزماں کے دفتر کے دروازے پر دستک دی۔

پینتالیس سال قبل، نو عمر نواب قمر الزماں اپنی بنتِ عم ملیحہ بی بی پر دم دے رہے تھے۔ مگر اپنی رعیت کی اس دلکش ہندو بال ودھوا کے تیر نظر کے بھی گھائل ہوگئے تھے۔ بوڑھے نواب قمرالزماں نے خود اُٹھ کر دروازہ کھولا۔ ایک پوپلے منہ والی پریشان حال ضعیفہ ان کے سامنے کھڑی تھی۔

اسکول پرنسپل کے خلاف اس کی شکایت سن کر نواب نے کہا: ’’ایستھر! ارجمند منزل تمہارا گھر ہے۔ یہیں رہو۔ تم کو اس عمر میں ہم محنت مزدوری نہیں کرنے دیں گے‘‘۔

’’نواب صاحب! پال بڑے خود دار آدمی تھے۔ میں کسی بھی جگہ مفت خوری کرکے اُن کی روح کو تکلیف نہیں پہنچائوں گی۔ میری صحت بہت اچھی ہے۔ مجھے کہیں کام دلوا دیجیے‘‘۔

گری بالا دیبی کے اصرار پر نواب صاحب ان کو یونی ورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں کچن سپروائرز کی ملازمت دلوا دیتے ہیں۔ دو سال بعد وہ بعارضۂ نمونیا مرجاتی ہیں۔ چرچ یارڈ میں پال کے پہلو میں دفن کی گئیں۔ کسی کو علم نہیں کہ نئی دہلی کی مشہور دولت مند سوشل ورکر رادھیکا سانیال ان کی بیٹی ہے۔

نئی دہلی میں جس وقت روزی کو مسز بنرجی کی وفات کا تار ملا، جو نواب قمر الزماں نے بھجوایا تھا، وہ اپنی عالیشان نئی کوٹھی میں ڈنر کے انتظام میں مصروف تھی۔

مہمان آچکے تھے۔ تار بسنت کمار سانیال نے لیا۔ وہ روزی کے پاس گیا جو چند غیر ملکی مہمانوں کا سواگت کررہی تھی۔ ایک امریکن اسکالر 24ء کی تحریک کے بارے میں ایک امریکن فائونڈیشن کی طرف سے کتاب لکھ رہا تھا۔ اس سلسلے میں روزی سے ملنے آیا تھا۔ اس نے بسنت کمار سانیال سے کہا ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی بیوی 24ء کی موومنٹ کی ایک ہیروئن تھیں‘‘! بسنت کمار سانیال دھیرے سے مسکرایا۔

پھر اس نے روزی کے ہاتھ میں وہ تار دیا جو ڈھاکہ سے آیا تھا، اور آہستہ سے کہا ’’روزی! تم ہیروئن نہیں تھیں۔ تمہاری ماں ہیروئن تھیں‘‘۔

جہاں آراء دیناج پور سے میکے آئی ہوئی تھی۔ اُس وقت وہ سب ارجمند منزل کے پچھلے دالان میں جمع تھے۔ اس کا بچہ اکمل، والدہ، بھاوج، دونوں چھوٹی بہنیں۔ نیرالزماں نے اندر آکر کہا:

’’ذرا اپنی چہیتی یاسمین مجید کی حرکتیں دیکھو۔ یہ دیکھو لندن کے ایک اخبار میں اس کی تصویر۔ کسی انگریز سے شادی کرلی‘‘۔

جہاں آراء نے عینک لگا کر اخبار دیکھا۔ ’’بلیک بیوٹی دیڈز۔ ڈارک ڈانسر یاسمین مجید وِد ہَروائٹ پرنس چارمنگ‘‘۔ ’’ننگے پائوں والی کالی رقاصہ کی شادی‘‘۔

’’معقول۔ اور یاسمین کیا ریس کا گھوڑا ہے۔ بلیک بیوٹی۔ ڈارک ڈانسر۔ حد ہوگئی‘‘۔ نیرالزماں نے سر ہلا کر کہا ’’جل پائے گوری کے مولویوں کا خاندان، اور یہ انجام، ننگے پائوں والی رقاصہ…‘‘

’’اور وہ نگوڑا انگریز کیا کرتا ہے؟‘‘ بیگم قمرالزماں نے پوچھا۔
’’ہوگا کوئی بھڑبھونجا‘‘۔ نیرالزماں نے کہا۔

’’فیشن ڈیزائنر ہے‘‘۔ جہاں آراء نے اخبار پڑھ کر کہا۔ ’’مگر جب دیپالی کا ٹرینیڈاڈ سے خط آیا تھا اس نے لکھا تھا کہ یاسمین ڈانس کرنے پورٹ آفس اسپین گئی تھی۔ اس خط میں تو کسی انگریز ونگریز کا ذکر نہیں تھا۔ جیرلڈ ایڈرین بلمونٹ بہت خوب!‘‘
یاسمین بلمونٹ ’’ڈارک ڈانسر‘‘
دیپالی دیدی، آپ کا خط ملا۔ اب آپ کو ساری بات بتاتی ہوں۔ بہت عرصے بعد آپ کو خط لکھ رہی ہوں۔ جیرلڈ سے میں نے کہا تھا کہ شادی اسلامی طریقے سے ہو۔ وہ مان گیا۔ نکاح کے لیے ہم نے ایک دوست کو بلایا جو پہلے باقاعدہ مولوی رہ چکے تھے۔ اب بے چین تھے۔ ہم سب پب سے نکل کر رات کے بارہ بجے ان کے گھر پہنچے۔ وہاں مزید مے نوشی ہوئی۔ پھر مولوی صاحب نے نکاح پڑھا۔ دولہا، دلہن، مولوی، گواہ سب نشے میں آئوٹ تھے۔

شادی کے بعد ہم دونوں نے چیلسی میں ایک میوز کرائے پر لے لی۔ جیرلڈ کی آمدنی بہت اچھی تھی، میں نے رقص ترک کردیا۔ سگھڑ ہائوس وائف بنی۔ بچی پیدا ہوئی۔ اس کا نام شہرزاد رکھا۔ جب وہ ذرا بڑی ہوئی میں نے پھر اپنا ڈانس ٹروپ تیار کیا۔

ایک روز اچانک اور بالکل غیر متوقع جیرلڈ میرے ٹروپ کے ایک بنگالی رقاص کے ساتھ بھاگ گیا۔ معلوم ہوا دونوں پیرس میں ہیں۔ میں پتا چلا کر پیرس پہنچی۔ ان کو ڈھونڈ نکالا۔ صبح کو میں ان کے فلیٹ پر پہنچی، بنگالی چھوکرا ایپرن باندھے گھریلو عورتوں کے سے انداز میں اسٹوو کے سامنے کھڑا ناشتا تیار کررہا تھا۔ جیرلڈ ڈریسنگ گائون پہنے بیٹھا اخبار پڑھنے میں مصروف تھا۔ گرہستی کا یہ نظارہ دیکھ کر مجھے ابکائی سی آئی اور میں بغیر کچھ کہے سنے اُلٹے پائوں لندن واپس آگئی۔ پھر میں نے جیرلڈ کو لکھا کہ طلاق دے دے اور مہر ادا کرے۔ اس کا جواب آیا کہ شادی ہی کب ہوئی تھی؟ مولوی اور گواہ سب نشے میں دھت تھے۔ وہ نکاح نہیں تھا مذاق تھا۔ علاوہ ازیں ہم نے بہ لحاظ برطانوی قانون سول میرج نہیں کی۔ لہٰذا بچی کی پرورش کی ذمہ داری بھی مجھ پر عائد نہیں ہوتی۔ مجھے صنفِ نازک میں کبھی دلچسپی نہیں تھی۔ تم لندن میں اپنا ڈانس اسکول اور یوگا کلاسیں چلانے کی ناکام کوشش کررہی تھیں، اور ڈائون اینڈ آئوٹ تھیں، اور وطن واپس جانے کے لیے کرایہ تک پاس نہ تھا۔ میں تمہارے ساتھ رہ کر تمہاری کفالت کرنے لگا تھا، محض ازراہِ ہمدردی۔ لیکن میں اُمید کرتا ہوں ہم اچھے دوست رہیں گے۔

جیرلڈ کی والدہ جو ایک متمول اور نہایت کنجوس ریٹائرڈ اسٹیج ایکٹرس ہیں وہ شہرزاد کو اپنے ساتھ اپنے گائوں لے گئی ہیں، اور اس شرط پر اُس کی ذمہ داری لینے کو تیار ہیں کہ وہ اسے رومن کیتھولک بنائیں گی۔ میں نے کہا رومن کیتھولک کیا ہوٹن ٹوٹ، شنتو، بدھسٹ کچھ بھی بنادیجیے، اسے میری طرح دھکے تو نہ کھانے پڑیں۔ میں اب ایک دفتر میں کلرکی کررہی ہوں۔ ڈانس ٹروپ چلانا بہت مشکل تھا۔ انڈیا سے آنے والے نامور ڈانسرز کا کمپی ٹیشن بہت سخت ہے۔ پچھلے مہینے امید کی کرن نظر آئی۔ معلوم ہوا کہ ریحان الدین احمد آئے ہوئے ہیں۔ پچھلی مرتبہ پورٹ آف اسپین میں آپ کو میں نے بتایا تھا کہ کس طرح یہ حضرت ایک زمانے میں میرا تعاقب کرتے رہے تھے۔ اب وہ منسٹر تھے اور یہاں ایک وفد کے ساتھ آئے تھے اور ڈور رچسٹر میں ٹھیرے تھے۔ میں نے فون کیا۔ ملنے کی کوشش کی۔ انہوں نے صاف ٹال دیا کہ بہت مصروف ہیں۔ پھر میں نے سنا، انہوں نے کہا ’’پرانے شناسا اب سب قریبی دوست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، مجھے تنگ کرتے ہیں یہ کام کروا دو، وہ کام کروادو، میں کس کس سے ملتا پھروں!‘‘ جس ہم وطن سے انہوں نے یہ کہا، اتفاق سے وہ مجھے بھی جانتا تھا۔ اس نے آکر مجھے بتایا۔

جہاں آراء آپا سے آپ کی خط و کتابت ہے؟ میں نے ان کو کئی خط لکھے۔ جواب نہیں آیا۔ غالباً ارجمند منزل والے بھی میرے طرز زندگی سے سخت متنقر اور بیزار ہیں۔ مگر میں کیا کرسکتی ہوں۔ زمین اور آسمان میرے سامنے سے بھاگ گئے۔ مجھے کہیں پناہ نہ ملی۔
آپ کی یاسمین بلمونٹ
(جاری ہے)

حصہ