ایک خوبصورت دھوپ والے دن ایک لومڑی اپنے خیالات میں گم اپنے لومڑی والے معاملات پر غور کرتی ہوئی چہل قدمی کررہی تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ بہترین بات یہ ہوگی کہ دوپہر کا کھانا کسی درخت کے سائے میں کھایا جائے۔ اسے اُس وقت بہت بھوک اور پیاس لگ رہی تھی۔
لیکن افسوس کے ساتھ اسے یہ احساس ہوا کہ وہ اپنا مزیدار کھانا گھر بھول آئی ہے!
’’میں اتنی بھلکڑ کیسے ہوسکتی ہوں؟‘‘ اس نے چیخ کر کہا۔
اچانک اس کی نظر ایک منظر پر پڑی جس نے اس کے سارے غم بھلا دیے۔ ایک شاخ سے لٹکے ہوئے، ہوا میں آہستہ سے جھولتے، سب سے شاندار انگور تھے جو اس نے پہلی مرتبہ دیکھے تھے۔ وہ انگور موٹے، رس بھرے اور دھوپ میں چمک رہے تھے۔ لومڑی کے منہ میں پانی بھر آیا۔
’’مجھے یہ انگور ضرور حاصل کرنے ہیں!‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ ’’صرف ایک نوالہ اس میٹھے سے پھل کا…‘‘
لیکن انگور شاخ پر بہت اونچے تھے، اس کی پہنچ سے باہر۔ اس نے چھلانگ لگائی اور خود کو کھینچا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وہ پیچھے ہٹی، دوڑی اور پھر چھلانگ لگائی، لیکن انگور بدستور اس کی پہنچ سے دور رہے۔
کئی ناکام کوششوں کے بعد تھک ہارکر اور مایوس ہوکر وہ درخت کے نیچے گر گئی۔
’’میں کتنی بیوقوف لومڑی ہوں!‘‘ وہ بڑبڑایا۔ ’’اس گرم دن میں ان کھٹے انگوروں کے لیے چھلانگیں لگا رہی ہوں! آخر کون ان کھٹے انگوروں کو چاہے گا؟‘‘
اپنی دُم کو جھٹکتے ہوئے، لومڑی مایوسی کے عالم میں گھر واپس چلی گئی۔
عزیز بچو! یاد رکھیں کہ کبھی کبھار جب ہم کسی چیز کو حاصل نہیں کرپاتے، تو خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں وہ چیز دراصل چاہیے ہی نہیں تھی۔ بالکل ہماری دوست لومڑی کی طرح!