مہک کا راز

31

’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دو گاڑیاں حالات کا جائزہ لینے کے لیے یہاں بھیجی گئی تھیں!‘‘ جمال نے فاطمہ اور کمال کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

’’دیکھو زمین پر بنے کئی افراد کے قدموں کے نشانات‘‘۔ کمال اور فاطمہ بیک وقت بولے۔ ’’صاف لگ رہا ہے کہ وہ پہلے اندرکی جانب دوڑے۔ پھر معاملہ اپنے اندازے کے برعکس دیکھ کر جیسے دوڑتے ہوئے باہر آئے ہوں۔‘‘

’’ہاں ایسا ہی لگتا ہے، کیونکہ واپسی کے نشانات بوٹوں کی ٹوہ کی جانب سے کچھ کھنچے کھنچے سے ہیں اور ایڑی کی جانب سے بہت ہی ہلکے ہیں‘‘۔ فاطمہ پھر بولی تو جمال اور کمال نے تائید میں سر ہلاکر جواب دیا۔

’’شاید اس کے بعد انھیں واپس آنے کی مہلت نہ مل سکی ہو۔ وہ کارروائی شروع ہوتے دیکھ کر کسی اور جانب دوڑ گئے ہوں، یا پھر دھر لیے گئے ہوں‘‘۔ اس مرتبہ چودھری صاحب نے بھی خاموشی توڑی۔

’’فی الحال اس سارے قصے کو چھوڑو، اور سفید رنگ کی اس ہیوی جیپ کی جانب چلو۔ اسی کے نمبر ہمیں میسج میں بتائے گئے تھے۔ اس میں سوار ہوکر اپنی اپنی رہائش گاہ کی جانب چلو‘‘، جمال نے کہا۔

’’لگتا ہے ہمیں اس جیپ کے بارے میں اس لیے بتایا ہو کیونکہ آپریشن انچارج جو کوئی بھی رہا ہوگا، اُس نے باقی گاڑیوں کو بھی دیکھ لیا ہوگا اور گاڑی کا ماڈل اور نمبر اسی لیے بتایا ہوگا تاکہ ہم کسی غلط گاڑی میں سوار نہ ہوجائیں‘‘۔ کمال نے سب کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ہاں ایسا ہی لگتا ہے‘‘، سب نے تائید کی۔

’’جاتے جاتے کیوں نا ایک بار ہم کمرے کا جائزہ لیتے جائیں کہ آیا وہ چاروں اب بھی کمرے میں بے ہوش پڑے ہیں یا ان کو اٹھا لیا گیا ہے‘‘، جمال نے کہا۔

یہ سن کر سب نے جیپ میں بیٹھنے کا ارادہ ترک کیا اور کمرے کا دروازہ کھول کر جب اندر جھانکا تو وہاں ایک اور دل خراش منظر آنکھوں کے سامنے تھے۔

چودھری صاحب سمیت فاطمہ، جمال و کمال کی چیخیں نکلتے نکلتے رہ گئیں۔ چاروں کے سینوں کے ٹھیک دل کے آرپار ایک ایک خنجر ترازو تھا۔

’’یہ تو ویسا ہی خنجر ہے جو اس غریب کسان کے سینے میں پیوست تھا جو اس سے پہلے یہاں ہلاک کیا گیا تھا‘‘۔ چودھری صاحب کے منہ سے بے اختیار یہ جملہ نکل پڑا۔

’’تو کیا آپ نے غریب کسان کی لاش کو دیکھا تھا؟‘‘ کمال نے سوال کیا۔

’’نہیں، میں نے لاش کو نہیں دیکھا تھا لیکن جو خنجر مجھے بعد میں دکھایا گیا تھا اس کی شکل مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے‘‘، چودھری ایاز علی نے دھیرے سے جواب دیا۔

سب نے کمرے کو پہلے کی طرح بند کیا اور تیزی کے ساتھ جیپ کی جانب چل پڑے۔

’’یار کمال! کچھ سمجھ میں آیا کہ یہ چاروں بے ہوشی کے عالم میں بھی کیوں قتل کردیے گئے جبکہ یہ مارنے والوں ہی کے ساتھی رہے ہوں گے!‘‘ جمال نے کمال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

’’ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے، اور وہ یہ کہ وہ چاروں اب ان کے لیے خود خطرہ بن چکے تھے۔ بیک وقت وہ ان چاروں کو لے کے جاتے بھی تو کہاں لے کر جاتے؟ وہ ہوش میں آکر قانون کے ہاتھ بھی لگ سکتے تھے۔ ہمارے یہاں سے غائب ہوجانے کی وجہ سے انھوں نے اپنے خطرے کو خود اپنی جانب سے ختم کردینا ہی زیادہ بہتر سمجھا ہوگا، لیکن ہوتا یہ ہے کہ دشمن جتنا بھی ہوشیار بننے کی کوشش کرے، حماقت در حماقت کرتا چلا جاتا ہے‘‘، کمال نے کہا۔

’’وہ کیسے؟‘‘ فاطمہ نے پوچھا۔
’’اس کا جواب یہاں نہیں، اعلیٰ عہدیداروں کے سامنے ہی پیش کیا جائے گا‘‘، کمال نے کہا۔ اور اس کی بات سمجھ کر پھر کسی نے کوئی دوسرا سوال نہیں کیا۔

جیپ چودھری صاحب ڈرائیو کررہے تھے۔ یہ خواہش خود انھوں نے ہی ظاہر کی تھی جس پر فاطمہ، جمال اور کمال کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا!

رہائش گاہ کے قریب انھیں پولیس کی قیدیوں کی ایک بڑی وین ٹائپ گاڑی کے علاوہ پولیس ہی کی دو اور گاڑیاں کھڑی نظر آئیں۔ اطراف میں فاصلے فاصلے سے کھڑے ہوئے چند فوجی جوان بھی نظر آئے، جس کا مطلب تھا یہ آپریشن مشترکہ تھا۔

پولیس کی ان گاڑیوں کے علاوہ ان کو پولیس کی ایک سفید رنگ کی کار بھی نظر آئی جو قریب کے ایک درخت کے نیچے سائے میں کھڑی تھی اور جمال، کمال اور فاطمہ اس گاڑی کو خوب اچھی طرح پہچانتے تھے۔ یہ انسپکٹر حیدر علی کی گاڑی تھے۔

گویا یہ آپریشن انسپکٹر حیدر علی کی سربراہی میں کیا گیا تھا۔ تینوں نے دل ہی دل میں سوچا۔

ہاسٹل نما رہائش گاہ کے ایک بڑے کمرے میں انھوں نے انسپکٹر حیدر علی کو موجود پایا، لیکن وہ کچھ اس انداز سے ملے جیسے ان تینوں کو پہچاننے کی کوشش کررہے ہوں مگر باوجود کوشش کے جیسے پہچان نہ سکے ہوں۔

فاطمہ، جمال اور کمال کو اُن کے اس رویّے پر بہت حیرانی ہونی چاہیے تھی، لیکن وہ سمجھ چکے تھے کہ ہم تینوں کو وہ کسی کی نظروں میں نہیں لانا چاہتے، کیونکہ اس وقت اُن کے ساتھ جتنے بھی اہل کار اور چودھری صاحب کے ملازمین میں سے بھی جو درجن بھر سے زیادہ افراد موجود تھے، وہ ان سب سے انھیں محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔

’’آپ لوگوں کا تعارف‘‘، انسپکٹر حیدر علی نے تینوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

’’ہم اسکول کے طالبِ علم ہیں۔ کل ہم چودھری صاحب کی زمینوں کا دورہ کرنے یہاں آئے تھے۔ زراعت پر کافی تحقیقاتی مضامین لکھنے تھے۔ کچھ یہاں کے ملازمین کے حال احوال کے بارے میں بھی لکھنا تھا کیونکہ عام طور پر سنا یہ گیا ہے کہ زمینداروں کا رویہ اپنی زمینوں پر کام کرنے والے مزارعوں سے نامناسب سا ہوتا ہے۔ ہمیں اس کام کی ذمہ داری ہمارے اسکول کے پرنسپل نے دی تھی۔ جب ہم نے چودھری ایاز علی صاحب سے رابطہ کیا اور زمینوں پر قیام کی اور تحقیق کی اجازت چاہی تو انھوں نے اسے بے حد خوشی کے ساتھ قبول کیا‘‘۔ جمال نے بہت اعتماد کے ساتھ کسی حد تک مفصل طریقے سے انسپکٹر حیدر علی کو اس انداز میں جواب دیا جیسے انھوں نے انسپکٹر حیدر علی کو پہلی بار دیکھا ہو۔

’’ٹھیک ہے‘‘، انسپکٹر حیدر علی نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کرلیا ہے کہ اب ہر فرد کی چھان بین ضروری ہوگئی ہی۔ اس لیے یہاں سے آپ تینوں کو ہمارے ساتھ ہی چلنا ہوگا۔

چودھری ایاز علی صاحب، ہمیں آپ کا بہت احترام ہے۔ آپ کا ریکارڈ ہماری بک میں بہت ہی اعلیٰ ہے، لیکن آپ ہماری آبزرویشن میں رہیں گے۔ آپ ہمارے لیے نہایت قابلِ احترام ہیں اس لیے ہم آپ سے بصد احترام یہ گزارش کریں گے کہ آپ اپنی رہائش گاہ سے اُس وقت تک باہر بھی نہیں نکلیں گے جب تک ہماری قانونی تحقیقات مکمل نہ ہوجائیں‘‘۔ انسپکٹر حیدر علی نے تحکمانہ انداز میں چودھری صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، جس پر چودھری صاحب نے پولیس کو یقین دلا تے ہوئے کہا کہ ’’ایسا ہی ہوگا، اس لیے کہ میرے نزدیک قانون کا احترام ہر شے پر مقدم ہے۔‘‘(جاری ہے)

حصہ