2024 کیسا رہا؟

69

سالِ رواں بھی بس اب ختم ہونے کا ہے۔ یہ سال بھی انتہائی نوعیت کے واقعات سے عبارت رہا۔ دنیا بھر میں ایسے واقعات تواتر سے ہوتے رہے جن کے نتیجے میں صرف خرابیوں کو بڑھاوا ملا۔ لوگ اچھے دنوں کی آس لگائے بیٹھے ہیں مگر اچھے دن ہیں کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتے۔

امریکا اور یورپ کا کردار بہت حد تک بدل چکا ہے۔ اُن کے مسائل بھی دوچند ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکا اور یورپ عالمی نظام پر چھائے ہوئے ہیں تو اُن کے لیے مسائل نہیں، مشکلات ختم ہوگئی ہیں۔ قدرت کی طرف سے اپنے اپنے حصے کے مسائل ملتے ہی ہیں۔

اکتوبر 2023 میں اسرائیل نے غزہ کے لوگوں پر مظالم ڈھانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ پورے 2024 کے دوران بھی جاری رہا۔ اور یہی نہیں بلکہ جنوبی لبنان کے بعد لبنان کے دیگر حصوں میں بھی اسرائیل نے مظالم ڈھانا شروع کیا اور یوں مشرقِ وسطیٰ کے عدمِ استحکام میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

عالمی تجارت و معیشت کے لیے بھی یہ سال انتہائی نوعیت کا رہا ہے۔ یورپی یونین اور ایشیائی ممالک کے درمیان ایک طرف اشتراکِ عمل ہے اور دوسری طرف کھینچا تانی۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں پائے جانے والے عدمِ استحکام کے باعث سیاسی پناہ کے لیے یورپ کا رُخ کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی ہی جارہی ہے۔

ایشیائی ممالک اپنے لیے نئی تقدیر چاہتے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ عالمی نظام میں اُن کا بھی بڑا حصہ ہو۔ تیزی سے ابھرتی ہوئی چند ایشیائی معیشتوں نے عالمی اداروں میں اپنے لیے بہتر، بلند اور وسیع تر کردار پر زور دینے کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ ایک طرف بھارت چاہتا ہے کہ اُس کی بات زیادہ توجہ سے سُنی جائے اور دوسری طرف ترکی اور روس بھی اس بات کے خواہش مند ہیں کہ عالمی سطح کے فیصلوں میں اُن کی بات کو کسی بھی طور نظر انداز نہ کیا جائے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، کویت وغیرہ کی بھی خواہش ہے کہ عالمی سطح پر اُن کی بات سُنی جائے۔ سعودی عرب تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے عالمی اداروں میں اپنے لیے بلند تر کردار یا درجے کا خواہش مند ہے۔ متحدہ عرب امارات بھی سرمایہ کاری، تجارت اور صنعتی عمل کے مرکز کے طور پر اپنی حیثیت منوانا چاہتا ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ وہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ایک پسندیدہ منزل میں تبدیل ہو جائے۔ اس حوالے سے سرمایہ کاری بھی کی جارہی ہے اور ذہن سازی بھی۔ سعودی قیادت ایسے بہت سے اقدامات کر رہی ہے جو اُس کی خصوصی مذہبی حیثیت سے براہِ راست متصادم ہیں۔ اسلام کے مقدس ترین مقامات کا امین ہونے کے ناطے سعودی عرب کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتا ہے مگر آسانی سے نہیں کرسکتا کیونکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے اُسے شدید ردِعمل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

سالِ رواں کے دوران دنیا بھر میں پس ماندہ معیشتوں کے لیے مزید مشکلات پیدا ہوئیں۔ عالمی اداروں کی کارکردگی اِس حوالے سے غیر معمولی نہیں رہی۔ لاکھ کوشش کے باوجود یہ ادارے امریکا اور یورپ کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پارہے۔ چین اور روس چاہتے ہیں کہ عالمگیر سطح کے فیصلوں میں اُنہیں بھی بھرپور طور پر شریک کیا جائے اور کسی بھی سطح پر نظر انداز کرنے کی غلطی نہ کی جائے مگر سچ یہ ہے کہ امریکا اور یورپ عالمی سیاسی، معاشی اور مالیاتی نظام پر اپنی گرفت کسی بھی طور ڈھیلی نہیں پڑنے دینا چاہتے۔ اُن کی بھرپور خواہش اور کوشش ہے کہ طاقت میں مجموعی طور پر رونما ہونے والی کمی کے باوجود اُنہی کا کردار کلیدی رہے، قائدانہ رہے۔

کھیل ہو یا ثقافت، سیاست ہو یا معیشت، جغرافیہ ہو یا تاریخ ہر معاملہ ایسی تبدیلیوں کی زد میں ہے جن کے نتائج پہچانے نہیں جارہے۔ کہنے کو بہت کچھ بدل رہا ہے مگر کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہو رہا۔ بات سیدھی سی ہے، بڑی طاقتوں نے اپنے پنجے ہر معاملے میں اس قدر گاڑے ہوئے ہیں کہ کسی بھی حقیقی اور مثبت تبدیلی کی راہ روکنا اُن کے لیے ناگزیر بھی ہے اور مشکل بھی نہیں۔ امریکا اور یورپ اس معاملے میں اب تک کلیدی کردار کے حامل ہیں اور عالمی سطح کے ہر معاملے میں انہوں نے اپنے پنجے اس طور گاڑے ہوئے ہیں کہ کہیں سے کوئی بڑی اور حقیقی تبدیلی رونما ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ہم جو تبدیلیاں دیکھتے ہیں وہ دراصل بڑی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات ہیں۔ اپنی بھرپور طاقت اور پوزیشن کا فائدہ اٹھاکر یہ ممالک باقی دنیا کو اپنے زیرِدست رکھنے پر تُلے رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پس ماندہ اور ترقی پذیر دنیا کے لیے مسائل ختم تو کیا ہوں گے، کم ہونے کا نام بھی نہیں لیتے۔

اسماعیل ہنیہ کی شہادت
31 جولائی 2023 کو فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں پیجر دھماکے میں شہید کردیا گیا۔ اب اسرائیل نے اس واقعے کی بھی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

اسماعیل ہنیہ کی شہادت حماس کے لیے بہت بڑا جھٹکا تھی۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کے خلاف مزاحمت کا سب سے بڑا استعارہ سمجھے جانے والے اسماعیل ہنیہ کے پورے خاندان نے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ رواں سال عیدالفطر کے موقع پر اسماعیل ہنیہ کے خاندان کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ اُن کے بیٹے اور پوتے بھی شہید کیے جاچکے ہیں۔

اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بنیادی مقصد فلسطینیوں کے عزم کو توڑنا اور اُن میں مایوسی پھیلانا تھا۔ اسماعیل ہنیہ کا وجود لاکھوں فسلطینیوں کے لیے عزم و ہمت کا نمونہ اور استعارہ تھا۔ انہوں نے ہر مشکل لمحے کا ڈٹ کر سامنا کیا اور میدان نہیں چھوڑا۔

اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے فلسطینیوں میں اسرائیل کے خلاف لڑنے کا نیا حوصلہ پیدا کیا۔ جس بے باکی اور بے نیازی سے اسماعیل ہنیہ اور اُن کے خاندان نے اپنے کاز کے لیے جان دی وہ فلسطینیوں کے لیے ایک بڑی مثال بن کر ابھرا۔

اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایران کے لیے پاس بھی اسرائیل پر براہِ راست حملے کے سوا چارہ نہ رہا۔ ایران نے ایک ہی رات میں 200 سپر سونک میزائل اسرائیل کے مختلف حصوں پر داغے۔ اس کے جواب پر اسرائیل نے تہران سمیت ایران میں مختلف مقامات کو نشانے پر لیا۔ اس معاملے میں امریکا نے ایک قدم آگے بڑھ کر اسرائیل کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملوں سے باز رکھا۔ یہ کشیدگی کسی نئی جنگ میں تبدیل نہ ہوئی اور معاملات کو کسی نہ کسی طور کنٹرول کرلیا گیا۔

پیجر دھماکے اور حسن نصراللہ کی شہادت
17 اور 18 ستمبر کو پیجر دھماکے ہوئے۔ جنوبی لبنان میں ہونے والے ان دھماکوں میں مجموعی طور پر 40 سے زائد افراد شہید ہوئے اور 3 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا۔ اسرائیل نے بعد میں تسلیم کرلیا کہ پیجر دھماکے اُسی نے کرائے تھے اور اِن دھماکوں کا بنیادی مقصد لبنان اور فلسطین کے مسلمانوں میں خوف پھیلانا تھا۔ جنوبی لبنان سے اسرائیل پر حملے جاری رہے ہیں۔ اس کے توڑ کے لیے اسرائیل نے پہلے تو فضائی حملے کیے اور پھر زمینی فوج بھی جنوبی لبنان میں اتار دی۔ میدان میں دو بدو ہونے والی لڑائی نے لبنانی اور فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد کو نیا رُخ دیا۔

جنوبی لبنان میں اسرائیل کی بری فوج کو غیر معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سب کچھ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد ہوا۔ اسرائیل کو یقین تھا کہ حسن نصراللہ کو راہ سے ہٹانے کی صورت میں حزب اللہ کے کارکنوں کے لیے لڑائی جاری رکھنا انتہائی دشوار ہوگا۔

پیجر دھماکوں کے بعد اسرائیل نے لبنان کو باضابطہ نشانے پر لے لیا۔ جنوبی لبنان تک محدود رکھی جانے والی فوجی کارروائیاں اب مین لینڈ لبنان میں بھی کی جانے لگیں۔ اس کے نتیجے میں شہادتوں کا سلسلہ بھی دراز ہوا اور بہت بڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہونے لگا۔ اسرائیلی فضائیہ نے عمارتوں کو تباہ کرنا شروع کیا۔ یہ سب کچھ انتہائی نوعیت کا تھا اس لیے لبنان کی حدود میں حزب اللہ نے بھی بھرپور مزاحمت شروع کی۔

27 ستمبر کو لبنان کے دارالحکومت بیروت کے نواحی علاقے داہیہ میں واقعی حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹرز میں ایک میٹنگ کے دوران اسرائیلی فضائیہ نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور اُن کے چند ساتھی (کمانڈرز) شہید ہوگئے۔ یہ واقعہ لبنان کی سلامتی اور سالمیت کے حوالے سے بہت خطرناک ثابت ہوا کیونکہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد اُس نے جنوبی لبنان میں اپنی بری فوج کے دستوں کو داخل کرکے حزب اللہ کا پورا عسکری ڈھانچا تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

حسن نصراللہ کی شہادت کو بھی اسرائیلیوں نے فیصلہ کن اقدام سمجھ لیا تھا اور یہ سوچ کر مطمئن تھے کہ اب حزب اللہ کی کمر ٹوٹ جائے گی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد جنوبی لبنان میں اسرائیلی بری فوج کو بھرپور عسکری مہم جوئی کے دوران شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ مزاحمت حزب اللہ نے بہت حد تک اپنے زورِ بازو کے ذریعے کی ہے۔ امداد کے تمام راستے بند ہیں۔ امریکا کی مدد سے اسرائیل نے حماس اور حزب اللہ کے لیے امداد کا حصول انتہائی دشوار بنادیا ہے۔

یحیٰ سنوار کی شہادت
جب اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے بھی اسرائیلی قیادت مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکی، اہداف مکمل نہ ہوسکے تو مزید ایک قدم آگے جاکر غزہ کی حدود میں حماس کے نئے سربراہ یحیٰ سِنوار کو بھی شہید کردیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر سمجھا جارہا تھا کہ اب فلسطینیوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے مگر اسرائیلیوں کی خواہش محض خواہش ہی رہی۔ یحیٰ سِنوار کو جس طور شہید کیا گیا وہ بھی انتہائی قابلِ مذمت تھا۔ اسرائیلیوں نے پھر سوچا کہ اب فلسطینیوں کی ہمت جواب دے جائے گی اور وہ ہاتھ پیر جوڑنے لگیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔ فلسطین کے طول و عرض میں یحیٰ سِنوار کو شہادت کو پورے عزم اور ولولے کے ساتھ قبول کیا گیا۔ یحیٰ سِنوار کی شہادت کی وڈیو نے فلسطینیوں میں نئی روح پھونک دی اور وہ ارضِ مقدس کے لیے سب کچھ لُٹانے کے حوالے سے پہلے سے زیادہ تیار ہوگئے۔ یحیٰ سِنوار کو 16 اکتوبر 2023 کو شہید کیا گیا۔ وہ 61 سال کے تھے۔ اُن کی پوری زندگی فلسطین کے لیے جدوجہد سے عبارت رہی۔

غزہ اور لبنان کی صورتِ حال
رواں سال بھی غزہ کے مسلمانوں کے معاملات انتہائی خرابی سے دوچار رہے۔ اسرائیل نے انسانیت سوز مظالم ڈھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ امریکا نے رواں سال بھی غزہ کے حوالے سے محض نمائشی کردار ادا کیا اور اسرائیل کو دھمکانے کا ناٹک کرتا رہا۔ صدر جو بائیڈن کو انتخابی امیدوار کی حیثیت سے بہت کچھ کرنا تھا اس لیے اندرونی سیاسی محاذ پر مصروفیت کے باعث وہ غزہ کے مسلمانوں کے لیے کچھ بھی نہ کرسکے۔ کئی بار انہوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل کو بس اب لگام ڈالی ہی جانے والی ہے مگر لوگ سمجھ گئے ہیں کہ یہ طفل تسلیاں ہیں۔ اسرائیل کو انسانیت مظالم سے باز رکھنے کی امریکا نے ایک بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سب کچھ محض دکھاوے کے لیے تھا۔ اِس سے زیادہ کچھ بھی نہ تھا۔

غزہ میں جو کچھ بھی ہوا ہے اور ہو رہا ہے وہ انسانیت کے دامن پر انتہائی بدنما داغ ہے۔ تمام عالمی ادارے کھل کر کہہ چکے ہیں کہ فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ فلسطینیوں کی مدد کے لیے کوئی بھی بڑا ملک اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چین اور روس بھی اس لیے پیچھے ہٹے ہوئے ہیں کہ اگر وہ اس معاملے میں مداخلت کریں گے تو معاملات کے مزید بگڑنے کا خدشہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کی راہ ہموار ہو جائے۔ مسلم دنیا میں اِتنا دم خم نہیں۔ وہ کسی نہ کسی طور زندہ رہ لے تو یہ بھی کافی ہے۔

غزہ کے مسلمان آج بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ مسلم دنیا کا ضمیر جاگے، وہ اسرائیل کے خلاف مسلح ہوکر اٹھ کھڑی ہو۔ مسلم ممالک مختلف مصلحوں کا شکار ہیں۔ سب کو اپنی پڑی ہے۔ امتِ مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کا تصور مٹی میں مل چکا ہے۔ عملی سطح پر ہر مسلم ملک صرف اپنی بات کر رہا ہے۔ کسی کو بظاہر اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ کسی بھی اور خطے میں کسی مسلم ملک یا مسلم اکثریتی علاقے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدارِ نَو
2024 جاتے جاتے ایک ایسی تبدیلی کی راہ ہموار کرگیا ہے جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں اچھی خاصی اکھاڑ پچھاڑ واقع ہوسکتی ہے۔ ڈونلڈٹر ٹرمپ نے نومبر میں ایک اور مدت کے لیے امریکا کا صدر منتخب ہونے کے بعد سے اب تک جو کچھ کہا ہے اُسے سُن کر لوگ لرز لرز گئے ہیں۔ ٹرمپ کیا چاہتے ہیں اِس کی فکر کسی کو زیادہ نہیں کیونکہ سبھی کو اندازہ ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ وہ اصولوں اور ضابطوں کو نہیں مانتے۔ من مانی اُن کے مزاج کا حصہ ہے۔ وہ خالص کاروباری اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کے حامل انسان ہیں۔ لوگ تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ جو کچھ ٹرمپ کرنا چاہتے ہیں اُس کے نتیجے میں کیا ہوگا۔ ٹرمپ نے ابھی سے واضح کرنا شروع کردیا ہے کہ وہ امریکا اور باقی دنیا کے تعلقات کو ویسے نہیں رہنے دیں گے جیسے وہ ہیں۔

ٹرمپ کے مزاج میں ٹیڑھ بہت زیادہ ہیں۔ وہ صرف بڑھک باز کاروباری شخصیت نہیں بلکہ امریکا کے صدر بھی ہیں۔ وہ ایسا بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں جس کا بنیادی مقصد امریکا کی گھٹتی ہوئی طاقت کے باوجود اُس کے عالمی اختیارات کے تحفظ کرنا ہے۔ اِس سلسلے میں وہ تمام اصولوں اور ضابطوں کو بالائے طاق رکھنے کے مُوڈ اور حق میں ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ ہر حال میں سب سے پہلے امریکا کے اصول ہی کو اپنائیں گے اور اپنے پہلے عہدِ صدارت میں وہ اِس کا عملی مظاہرہ کر بھی چکے ہیں۔

نیا سال ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے ساتھ ساتھ بہت سی غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ بھی ہموار کرے گا۔ چین سے تجارتی جنگ اگرچہ امریکا کے لیے آسان نہیں مگر اس کا قوی امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جب دوبارہ منصبِ صدارت سنبھالیں گے تو چین کو ٹف ٹائم دینے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ تائیوان کے حوالے سے سیاسی اور ٹیرف کے حوالے سے تجارتی کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔

شام میں بشار حکومت کا دھڑن تختہ
شام میں بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ بشار انتظامیہ کا دھڑن تختہ ہونے سے مشرقِ وسطیٰ میں بہت کچھ بدل جانے کی توقع کی جانی چاہیے۔ حافظ الاسد اور بشار الاسد نے شام پر کم و بیش 52 سال حکومت کی ہے۔ بشار انتظامیہ کو بچانے کی روس اور ایران نے مل کر بھرپور کوشش کی۔ دوسری طرف امریکا بھی فعال تھا اور کردوں کی حمایت و مدد کے ذریعے اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس وقت بھی شام کی سرزمین پر امریکی فوجی موجود ہیں۔ امریکا کے لیے شام کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور آسان نہیں۔

ایران اور ترکی بھی شام کے حوالے سے آمنے سامنے رہے ہیں۔ دونوں ہی کو اندازہ ہے کہ اگر شام اُن کے ہاتھ سے نکل گیا تو اُن کے مفادات کو غیر معمولی جھٹکا لگے گا۔ ایران کے لیے شام سے دست بردار ہونا انتہائی گھاٹے کا سودا ہوگا۔ لبنان میں حزب اللہ کی پوزیشن کے کمزور پڑنے سے ایران کے لیے علاقائی سطح پر بڑے کا کردار ادا کرنا ایسا آسان نہیں رہا۔ یمن کی حوثی ملیشیا بھی ایران سے مدد حاصل کرتی رہی ہے۔ حوثی ملیشیا کے خلاف اسرائیلی اقدامات معاملات کو ایران کے لیے مزید خراب کریں گے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکا اور یورپ کی بھی جان پر بنی ہوئی ہے۔ امریکا کسی بھی طور مشرقِ وسطیٰ سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا۔ شام میں اپنی خراب پوزیشن کے باعث روسی قیادت خود کو منوانے کے لیے کہیں اور بہت کچھ کرسکتی ہے۔ ایک طرف تو یوکرین میں جنگ جاری ہے اور دوسری طرف روسی قیادت مشرقِ وسطیٰ میں ہیں اور کسی نئے مناقشے کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے اور اِس کے نتیجے میں مزید بہت سے دھڑن تختے ہوسکتے ہیں۔

شام میں بشار انتظامیہ کے زوال نے پورے خطے کو نئی اور خاصی پریشان کن تبدیلیوں کی دہلیز تک پہنچادیا ہے۔ یہ سب کچھ دی گریٹ گیم کے مرکزی کھلاڑیوں کے لیے نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں۔ امریکا یورپ محض تماشائی بنے نہیں رہ سکتے۔ یورپی یونین اس حوالے سے خاصی پریشان ہے کیونکہ فرانس کا سیاسی بحران معاملات کو بگاڑ رہا ہے۔ جرمنی بھی پوری طرح سیاسی استحکام سے ہم کنار نہیں۔ پورے یورپ میں انتہائی دائیں بازو کی ذہنیت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔ امریکا سے نفرت اور بیزاری کا تاثر بھی پایا جاتا ہے۔ یورپ کے بیشتر قائدین ہر معاملے میں امریکا کا ساتھ دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ وہ اپنی مجبوریوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ امریکا کے پیچھے پیچھے چلنے کی صورت میں وہ کسی کھائی میں بھی گرسکتے ہیں۔ امریکا جو کچھ بھی کرتا ہے صرف اپنے مفادات کے تحت کرتا ہے۔ اُسے اصلاً تو یورپ سے بھی کچھ غرض نہیں۔ یورپ اُس کے لیے اُسی وقت تک اہم ہے اور کام کا ہے جب تک وہ امریکی پالیسیوں کی تکمیل کے لیے کام کا ہے۔ اگر یورپ اصولی موقف اختیار کرنے کی روش پر گامزن ہوا تو امریکا کے لیے اُسے ساتھ رکھنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ یوکرین کی جنگ اِس کی ایک اچھی مثال ہے۔ امریکا اور یورپ میں سے کسی نے بھی روس سے براہِ راست ٹکرانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ایسا کرنے کا شاید سوچا بھی نہیں۔ یوکرین کو برباد ہونے دیا گیا ہے اور تھوڑی بہت مدد کے ذریعے اُس کے آنسو پونچھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

یوکرین جنگ
یہ سال بھی یوکرین کے لیے انتہائی نوعیت کی خرابیوں سے آلودہ رہا۔ روس کی طاقت کم ہوچکی ہے مگر یوکرین کی طاقت تو بہت ہی کم بلکہ برائے نام رہ گئی ہے۔ امریکا اور یورپ پشت پناہی کے لیے موجود نہ ہوں تو یوکرین کے لیے سنبھلنا کسی بھی اعتبار سے ممکن نہ رہے۔

روس بھی جانتا ہے کہ اُس کے لیے یوکرین کو اب زیادہ مدت تک دبوچے رکھنا آسان نہ ہوگا۔ یہ جنگ چونکہ اُس نے شروع کی تھی اس لیے وہ خود ختم بھی نہیں کرسکتا۔ بات چیت بھی اب تک شروع نہیں ہوسکی ہے۔ کسی بھی بڑی طاقت نے اب تک روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات کا ڈول نہیں ڈالا ہے۔ امریکا بھی اس معاملے میں دور دور رہا ہے۔ وہ شاید یہ چاہتا ہے کہ یوکرین کے کاندھے پر بندوق رکھ کر روس پر فائرنگ کی جاتی رہے۔ یوکرین کو دور مار میزائل دے کر امریکا نے روس کے لیے انتہائی درجے کی مشکلات پیدا کی ہیں۔ ایسے میں روس کی طرف سے بھی کسی نہ کسی انتہائی نوعیت کے اقدام کا خدشہ بے بنیاد نہیں۔ امریکا بھی جانتا ہے کہ موقع ملتے ہی روس اپنی چال چل سکتا ہے۔ اس کے باوجود امریکی قیادت یوکرین جنگ کو جاری رکھ کر روس کے لیے مستقل نوعیت کا دردِ سر یقینی بنانے کی خواہش مند ہے۔

حصہ