فلسطین : کیا ہے صدی کی ڈیل

65

’’صدی کی ڈیل‘‘(Deal of the Century) ایک ایسی اصطلاح ہے جو 2019ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کے لیے استعمال ہوئی۔ یہ منصوبہ فلسطین اور اسرائیل کے دیرینہ تنازع کو حل کرنے کے لیے پیش کیا گیا، لیکن فلسطینی قیادت اور عوام نے اس منصوبے کو یکسر مسترد کردیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے غیر قانونی قبضے کو قانونی حیثیت دینے اور فلسطینی عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔ ترکیہ، ایران اور ملائشیا نے اس ڈیل کی شدید مذمت کی۔ پاکستان نے بھی اپنے تاریخی مؤقف کو دہراتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی۔ اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اس منصوبے کو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی قرار دیا۔ عرب تجزیہ نگار عبدالرحمن کی تحریر اسی پس منظر میں شائع کی جارہی ہے، اور دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ آج ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر ہیں۔ (ادارہ)

ایک عرب تجزیہ نگار عبدالرحمن یوسف نے صدی کی ڈیل (Deal of the Century) کا تعارف اس طرح کرایا:

’’اس ڈیل کا خلاصہ یہ ہے کہ ملّتِ عرب کی کایا پلٹ ہوجائے گی۔ لیکن جو ملت دسیوں سال سے اِس حال میں ہو کہ اُس پر فوجی انقلابات مسلط ہوتے چلے آرہے ہوں، اس کے لیے حالات کی یہ کایا پلٹ کوئی عجیب بات نہیں ہوگی۔ اس ڈیل کے بعد ہمیشہ سے قائم چلے آرہے سوالات کے جوابات تبدیل ہوجائیں گے مثلاً ’’دشمن کون ہے؟‘‘ اس کا جواب (اسرائیل کے بجائے) مزاحمت کرنے والے فلسطینی قرار پائیں گے۔ ’’حلیف کون ہیں؟‘‘ اس کا جواب ’’امن پسند‘‘، ’’جمہوریت کے علَم بردار‘‘، ’’صلح جو‘‘ اسرائیلی قرار پائیں گے، جو (فلسطینی مزاحمت کے مقابل) اپنا دفاع کرنے پر ’’مجبور‘‘ ہیں۔ ’’فلسطین کیا ہے؟‘‘ اس کا جواب ہوگا ’’غزہ‘‘۔ ساتھ میں سینا کا وہ تھوڑا بہت علاقہ جو اسے میسر آئے گا۔ ’’اسرائیل کیا ہے؟‘‘ اس کا جواب ہوگا ’’وہ علاقہ جسے اسرائیل اپنے لیے پسند کرلے‘‘۔ یعنی ان سوالات کے جوابات صہیونی خواہش کے مطابق بدل دیے جائیں گے۔‘‘

اس کے بعد تجزیہ نگار یوسف لکھتا ہے:

’’ہمارے (اہلِ فلسطین کے) حالات بد سے بدترین ہوجائیں گے اور یہ بدترین حالات ان ضمیر فروش عرب حکام کی وجہ سے پیدا ہوں گے جو دنیا کے نقشے پر اپنے وجود کو باقی رکھنے کی قیمت چکا رہے ہیں۔‘‘

’’صدی کی ڈیل‘‘ کے اس مختصر تمہیدی تعارف کے بعد ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس کا تعارف مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ ’’صدی کی ڈیل‘‘ دراصل فلسطینی قضیے کو حل کرنے کا ایک منصوبہ ہے، جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کی رو سے فلسطین کی نئے سرے سے حد بندی کرکے جدید فلسطین تشکیل دیا جائے گا، جو ’’فلسطین الجدیدۃ‘‘ کے نام سے ہوگا۔ اس کی جزئیات و تفصیلات کا اعلان اگرچہ اسرائیلی انتخابات کے بعد ہونا تھا، لیکن اب اس کا اعلان آئندہ جون بحرین کے دارالحکومت منامہ میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں کیا جائے گا۔ البتہ وقفے وقفے سے اس کی بعض شقیں اب بھی لیک ہوتی رہتی ہیں یا کی جاتی رہتی ہیں، جو میڈیا اور عوام کے درمیان بحث و تشویش کا موضوع بنی رہتی ہیں۔ فلسطینی صدر محمودعباس کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ دراصل ٹرمپ کے داماد جیرڈکشنر اور شرقِ اوسط کے ایلچی جیسن گرین بلاٹ کا تیار کیا ہوا ہے، بلکہ یہ منصوبہ اصلاً اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا تھا۔ نیتن یاہو نے یہ منصوبہ امریکا کو بیچ دیا ہے اور اب امریکا اسے فلسطینیوں اور عربوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

’’صدی کی ڈیل‘‘ کی مزید تفصیلات:
اس منصوبے پر گفتگو کا آغاز 2017ء میں ہو گیا تھا۔ ٹرمپ کے برسراقتدر آنے کے چند ماہ بعد ہی امریکی اخبارات نے یہ خبر دینی شروع کردی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاس ’’یوشع بن آریہ‘‘ کا ایک منصوبہ ہے۔ یوشع بن آریہ القدس (یروشلم) کی ہبیریو (عبرانی) یونیورسٹی کا سابق سربراہ ہے جسے اسرائیل ایوارڈ سے نواز چکا ہے۔ اس نے یہ منصوبہ 2003ء میں تیار کیا تھا کہ غزہ کی حدود بڑھاکر العریش تک کردی جائیں۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کا میجر جنرل جیورا آئی لینڈ (Giora Eiland) منصوبہ 2004ء بھی امریکہ کے پاس ہے، جس میں مصر سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ سینا کے 600 کلومیٹر اسکوائر کے علاقے میں فلسطینی آبادکاری سے دست بردار ہوجائے۔ اس کے عوض اسے 20 کلومیٹر اسکوائر کا علاقہ صحرائے نقب (Negev Desert) میں دیا جائے گا اور اقتصادی نوازشیں اس پر مستزاد ہوں گی۔ اس ڈیل کے سلسلے میں کچھ باتیں وہ ہیں جو بعض سرکاری اہل کاروں کی طرف سے سامنے آتی رہی ہیں یا آرہی ہیں۔ ان میں سے بعض چیزیں اگرچہ ایسی ہیںکہ جب تک اس ڈیل کا پورا نقشہ سامنے نہیں آجاتا حقیقت واضح ہونا مشکل ہے۔ کبھی کہا گیا کہ یہ ڈیل کسی فلسطینی حکومت کے قیام کا موقع ہی نہیں رہنے دے گی۔ کبھی کہا گیا کہ فلسطینی حکومت قائم کرنے کی اجازت ہوگی اور مصر اس کے لیے سینا میں اراضی فراہم کرے گا۔ تاہم اب تک سامنے والی باتوں کی روشنی میں چند باتیںجو صاف ہوکر نظر آنے لگی ہیں‘ وہ اس طرح ہیں:

-1 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے شہر القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا جائے گا۔ (یہ کام ہوچکا ہے۔ ادارہ)

-2 اسرائیل، تنظیم آزادی فلسطین اور حماس کے درمیان سہ فریقی معاہدے پر دستخط کرائے جائیں گے اور نئی فلسطینی حکومت قائم کی جائے گی جس کا نام ’’جدید فلسطین‘‘ ہوگا۔ یہ نئی حکومت مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل ہوگی جہاںکوئی یہودی کالونی نہیں ہوگی۔ قریہ ابودیس جس کو ایک دیوار کے ذریعے القدس سے جدا کردیا گیا ہے، فلسطین کا دارالحکومت ہوگا۔ شہر القدس کا مشرقی حصہ خالی کرکے اس کے بعض اجزا کو مغربی کنارے میں شامل کردیا جائے گا۔ بیت المقدس کی تقسیم عمل میں نہیں آئے گی، وہاں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کو آنے کی اجازت ہوگی، البتہ عرب آبادی کو جدید فلسطین میں منتقل کردیا جائے گا، وہ اسرائیل میں نہیں رہ پائیں گے۔ شہر القدس کے تمام امور کی ذمے داری یہودی القدس (یروشلم) میونسپلٹی کی ہوگی سوائے تعلیم کے۔ اس کا انتظام جدید فلسطین کے ہاتھ میں ہوگا اور جدید فلسطین ہی یہودی القدس میونسپلٹی کو جائداد اور پانی کا ٹیکس ادا کرے گا۔

-3 فلسطینی فریق کو ان متعدد اسرائیلی کالونیوں کو یہودیوں کے زیر انتظام رکھنے پر اتفاق کرنا ہوگا جن کے بارے میں اقوام متحدہ کا یہ مطالبہ ہے کہ وہاں تعمیر روک دی جائے۔

-4 مغربی کنارے کو تین علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ سیاسی اسٹرکچر غزہ میں ہوگا۔ ابودیس اور القدس کے درمیان ایک پل تعمیر کیا جائے گا جسے عبور کرکے مسلمان مسجد اقصیٰ میں نماز کے لیے آسکیں گے۔

-5 فلسطینی پناہ گزینوں سے وطن واپسی کا حق چھین لیا جائے گا، یعنی انہیں دوبارہ اپنے وطن میں واپس آنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ امریکا کی کوشش یہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو عرب ممالک بالخصوص اردن اور مصر میں بسایا جائے۔ اس کے عوض ان دونوں ممالک کو اقتصادی امداد فراہم کی جائے گی۔ چنانچہ ٹرمپ کے بعض اقدامات سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے، مثلاً امریکا نے فلسطینیوں کو مدد فراہم کرنے والی ایجنسی ’’اونروا‘‘ کو دی جانے والی امداد کی مقدار گھٹا کر نصف کردی ہے۔ اونروا UNRWA Relief (United Nations and Works Agecny for Plastine) اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے جو اردن، شام، لبنان، مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں آباد فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کرتا ہے۔

-6 جدید فلسطینی حکومت کی تشکیل اور اس کا انفرااسٹرکچر کھڑا کرنے کے لیے خلیجی ممالک تقریباً 10 ملین ڈالر پیش کریں گے۔ مصر، جدید فلسطین کو ایک ہوائی اڈہ بنانے، فیکٹریاں قائم کرنے اور تجارتی و زراعتی لین دین کے لیے قطعۂ اراضی فراہم کرے گا۔ اس اراضی میں فلسطینیوں کو رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ غزہ کے اندر ایک ہوائی اڈہ، بحری بندرگاہ قائم کی جائے گی، اس کے علاوہ فلسطینیوں کی آباد کاری، زراعت، انڈسٹری اور نئے شہر کی تعمیر بھی شامل ہے۔

-7 یہودیوں کو عربوں کے مکانات خریدنے کی اجازت تو نہیں ہوگی، لیکن عربوں کو بھی یہودیوں کے مکانات خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ شہر القدس میں دوسرے علاقے شامل نہیں کیے جائیں گے۔

-8’’جدید فلسطین‘‘ کو اپنی فوج، اپنے ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی، صرف اُن ہتھیاروں کو رکھنے کی اجازت ہوگی جو پولیس کے پاس ہوتے ہیں۔

-9 مصر ’’جدید فلسطین‘‘ کو جو اراضی فراہم کرے گا، اس میں فلسطینیوں کو آباد ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وہ صرف ہوائی اڈے، فیکٹریاں وغیرہ قائم کرنے کے لیے ہوگی۔

-10 اراضی کا حجم اور سائز اور اس کی قیمت وہی ہوگی جس پر فریقین اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ڈیل کی توثیق کرنے والے ممالک کی وساطت سے اتفاق ہوجائے گا۔ ڈیل کی توثیق کرنے والے ممالک سے مراد امریکا، یورپی اتحاد اور وہ خلیجی ممالک ہیں جو تیل پیدا کرتے ہیں۔

-11 اسرائیل اور جدید فلسطین کے درمیان اس معاہدے پر دستخط اس شرط پر ہوں گے کہ کسی بھی طرح کے خارجی حملوں سے جدید فلسطین کا دفاع اسرائیل کی ذمے داری ہوگی، بشرطیکہ جدید فلسطین اسرائیل کو اس دفاع کی قیمت ادا کرے۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان بھی اس بات پر معاملات طے پائیں گے کہ حمایت و دفاع کے بدلے میں عرب ممالک اسرائیل کو کیا قیمت ادا کریں گے۔

حصے داری کی تقسیم:
اس ڈیل کو نافذ کرنے میں امریکا کی حصے داری 20 فی صد ہوگی۔ یورپی اتحاد کی حصے داری 10 فی صد ہوگی اور تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک کی حصے داری 70 فی صد ہوگی۔ خلیجی ممالک کے درمیان 70 فی صد کا یہ تناسب ان کی تیل پیداوار کے تناسب سے ہوگا۔ نئے فلسطین کی تعمیر کی غرض سے اس ڈیل کو نافذ کرنے کے لیے آئندہ پانچ برسوں کے دوران 30 کروڑ ڈالر خرچ کیے جائیں گے، اس رقم کی فراہمی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ذمے داری ہوگی۔

ڈیل پر دستخط:
اس پر دستخط کیے جانے کے وقت ہی حماس سے اُس کا تمام اسلحہ لے لیا جائے گا۔ اس میں حماس کے رہنمائوں کا ذاتی اسلحہ بھی شامل ہوگا۔ یہ اسلحہ مصریوں کو دے دیا جائے گا۔ اس کے بدلے میں حماس کے لوگوں کو عرب حکومتوں کی جانب سے تنخواہیں دی جائیں گی۔ غزہ کی حدود کو عالمی تجارت کے لیے کھول دیا جائے گا۔ یہ تجارت اسرائیل اور مصر کے راستوں سے ہوگی۔ بحری راستوں سے بھی تجارت کے راستے کھول دیے جائیں گے۔ معاہدے پر ایک سال مکمل ہوجانے کے بعد جدید فلسطین میں جمہوری انتخابات کرائے جائیں گے جن میں ہر فلسطینی شہری کو حصہ لینے کا حق حاصل ہوگا۔ انتخابات پر ایک سال گزر جانے کے بعد بتدریج آئندہ تین برسوں کے دوران تمام قیدیوں کو رہا کردیا جائے گا۔ بحری بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی جدید فلسطین کے قیام سے پانچ برس کے دوران بنا لیے جائے گا۔ اس دوران جدید فلسطین اسرائیلی ہوائی اڈے اور بندرگاہ کا استعمال کرے گا۔ جدید فلسطین اور اسرائیل کے مابین ایک دوسرے کی سرحدیں عام آمدورفت کے لیے اس طرح کھلی رہیں گی جس طرح دوست ممالک کے لیے کھلی رہتی ہیں۔ ڈیل کی جو کچھ جزئیات سامنے آئی ہیں، ان سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ڈیل کا یہ منصوبہ گزشتہ طے پانے والے تمام امن منصوبوں کے برخلاف ہے۔ گزشتہ جتنے بھی امن منصوبے طے پائے تھے وہ اس بنیاد پر قائم تھے کہ فلسطینی حکومت قائم ہوگی جس کا دارالحکومت 1967ء کی حدود پر مبنی مشرقی القدس ہوگا۔ سامنے آنے والی شقوں سے یہ بھی بالکل واضح ہے کہ اس ڈیل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عرب اور اسرائیل کے مابین تعلقات نارمل ہوجائیں گے بلکہ یہ جزو اس ڈیل کا بنیادی رکن ہوگا۔ اس ڈیل کے تحت آخری سودے بازی اس بات پر ہوگی کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان امن کے مقصد سے مذاکرات ہوں اور ان مذاکرات کی سربراہی سعودی عرب کرے گا۔

نہ ماننے کا انجام:
اگر حماس اور تنظیم آزادیِ فلسطین اس ڈیل کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو امریکا فلسطینیوں کو دی جانے والی تمام امداد کو کالعدم کردے گا اور اس بات کی کوشش کرے گا کہ کوئی دوسرا ملک بھی فلسطینیوں کی مدد نہ کرسکے۔ اگر تنظیم آزادی فلسطین نے تو ڈیل سے اتفاق کرلیا لیکن حماس اور جہادِ اسلامی نے اتفاق نہ کیا تو اس کے انجام کی ذمے داری ان دونوں تنظیموں کے سر ہوگی اور اسرائیل و حماس کے مابین کسی بھی قسم کے فوجی تصادم میں امریکا اسرائیل کی مدد کرے گا اور حماس اور جہادِ اسلامی کی قیادت کو ذاتی طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ اس کی وجہ امریکا کے نزدیک یہ ہے کہ وہ یہ برداشت نہیں کرے گا کہ ’’چند سو لوگ‘‘ لاکھوں افراد کے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اگر اسرائیل ڈیل پر اتفاق سے انکار کرتا ہے تو اس کو ملنے والی اقتصادی مدد بھی روک دی جائے گی۔

ڈیل کے حامی و مخالف ممالک:
اس ڈیل کو متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی تائید حاصل ہے، بلکہ برطانوی ویب سائٹ ’مڈل ایسٹ آئی‘ کے مطابق ٹرمپ کے مشیر خاص اور اس ڈیل کے روحِ رواں جیرڈ کشنر نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کے بعد اس ڈیل کی جزئیات سے واقف بھی کرا دیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس کو اس ڈیل پر راضی کرنے کی ذمے داری بھی کشنر نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر ڈالی تھی۔ گزشتہ نومبر میں محمد بن سلمان نے اس سلسلے میں محمود عباس سے ملاقات کرکے اسے تسلیم کرلینے کی درخواست کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ محمد بن سلمان اس ڈیل کے نفاذ کے سلسلے میں اتنے پُرجوش اس لیے ہیںکہ یہ ڈیل اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کی پہلی اینٹ کا کام کرے گی۔ اسرائیل کی دوستی سعودی عرب کے لیے اس لیے ضروری ہے کہ وہ ایرانی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے اپنا ہم نوا بنا سکے، اسی لیے محمد بن سلمان اس ڈیل کو نافذ کرنے کے لیے بڑی سے بڑی رقم لگانے کو تیار ہیں۔ محمد بن سلمان کا کہنا ہے ’’جب تک فلسطینی مسئلہ حل نہیں ہوجاتا ہم اسرائیل کو اپنے ساتھ ملانے پر قادر نہیں ہوسکتے۔‘‘ دوسری طرف ابھی تک ایران اور اردن کے سوا کسی بھی ملک کی جانب سے اس طرح کا واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے، جس میں اس ڈیل سے عدم اتفاق یا اس کی مخالفت کا عندیہ دیا گیا ہو۔ ایران نے کہا ہے کہ وہ فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں ’’حزب اللہ‘‘ اور ’’حماس‘‘ کے ساتھ ہے۔ روس نے بھی اس سے عدمِ اتفاق کا اشارہ دیا ہے۔ دوسرا ملک اردن ہے جس نے علی الاعلان اس ڈیل کو مسترد کیا ہے۔ شاہِ اردن عبداللہ نے کہا ہے ’’مجھ پر دبائو ڈالا جارہا ہے، لیکن میرے لیے القدس ریڈلائن ہے۔ میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرے عوام بھی میرے ساتھ ہیں۔ جو لوگ ہم پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں، وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔‘‘ (بشکریہ: ماہنامہ ’’اللہ کی پکار‘‘ بھارت)

حصہ