برصغیر کے بنگالی ادیب،رابندر ناتھ ٹیگور

61

رابندر ناتھ ٹیگور برصغیر کی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ادب، فلسفہ، موسیقی، اور فنونِ لطیفہ کے میدان میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ کلکتہ کے ایک زمیندار گھرانے میں 1861ء میں پیدا ہونے والے ٹیگور کی زندگی کا ہر پہلو تخلیقیت اور جدت کا آئینہ دار تھا۔ وہ نہ صرف ایک بڑے شاعر اور مصنف تھے بلکہ فلسفی، مصور، اور موسیقار کے طور پر بھی منفرد مقام رکھتے تھے۔ ان کا سارا گھرانہ تعلیم یافتہ تھا۔ ان کے ایک بھائی احمد آباد کے جج بھی تھے۔ ٹیگور نے اپنی شاعری، نثر اور فلسفے کے ذریعے انسانی جذبات و اقدار اجاگر کیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’گیتا نجلی‘‘ ان کی عالمی شہرت کا باعث بنا، جس پر انہیں 1913ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ وہ نوبیل انعام جیتنے والے پہلے غیر یورپی تھے۔

ان کا ناول ’’گورا‘‘ جو کہ بنیادی طور پر مذہب بیزاری کے گرد گھومتا ہے، بنگالی ادب کا شاہکار کہلاتا ہے، جس میں سماجی مسائل اور انسانی تعلقات کو بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے مختصر کہانیاں، ڈرامے، اور نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری اور نثر دونوں میں فلسفیانہ پہلو نمایاں ہیں، جو ان کی وسعتِ فکر کو ظاہر کرتے ہیں۔

ٹیگور نے اپنی تخلیقات کے ذریعے بنگالی ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کی کہانیوں پر بے شمار فلمیں اور ڈرامے بنائے گئے۔ ان کی زندگی پر بننے والی فلمیں، جیسے 1938ء میں بنگالی فلم ’’گورا‘‘ اور نیٹ فلکس کی 2020ء کی ویب سیریز ہیں۔

رابندر ناتھ ٹیگور کا فکری سفر صرف ادب تک محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے تعلیم کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 1901ء میں ’’شانتی نکتین‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا، جسے بعد میں وش بھارتی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ اس ادارے کا مقصد مشرقی اور مغربی علوم کا امتزاج پیش کرنا تھا تاکہ طلبہ میں تخلیقی اور فکری صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکے۔

ٹیگور کی تخلیقی صلاحیتوں کا دائرہ بصری فنون تک پھیلا ہوا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں انہوں نے مصوری میں دلچسپی لینا شروع کی اور قابلِ قدر 2500 پینٹنگز و ڈرائنگ تخلیق کیں۔ وہ اسٹیج کے اداکار بھی تھے۔

ان کی شخصیت پر تنقید اور تنازعات بھی ہوئے، خاص طور پر ان کے سیاسی خیالات کی وجہ سے۔ وہ ہندوستان کی آزادی کے حامی تھے لیکن مذہب کے نام پر تقسیم کے خلاف تھے۔ ان کے نزدیک انسانیت اور محبت سب سے بلند اقدار تھیں، جو کسی بھی سیاسی یا مذہبی تقسیم سے بالاتر ہیں۔ ان کے یہ خیالات بعض حلقوں میں تنقید کا نشانہ بنے، لیکن وہ اپنی سوچ پر قائم رہے۔

ٹیگور کے گیت دو مختلف ممالک کے قومی ترانے بنے: بھارت کا ’’جن،گن من‘‘ اور بنگلہ دیش کا ’’امر شونار بنگلہ‘‘۔ بھٹا چاریہ نے اپنی کتاب ’’رابندرا ناتھ ٹیگور: این اِنٹرپرٹیشن‘‘ میں ان کی زندگی کے ایک اہم پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ بھٹا چاریہ کے مطابق: ٹیگور کا بچپن قیدِ تنہائی میں گزرا، اور وہ ہمیشہ اس قید سے نکلنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایک خط میں ٹیگور نے اپنے ایک قریبی دوست کو لکھا: ’’میرا بچپن تنہائی کے گہرے سائے میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں بالکل اکیلا تھا۔ والد کی موجودگی شاذ و نادر ہی نصیب ہوئی، کیونکہ وہ اکثر سفر پر رہتے۔ والدہ کے انتقال کے بعد میں زیادہ تر گھر کے ملازمین کے سائے تلے پرورش پاتا رہا۔‘‘

بھٹا چاریہ نے ٹیگور کے ایک اور خط کا حوالہ دیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا: ’’بعض اوقات کئی مہینے گزر جاتے تھے، اور میں کسی سے بات تک نہیں کرتا تھا۔ اس حد تک کہ خاموشی کی وجہ سے میری آواز نحیف اور کمزور پڑ جاتی تھی۔‘‘

سوانح نگار کے مطابق: ٹیگور کی افسردگی اور گہری تنہائی کی بنیادی وجہ ان کے اپنے لوگوں، خاص طور پر بنگالیوں کے مایوس کن رویّے تھے، جنہوں نے شاعر کے حساس دل پر گہرے اثرات چھوڑے۔

شاعری کے میدان میں ان کی مشہور تصانیف میں بھانو سمہہ ٹھاکرر پدولی، مانسی، سونار تاری، گیتانجلی، گیت مالا اور بلاکا شامل ہیں، جو ان کی جذباتی گہرائی اور فلسفیانہ فکر کا مظہر ہیں۔

ٹیگور کے لکھے ڈراموں میں ’’والمیکی پرتیبھا‘‘، ’’وِسرجن‘‘، ’’راجا‘‘، ’’ڈاک گھر‘‘، ’’اچلیاتان‘‘، ’’مُکتادھارا‘‘ اور ’’رکتاکاروی‘‘ جیسے شاہکار شامل ہیں۔

ان کے مشہور ناولوں میں ’’گورا‘‘ کے علاوہ’’نسترنِرھ‘‘، ’’گھرویار‘‘ اور ’’یوگا یوگ‘‘ شامل ہیں، جو زیادہ تر سماجی مسائل اور انسانی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

ٹیگور کی یادداشتوں کا ذکر ہوتو ان کی خودنوشت ’’جیون سمرتی‘‘ اور بچپن کی یادوں پر مبنی ’’چھلبیلا‘‘ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ رابندر ناتھ ٹیگورکا شمار اُن شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے فنون، ادب، اور فکر کے میدان میں لازوال خدمات انجام دیں۔ ان کی شخصیت متنازع رہی لیکن وہ ادب کی دنیا میں اہم تھے اور ہیں، ان کی تخلیقات میں فکری وسعت اور مادری زبان سے محبت نمایاں ہے۔

ٹیگور اورعلامہ اقبال الگ الگ مذہب سے تعلق رکھنے والے ہم عصر تھے اور دونوں نے فکری و نظریاتی اختلاف کے باوجود اپنی تخلیقات کے ذریعے برصغیر کے عوام کو فکری روشنی دی۔ لیکن جہاں اقبال کے کلام کی بنیاد اسلامی فکر اور فلسفہ تھا، وہیں ٹیگور نے بنگالی ثقافت، اور انسانی محبت کو اپنی شاعری کا مرکز بنایا، لیکن دونوں حکمرانوں کے جبر کے خلاف ہم آواز تھے۔ ٹیگور کا اقبال سے یہ شکوہ رہا کہ اقبال نے اپنی مادری زبان پنجابی کے بجائے اردو اور فارسی کو ترجیح دی، حالانکہ اقبال کے پیغام کی وسعت نے عالمی سطح پر گہرے نقوش چھوڑے۔ اقبال کے کلام کی گہرائی کے مقابلے میں ٹیگور کا دائرہ کچھ محدود محسوس ہوتا ہے۔ ڈاکٹرعارف بٹالوی نے اپنی کتاب ’’ٹیگور اور اقبال‘‘ میں جو 1951ء میں شائع ہوئی تھی، لکھا ہے کہ ’’ٹیگور ہر چیز کو سطحی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مادیت کے گرد گھومتا ہے، جب کہ اقبال گہرائی میں ڈوب کر چیزوں کا مطالعہ کرتا ہے، ٹیگور عمر بھر کے ملاحظے اور مشاہدات کے بعد بھی خدا کے ظہور کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکا‘‘، وہ اس کتاب کے اختتامی جملوں میں لکھتے ہیں کہ ’’جو شخص کشمکشِ حیات سے گھبرا کر موت کی خاموشیوں کو آواز دے اور زندگی میں پروردگارِ عالم کا راز نہ پاسکے اور عمر بھر اندھیرے میں بھٹکتا رہے، اسے مدبر صاحبِ دل، صاحبِ نظر اور اہلِ علم و دانش کہہ سکیں گے؟ اگر نہیں تو ٹیگور کی کتاب ’’گیتا نجلی‘‘کو سامنے رکھ کر ٹیگور کے متعلق خود ہی فیصلہ فرما لیجیے۔

1934ء کے بعد رابندر ناتھ ٹیگور کی صحت مسلسل بگڑنے لگی، اور بالآخر 7 اگست 1941ء کو 80 سال کی عمر میں برصغیر کا یہ بڑا تخلیق کار کلکتہ کی سرزمین پر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔

حصہ