کچھ غزہ سے شام تک:
غزہ پر اسرائیلی حملوں کو 442 دن ہوچکے۔ 56 اسلامی ممالک کی بے حسی کی وجہ سے آزمائش کا سلسلہ طوالت پارہا ہے۔ 24 لاکھ مسلمان ہیں جنہیں یہ بدترین ظلم جھیلنا پڑرہا ہے۔ 45361 شہادتیں وہ ہیں جو سرکاری ریکارڈ پر ہیں، سوا لاکھ زخمی ہیں۔ بمباری، قتلِ عام، بے گھری، بے یار و مددگاری، بھوک، پیاس، سردی، بیماریاں، عدم علاج ناقابلِ بیان ہیں۔ جنگ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ ہر بار بات ہوتی ہے اور ختم ہوجاتی ہے۔ انٹرنیشنل کورٹ کا جاری کردہ گرفتاری وارنٹ بھی ڈیڑھ ماہ سے ’’فالج زدہ‘‘ نظر آرہا ہے (گوکہ نیتن یاہو پر بے حد دباؤ آیا ہوا ہے)۔ اسرائیل مغربی کنارے پر مزید قبضے کررہا ہے۔
اس منظرنامے میں حماس کے مرکزی رہنما شیخ اسماعیل ہنیہ کی ایران میں شہادت، پھر شیخ یحییٰ سنوار کی شہادت، اور شام میں مزاحمت کاروں کی فتح کے بعد صورتِ حال خاصی گنجلک ہوچکی تھی۔ عام مسلمان کے پاس اطلاعات کے جو ذرائع ہیں وہ سارا مغربی میڈیا ہی ہے۔اس صورتِ حال میں حماس کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی نے رواں ہفتے پاکستان کا دورہ رہا۔ ڈاکٹر خالد 2011ء سے حماس کے ترجمان کے منصب پر فائز ہیں۔ انہوں نے اس بار کئی انٹرویو دیے، اور یوں سوشل میڈیا پر حماس کا موقف کھل کر پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی اردو بھی مناسب ہے کیونکہ اُنہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی ہے۔ فیس بک اور یوٹیوب پر تو ایک بڑے درجے میں حماس اور اس کے متعلقین پر پابندی عائد ہے، البتہ ٹوئٹر اور واٹس ایپ پر اُن کے کلپس خاصے وائرل رہے۔ ان کلپس سے کچھ اہم نکات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
ڈاکٹر خالد قدومی نے طوفان الاقصیٰ سے متعلق صاف الفاظ میں کہا کہ ’’7 اکتوبر 2023ء اسرائیل کی شکست کا دن تھا، جب اُس کے طاقتور دفاعی نظام اور ساری بارڈر فورسز کو ہم نے دنیا کے سامنے ناکارہ بنا دیا۔ وہ آج 400 دن بعد بھی اپنے ایک ہدف کو نہیں پا سکا۔ ساری دُنیا اُس پر ملامت کررہی ہے۔ برطانیہ اور امریکا کے سوا نیتن یاہو اور اس کا آرمی چیف کہیں جا نہیں سکتے، اور خود اپنے ملک میں بھی زیر زمین رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ سب مٹھی بھر مجاہدین نے کردکھایا ہے‘‘۔ ایران سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ ’’طوفان کا ایران سے کوئی تعلق نہیں تھا، ایران تو مہینے کے بعد ہمارے ساتھ شامل ہوا، ایران سے ہماری ورکنگ ریلیشن اچھی ہے“۔ شام کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ”ہم شام کے مسلمانوں کے ساتھ ہیں، اِس فتح پر مبارک باد دیتے ہیں۔ شام کے لیے امن اور وہاں مسلمانوں کی جان و مال کا تحفظ چاہتے ہیں۔“ اُنہوں نے واضح کیا کہ ”شام کی فتح غزہ کے لیے کسی صورت میں نقصان دہ یا کوئی منفی اثر نہیں رکھتی۔“
شہید یحییٰ سنوار:
طوفان الاقصیٰ کے اصل روحِ رواں شیخ یحییٰ سنوار سے متعلق ڈاکٹر خالد نے بتایا کہ ”وہ طوفان کے اصل ماسٹر مائنڈ کہلاتے تھے۔ اُن کی ساری زندگی ہی نہیں اُن کی شہادت بھی ایک مثال بن گئی۔ وہ قائد ہونے کے باوجود مجاہدین کے ساتھ میدانِ عمل میں تھے، یہ سب سے حیران کن بات تھی۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی زندگی اور موت کا تعین پہلے ہی کررکھا تھا کہ اُن کو کیسے مرنا ہے۔ شیخ یحییٰ نے اپنی زندگی میں انتہائی سخت آزمائشی وقت گزارا۔ قرآن سے شیخ یحییٰ سنوار کا تعلق انتہائی گہرا تھا۔ اُن کی بریگیڈ میں شمولیت کے لیے حفظ قرآن لازمی شرائط میں سے ایک شرط تھی۔ طوفان کے مجاہدین کی بڑی اکثریت حفاظِ قرآن تھی۔ اہلِ غزہ کا ان سارے حالات میں قرآن مجید سے مضبوط تعلق ہی ہے جس نے اُن کو غیر معمولی عزم و حوصلہ دیا ہوا ہے۔ شیخ یحییٰ تنظیمی کاموں میں انتہائی طاق تھے، کوئی فرد ایسا نہ تھا جس کو ذمہ داری تفویض نہ ہوتی۔ اُن کی ٹیبل پر کبھی کوئی فائل نہیں ہوتی تھی۔ 2013ء سے وہ غزہ میں ٹریننگ کرنے اور کرانے کے ایسے عمل میں تھے جس کے بارے میں اُنہوں نے پہلے ہی بتادیا تھا کہ جو طوفان آئے گا وہ پورے خطے کو لپیٹ میں لے لے گا۔ شیخ منظرنامے کا اندازہ نہیں کرتے تھے بلکہ پیش بندی کرتے تھے، اُن کی پلاننگ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت دی تھی کہ اُن کو معلوم ہوتا تھا کہ اب ہم ایسا کریں گے تو جواب میں ایسا ہوگا۔ وہ مستقبل کا بھی نقشہ کھینچ لیتے تھے۔ اللہ کی یہی مدد تھی کہ وہ مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) کے اندر 40 کلومیٹر تک گئے اور سارے اسرائیلی کنٹرول کمانڈ کو تباہ کرکے واپس آئے۔ مجاہدین کے جذبات اتنے بلند تھے کہ شیخ کی شہادت کی رات ہی بڑا بدلہ لیا۔ اسرائیلی فوج کے بڑے کمانڈر اور اس کے نائب کو جبالیہ کیمپ میں جہنم واصل کردکھایا۔“
شہید اسماعیل ہنیہ:
ڈاکٹر خالد ایران میں شیخ اسماعیل ہنیہ کے ساتھ موجود تھے۔ اُن کی شہادت کا احوال ایک وڈیو میں اُنہوں نے تفصیل سے بتایا۔ ایران میں صدارتی عشائیے کے بعد شیخ اسماعیل واپس مہمان خانے آگئے (اُس بلڈنگ میں ڈاکٹر خالد کا کمرہ دوسری منزل پر تھا اور شیخ کا کمرہ چوتھی منزل پر تھا۔ اُس بلڈنگ میں اور بھی کئی ممالک کے نمائندگان کے کمرے تھے)۔ ڈاکٹر خالد، شیخ اسماعیل کے ساتھ اُن کے کمرے میں خاصی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ اُس دن لبنان سے اطلاع آئی تھی کہ حزب اللہ کے کمانڈر فواد شکر کو اسرائیل نے نشانہ بنایا ہے۔ شیخ اسماعیل نے بتایا کہ ”صدارتی عشائیے میں شریک دیگر ممالک کے نمائندوں کی جانب سے حماس کی غیر معمولی پزیرائی کی گئی“۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ”رات ہی ہماری بات ہوئی کہ جہاد نے ہمیں کتنی عزت دی ہے، آج اندازہ ہوا۔ مجاہد اللہ سے کیا چاہتا ہے! یا تو وہ جیتے یا شہادت پا جائے۔“ ڈاکٹر خالد نے بتایا کہ شیخ اسماعیل کے خاندان کے 70 افراد جام شہادت نوش کرچکے ہیں، اُن کی بیٹی کا پیغام سب نے دیکھا کہ ہماری اتنی جدوجہد ہے کہ اگر مجھے پتا چلتا کہ میرے والد کسی اسپتال کے آئی سی یو میں چلے گئے تو یہ میرے لیے عجیب بات ہوتی۔ ڈاکٹر خالد نے کہا کہ ”میں بہت دیر اُن سے بات چیت کرتا رہا، پھر میں نیچے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ رات ساڑھے 12 بجے کے قریب میں سو چکا تھا کہ شدید زلزلے جیسی آوازیں آئیں، میں کچھ سمجھ نہ سکا کہ کیا ہوا ہے، ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا کہ اُس وقت حملے کا تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ میرے کمرے کا بھی واش روم مکمل تباہ ہوچکا تھا۔ بلڈنگ میں مکمل اندھیرا ہوچکا تھا، میں ٹارچ کی مدد سے باہر نکلا، تو ایک ساتھی نے جو اوپر سے نیچے آرہے تھے، بتایا کہ شیخ اسماعیل شہید ہوچکے ہیں۔ مجھے تو جیسے یقین ہی نہیں آیا۔ میں نے دوبارہ پوچھا۔ اوپر گیا تو اُن کے کمرے کی دو دیواریں ملبے کا ڈھیر تھیں، اُن کا محافظ ساتھی وسیم بھی شہید ہوچکا تھا۔ شیخ کے جسم کا بالائی دھڑا ہمیں نہیں مل سکا۔ وہ منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ شیخ کے جسدِ خاکی کو میں نے ہی غسل دیا۔ وہ جیسا حسین خاتمہ چاہتے تھے، اُن کو مل گیا تھا۔ اُن کے بھائی اگلے دن قطر سے آئے اور وہاں اُن کا جنازہ ہوا۔“
شیخ کی دہشت:
اس ہفتے سوشل میڈیا پر صہیونیوں کی جانب سے ایک اور دلچسپ سوشل میڈیا ٹرینڈ دیکھنے میں آیا۔ وال مارٹ امریکا کا سب سے بڑا آن لائن اسٹور ہے۔ امریکی ریٹیل کمپنی وال مارٹ کو اُس وقت تنازعے کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے آن لائن اسٹور پر حماس کے سابق سربراہ شیخ یحییٰ سنوار شہید کی تصویر والی ٹی شرٹس فروخت کے لیے پیش کی گئیں۔ ”اسٹاپ اینٹی سیمیٹزم“ نامی امریکی تنظیم نے ٹوئٹر پر وال مارٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ ایسی مصنوعات فروخت کررہے ہیں جو دہشت گردی اور یہودیوں کے خلاف تشدد کی حمایت کرتی ہیں؟ یہ ناقابل قبول ہے- انہیں فوری طور پر ہٹائیں“۔ اس کے بعد یہودیوں نے ایک منظم مہم چلائی۔ وال مارٹ نے اس تنقید کے بعد شیخ یحییٰ کی تصویر والی ٹی شرٹس کو اپنی ویب سائٹ سے ہٹادیا۔ تاہم اسرائیلی میڈیا کے مطابق اطلاعات کے مطابق حزب اللہ کے سابق سربراہ حسن نصراللہ کی تصویر والی ٹی شرٹس اب بھی آن لائن خریداری کے لیے دستیاب ہیں۔ وہ سات سمندر پار بیٹھ کر بھی شدید تکلیف میں کیوں ہیں؟ ایک ایسا شخص جسے وہ اپنے طور پر 2 ماہ قبل ختم کرچکے، پوسٹ مارٹم بھی کیا، لاش بھی اپنے پاس رکھ کر تسلی کرکے واپس کی، اب 2 ماہ بعد اُن کی تصویر کیوں خوف و دہشت کی مثال بن سکتی ہے؟ یہ بات میں آج تک نہیں سمجھ پایا۔ سوشل میڈیا پر آج بھی برہان وانی، ممتاز قادری، خادم رضوی، یحییٰ سنوار، اسماعیل ہنیہ سمیت کئی نام ہیں جو دُنیا میں موجود نہیں لیکن اُن کے نام اور تصویروں کی اتنی دہشت ہے کہ وہ ان کی فروخت اجازت نہیں دیتے۔ حیرت یہ ہے کہ ایک جانب سارا کا سارا ’’ریشنل (عقل محض پر) کھڑا بیانیہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب پورا ’غیبی عقیدہ(قرآنی عقیدہ) ہوتا ہے جس کو وہ مکمل ’رد‘ کرتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں۔ مگر واقعاتی شہادت تو یہی بتاتی ہے کہ وہ جسے مُردہ کہہ رہے ہوتے ہیں، اپنے عمل سے ظاہر کررہے ہوتے ہیں کہ وہ ’مردہ ‘نہیں ہے۔ اگر اُس کی تصویر آجائے، کوئی اس کا نام لے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے نظریے کے ساتھ موجود ہے۔ اُن کے لیے یحییٰ، اسماعیل فرد نہیں، نظریہ ہوتے ہیں۔ ایسا نظریہ جو اُن کے نام اور شکل کو دیکھ کر زندہ ہوجاتا ہے۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ اس تصویر سے، اس نام سے ”دہشت“ پھیلتی ہے۔ پس اور کیا چاہیے!
امریکی انصاف:
اس ہفتے امریکا سے آئی ایک اور خبر خاصی ڈسکس ہوئی۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے (خود ساختہ) اعلیٰ انصاف کی مثال قائم کی کہ کسی کو قتل نہ کیا جائے، چاہے اُس نے خود کئی قتل کیوں نہ کیے ہوں۔
20 جنوری 2025ء کو نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔ اس سے قبل موجودہ صدر اپنے اختیارات کے مطابق قیدیوں کی سزائیں معاف کرتا ہے۔ جوبائیڈن نے گزشتہ ماہ اپنے بیٹے کے کئی سنگین جرائم معاف کیے۔ اَب کی بار امریکا میں سزائے موت کے 40 قیدیوں میں سے 37 کی موت کی سزا ختم کردی۔ ایسا کرتے ہوئے صدر نے یہی کہا کہ اُنہوں نے اپنے ضمیر کی آواز سنی ہے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کون سا،کیسا ضمیر ہے؟ پوری پاکستانی قوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی منتظر ہے، جس پر صرف قتل کی کوشش کا الزام ہے۔ یہاں جن 37 افراد کو معافی دی گئی ہے وہ انتہائی سفاک، ظالم، درندہ صفت قاتل ہیں۔ قارئین جانتے ہوں گے کہ امریکا میں جعلی ”ہیومن رائٹس“ کے نام پر ’سزائے موت‘ نہیں دی جاتی، لیکن اگر کوئی بہت زیادہ سفاک مجرم ہو تو امریکی قانون بھی اس سزا کو اپنانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس لیے آپ اندازہ کریں کہ یہ 40 لوگ کتنے خطرناک، سفاک مجرم تھے۔ نیویارک ٹائمز میں ان کی پوری فہرست شائع ہوئی تو معلوم ہوا کہ اِن 37 میں سے کئی مجرموں نے تو جیل کے اندر سابقہ جرم کی قید کے دوران ہی مزید کئی قتل کردیے ہیں (یعنی جیل کے ساتھی قیدیوں کے)۔ اب یہ طاقتور و کمزور میں برابری کی مثال ہے، ضمیر کی مثال ہے؟ یہ سمجھ میں نہیں آرہا۔ امریکا میں سزائے موت کے مخالفین نے اسے انسانی حقوق کے تحفظ کی جانب مثبت قدم قرار دیا ہے، جبکہ بعض حلقوں نے اسے انصاف کے تقاضوں کے منافی سمجھا ہے، خاص طور پر ان جرائم کے متاثرین کے خاندانوں نے۔ 2014ء میں امریکا میں سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کے لیے عدالتی نظرثانی کی حمایت کی گئی، خاص طور پر اُس وقت جب چند ریاستوں میں کیمیکل انجیکشن کے نتیجے میں غیر انسانی طریقے سے اموات ہوئیں۔ امریکی معاشرہ جس تیزی سے سفاک مجرم پیدا کررہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایک جانب انسانیت کا مروڑ، دوسری جانب غزہ میں بمباری و نسل کُشی میں مکمل معاونت حقیقت کھول کر رکھ دیتی ہے۔