سترہ سال پہلے۔۔۔

89

کراچی میں رہنے والے ہر شخص کے پاس 27 دسمبر 2007ء کے حوالے سے کوئی نہ کوئی یاد ضرور ہوگی۔ آج میں آپ سے اپنی یادیں شیئر کررہی ہوں ۔

اُن دنوں میں سخی حسن قبرستان کے قریب شادمان کے علاقے میں رہ رہی تھی اپنے شوہر، تین بچوں اور دیور، دیورانی اور ان کے دو سالہ بچے کے ساتھ۔

میری دیورانی اپنے بچے کے ساتھ اپنے میکے میں تھی، وہاں اس کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی۔ چار بجے کے قریب میرے شوہر کا فون آیا کہ ’’فوراً ٹی وی آن کرو، بے نظیر کا مرڈر ہوگیا ہے۔‘‘

میں ایک دم حواس باختہ سی ہوگئی۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کی وجہ سے مجھے بے نظیر بھٹو سے ایک خاص دلی محبت تھی۔ اُن کی اچانک موت نے مجھے شاک پہنچایا تھا۔ ابھی میں ٹی وی دیکھ ہی رہی تھی کہ اچانک کسی گڑبڑ کا احساس ہوا۔

میں جس گھر میں رہتی تھی وہ کارنر کا، تین سو گز کے رقبے پر محیط گھر تھا، دو طرف سے انٹرنس تھی اور بیرونی دیواریں خاصی نیچی تھیں۔ دو طرف گارڈن کا ایریا تھا اور کار پورچ بھی خاصا بڑا تھا۔

میرے ٹی وی دیکھتے دیکھتے باہر شور برپا ہونا شروع ہوگیا۔ بھاگ دوڑ اور افراتفری سی مچ گئی۔ میں نے بیرونی دروازے سے باہر جھانکا تو لوگ بری طرح اِدھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔ گھر کے سامنے سبزی والا اپنا ٹھیلا لگاتا تھا، وہ بھی جلدی جلدی سمیٹنے لگا، مجھے دیکھا تو بولا ’’باجی گھر کو اندر سے لاک کرلو، قریب ہی بھٹو کالونی ہے، وہاں ہنگامے شروع ہوگئے ہیں۔ اللہ خیر کرے، حالات ٹھیک نہیں لگتے۔‘‘

اس کی سراسیمگی نے مجھے اندر سے خوف زدہ کردیا تھا۔ میں دروازہ بند کرکے گھر کے اندر آگئی۔ میرے بچے اس وقت تین، سات اور نو سال کے تھے اور باہر آنے والی بلائے ناگہانی سے لاعلم تھے، میں نے بھی ان پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا۔ دوسرے کمرے میں جاکر اپنے شوہر کو فون کیا اور انہیں حالات سے آگاہ کیا۔ وہ کہنے لگے کہ وہ اور ان کا بھائی نکلنے لگے ہیں اور میری دیورانی کو ساتھ لے کر آئیں گے۔ مگر جیسے ہی وہ دیور کے سسرال پہنچے وہاں کے حالات بگڑ گئے اور انہیں گھر میں ہی محصور ہونا پڑا۔

باہر لوگ گاڑیاں جلا رہے تھے، پتھرائو ہورہا تھا۔ یہاں میں بچوں کے ساتھ اکیلی تھی، اس پر لائٹ چلی گئی، اندھیرا بڑھنے لگا۔ کچھ دیر تو بچے کھیل میں لگے رہے لیکن آہستہ آہستہ ان کی سمجھ میں بھی آنے لگا کہ باہر کچھ گڑبڑ ہے اور اندر ماں پریشان ہے۔ اتفاق سے شوہر کے بھتیجے کا لاہور سے فون آیا تو وہ کہنے لگا ’’چاچی آپ ہر طرف سے گھر لاک کریں، آپ کا گھر اِن سکیور ہے۔‘‘

میں نے سارے کھڑکی دروازے اندر سے بند کرلیے۔ اب باہر بالکل سناٹا چھا گیا تھا۔ ہر وقت دل کو دھڑکا لگا تھا کہ کہیں کوئی دیوار پھلانگ کر گھر میں نہ گھس آئے۔ موبائل سروس بند ہوگئی، باہر کی دنیا سے رابطہ کٹ گیا۔ دسمبر کی سرد رات، اندھیرا، سناٹا، خوف اور چھوٹے بچوں کا ساتھ۔

اچانک بھاگتے قدموں کی آواز اتنے قریب محسوس ہوئی جیسے گھر کے اندر دوڑ رہے ہوں، ساتھ ہی شدید فائرنگ بھی شروع ہوگئی۔ سات سالہ بیٹی کے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں تو اس کا منہ ہاتھ سے دبا دیا۔ اسی وقت کوئی انسانی وجود مین گیٹ سے ٹکرایا تو بچے مجھ سے چمٹ گئے اور میری وہ حالت کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ دھیمی آواز میں آیت الکرسی پڑھ پڑھ کر بچوں پر پھونکتی جارہی تھی۔ چند لمحوں بعد پھر سناٹا چھا گیا۔ ایک خاموش قیامت نے مجھے اور میرے بچوں کو گھیرا ہوا تھا۔ عموماً میرے شوہر رات آٹھ بجے تک گھر آجاتے تھے، پر اس وقت دس بج گئے، وہ نہیں آئے۔ اپنے ساتھ ساتھ ان کی بھی فکر کہ ان خراب حالات میں نہ جانے کہاں ہوں گے؟ بہ مشکل بچوں کو کھانا کھلا کر دھیرے دھیرے کہانیاں سنا کر سلایا، مگر بڑا بیٹا ساتھ لگ کر جاگتا رہا۔ اس رات کا لمحہ لمحہ قیامت تھا۔ باہر وقفے وقفے سے فائرنگ ہورہی تھی، دل بیٹھا جارہا تھا، شوہر اور دیور کی فکر کھائے جارہی تھی۔ بارہ بج گئے تھے، پر اُن کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ گھر کے جامد سناٹے میں ہوا کی سرسراہٹیں جان نکالے دے رہی تھیں۔ بیٹا بار بار اپنے پاپا اور چاچا کا پوچھ رہا تھا، اسے بھی بہلائے جارہی تھی۔

اچانک رات دو بجے مین گیٹ پر زوردار ہارن کی آواز ابھری۔ بیٹا ڈر کر مجھ سے لپٹ گیا اور میں پوری جان سے کانپ اٹھی، ٹانگیں لرزنے لگیں۔ ایک منٹ بعد دروازے پر دستک شروع ہوئی اور ساتھ ہی آواز آئی ’’طہٰ طٰہ! دروازہ کھولو۔‘‘

یہ آواز میرے شوہر کی تھی، جسے سنتے ہی میری ٹانگوں میں 440 والٹ کا کرنٹ بھر گیا اور میں گیٹ کی طرف بھاگی۔ بیٹا بھی ساتھ ہی بھاگا۔ اپنے شوہر کو دیکھ کر ایک بار پھر جی اٹھنے کا احساس ہوا۔

غرض وہ رات خوف میں لپٹی ایک کہانی بن گئی تھی جسے ہم سترہ سال سے ہر 27 دسمبر کو ایک دوسرے کو سناتے ہیں، اور اس کے بعد میری جس کسی سے بھی اس رات کے متعلق بات ہوئی اُس کی کہانی اپنے سے بھی زیادہ خوف ناک لگی۔

نہ جانے اس رات کتنے لوگ اپنی جان سے گئے، کتنی عزتیں پامال ہوئیں، ہزاروں گاڑیاں جلیں، ہزاروں دکانیں لٹیں، لاکھوں لوگ برباد ہوئے۔ ایک عورت موت آنے سے مری اور ہزاروں لوگ بے موت مرے۔

نہ جانے کب تک میری قوم بربادیوں کی ایسی داستانیں رقم کرتی رہے گی۔ الٰہی! میری دعا ہے اب کبھی ایسی خوف ناک رات میری قوم کا مقدر نہ بنے،آمین۔

حصہ