حویلی میں آج بڑی چہل پہل تھی۔ مولا بخش جو اس گاؤں کا مالک تھا، اس نے صبح سویرے ہی سے تمام نوکر چاکروں کو الٹ پلٹ کر رکھا تھا، کیوں کہ آج فصل کی کٹائی ہونی تھی۔
مولا بخش اناج، گندم کو جمع کرکے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتا تھا۔ گاؤں کے تمام لوگ بڑی امید سے کام میں مصروف تھے کہ شاید چودھری مولا بخش ان کی روزی میں اضافہ کردے تو وہ سکون کے ساتھ اپنی گزر بسر کرسکیں۔
رحیموں بھی ان کسانوں میں شامل تھا۔ وہ بڑا محنتی انسان تھا۔ گاؤں کے لوگ فصل کی تیاری میں اس کا بھرپور ساتھ دیتے۔ رحیموں کی ایک بیٹی تھی، اس کے دل میں سوراخ تھا جس کی وجہ سے وہ آئے دن درد میں مبتلا رہتی تھی۔ رحیموں اور اس کی بیوی بیٹی کو حکیم صاحب کے پاس لے جاتے مگر اس کو زیادہ فائدہ نہیں ہوتا تھا۔ حکیم صاحب یہی مشورہ دیتے کہ شہر جاکر ڈاکٹر سے اس کا علاج کروائیں۔ رحیموں اس کش مکش میں تھا کہ کس طرح پیسوں کا انتظام کروں؟ اس لیے اُس نے فصل کی تیاری میں خوب محنت کی تاکہ کچھ پیسے جمع ہوجائیں تو شہر جاکر بیٹی کا علاج کروائے۔ اس کو اندازہ تھا کہ اِس سال فصل خوب اچھی تیار ہوئی ہے تو چودھری ہم کو کچھ اضافی منافع دے گا۔ مگر چودھری نے کسانوں کو کچھ نہ دیا اور تمام منافع اپنے لیے جمع کرلیا۔
کسانوں کی امید پر پانی پھر گیا، سب کا برا حال تھا کہ اتنی مہنگائی میں کیا کریں گے؟ جب کہ رحیموں کو اپنی بچی کے علاج کے لیے پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس نے چودھری سے کہا کہ بچی کے علاج کے لیے مدد کردیں، مگر چودھری اس وقت دولت کے نشے میں تھا، صاف انکار کردیا اور رحیموں کو حویلی سے باہر نکال دیا۔
رحیموں مایوسی کی حالت میں جب گھر لوٹا تو دیکھا اس کی بیٹی کی حالت انتہائی خراب ہوتی جارہی ہے۔ وہ حکیم کے پاس لے کر بھاگا، مگر ان کی دوائی سے درد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے لگا۔ رحیموں حویلی گیا کہ شاید چودھری کو رحم آجائے اور وہ مدد کردے، مگر اس نے رحیموں کو ذلیل کیا اور کہا کہ مرتی ہے تو مر جائے، غریبوں کے بچے مرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔
رحیموں آنکھوں میں آنسو لیے گھر کی طرف چل دیا۔ بیٹی کی تکلیف اس سے دیکھی نہیں جارہی تھی، پھر اس نے اِس امید پر اپنی بیٹی کو شہر لے جانے کا فیصلہ کیا کہ شاید وہاں کوئی اس کی مدد کردے، لیکن بچی نے راستے ہی میں دم توڑ دیا یہ کہتے ہوئے کہ ’’ابا! مجھے بچالو! ابا مجھے بچالو!‘‘
رحیموں اور اس کی بیوی آنکھوں میں آنسو لیے واپس گاؤں پہنچے۔ پورے گاؤں کو رحیموں کی بیٹی کی موت پر افسوس تھا، ہر کوئی اس کو دلاسہ دے رہا تھا، مگر رحیموں کو کسی پل چین نہیں آرہا تھا، بار بار بچی کی آواز اس کے کانوں میں گونجتی تو وہ گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوتا۔ پھر اس کے اندر اتنا حوصلہ پیدا ہوا کہ اس نے تمام گاؤں والوں کو جمع کرکے اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا کہ میں اپنی بچی کی طرح کسی اور کی بچی کو مرنے نہیں دوں گا۔ چودھری کو ہماری محنت کا پورا اجر دینا ہوگا تاکہ ہم اپنے بیوی بچوں کا علاج کرا سکیں۔
تمام کسانوں نے کھیت میں حل چلانے اور کام کرنے سے انکار کردیا۔ اس خبر نے چودھری کے غصے کو ہوا دی اور اس کے ملازم رحیموں کو پکڑ کر حویلی لے آئے اور اس پر ظلم کی انتہا کردی، مگر رحیموں نے سر نہیں جھکایا۔
جب سرما کی فصل کی بوائی کا وقت نکلنے لگا تو اردگرد کے کسان بھی ان کی دیکھا دیکھی بغاوت پر اتر آئے، سب نے چودھری کو سمجھایا کہ ان کے مطالبات مان لو ورنہ بہت نقصان ہوگا۔ پھر اس کو کسانوں کے مطالبات ماننے پڑے اور رحیموں کو چھوڑنا پڑا۔
رحیموں چودھری کی قید سے آزاد ہوکر اپنی بیٹی کی قبر پر پھول چڑھانے گیا تھا، کیوں کہ اس کی بیٹی تو مر چکی تھی مگر اس نے باقی کسانوں کے بچوں کی زند گیوں کو محفوظ کروا دیا تھا۔