آخر شب کے ہم سفر

58

’’کاش میں اسے سمجھا سکتی کہ اس کا سامنا کرنے کی مجھے ہمت کیوں نہ پڑتی تھی۔ شاید اسے بھی تھوڑا بہت اندازہ ہوگیا تھا۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ قصور میرا بالکل نہ تھا۔ اس کی نسبت ٹوٹنے کے بعد ریحان مجھ سے ملے تھے۔ بہرحال حالات پر انسان کا بس نہیں۔ میں تقدیر کی قائل ہوچکی ہوں۔ شاید جہاں آراء بھی تقدیر کی قائل ہوگی۔ اور جس وقت پارٹیشن ہوا جہاں آراء دیناج پور میں تھی، میں اس سے کس طرح مل سکتی تھی! گو ہم لوگ سن اڑتالیس تک ڈھاکہ میں رہے… بابا کے ایک مریض مترا بابو تھے، اُن کی بیوی بابا سے اُدما رائے کی شادی کی بات چیت چلا رہی تھیں۔ مترا بابو کلکتے کے کسی مسلمان سے اپنا مکان ایکس چینج کرکے پارک سرکس کلکتہ چلے گئے تھے۔ سرپری توش رائے کا خاندان بھی جاچکا تھا… ووڈ لینڈز میں ایسٹ پاکستان گورنمنٹ کا کوئی دفتر بن گیا تھا۔ پارٹیشن سے ان بڑے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ لیڈی رائے اطمینان سے ڈھاکہ آکے ووڈ لینڈز کا کرایہ وصول کرتیں۔ پرانے دوستوں کے ساتھ ڈھاکہ کلب میں اپنی شامیں گزارتیں اور واپس چلی جاتیں۔ کلکتے میں وہ لوگ نرملیندو کے پاس بالی گنج میں مقیم تھے۔ نرملیندو کلائیورو کا بڑا کاروباری تھا۔ بے حد شراب پیتا تھا اور کنفرمڈ بیچلر تھا۔

اب مترا بابو نے کلکتے سے بابا کو لکھا کہ وہ فوراً وہاں آجائیں۔ کھوکھو پہلے ہی ویسٹ بنگال جا چکا تھا۔ اور شیاما پرشاد مکرجی کا ورکر بن گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ سیکنڈ کلاس شہری بن کر ایسٹ پاکستان میں نہیں رہے گا۔ بالکل یہی بات انڈیا سے آنے والے مسلمان وہاں کے لیے کہہ رہے تھے۔ آخر ایک روز بابا رکشا پر بیٹھ کر ارجمند منزل نواب قمر الزماں سے مشورہ کرنے گئے۔ انہوں نے کہا: ہرگز مت جائو۔ یہاں ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ہندو ڈاکٹر سب جارہے ہیں، تمہاری پریکٹس چمک جائے گی۔ بابا نے کہا: لیکن میرے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ چندر کنج ایک بہاری مسلمان کے ہاتھ اونے پونے بیچ کر ہم لوگ کلکتے روانہ ہوگئے۔ رخصت کرتے وقت نواب قمرالزماں اور عبدالقادر کوچوان بہت روئے۔ بے چاری جہاں آراء دیناج پور میں تھی۔

گوالندو گھاٹ پر اسٹیمر کے فرسٹ کلاس ڈیک پر چارلس بارلو اکیلا ایک کونے میں بیٹھا بیئر پیتا نظر آیا۔ بڑا علامتی منظر تھا۔ معلوم ہوا انگلستان واپس جانے کے بجائے آسٹریلیا جارہا ہے، وہاں فارمنگ کرے گا۔

سیالدہ اسٹیشن پر پہنچ کر ہم لوگ سیدھے مترا بابو کے ہاں گئے۔ بابا نے دوستی کی وجہ سے برسوں ان کا مفت علاج کیا تھا۔ مترا بابو مزے میں تھے۔ بزنس شروع کررکھا تھا۔ کسی تارک الوطن مسلمان سے تبادلے میں لیا ہوا بڑا سا مکان تھا۔

مترا بابو نے نہ جانے کس طرح یہ طے کرلیا تھا کہ بابا اُدما رائے پر عاشق ہوگئے ہیں۔ لیڈی رائے بھی چاہتی تھیں کہ اُدما کسی سے بھی جلد از جلد شادی کرلیں۔ اور ریحان کے FIXATION سے آزاد ہوں۔ ریحان بھی شہر میں موجود تھے۔ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ نیا نیا پارٹیشن ہوا تھا، کمیونلزم بہت شدید تھا۔ ریحان سے دوستی کی افواہ کی وجہ سے اپنی ساری دولت کے باوجود اُدما دیبی کے لیے رشتے مفقود تھے۔ نرملیندو بھی بہت پریشان تھا۔ وہ ایک پکا سرمایہ دار.. بہن کے سیاسی رجحانات سے ہمیشہ نالاں تھا۔ اب اس نے بھی اُدما پر شادی کے لیے زور ڈالا۔ آخر ایک روز اُدما دیبی خود ہی آکر ہڑبڑاہٹ میں بابا سے کہہ گئیں کہ وہ ان سے بیاہ کرلیں گی۔ شاید ان کی اسکیم یہ بھی رہی ہو کہ بیاہ کے بعد شوہر کی موجودگی میں ریحان سے ملنا جلنا اتنا قابل اعتراض نہ سمجھا جائے گا۔

میرے بابا بہت سادہ لوح ہیں۔ وہ کسی انسان کو بُرا سمجھ ہی نہیں سکتے، مگر اُدما کے وہ بھی مداح نہ تھے۔ اس کے باوجود، چونکہ اپنی جگہ سے اکھڑ چکے تھے، اور کسی جذباتی سہارے کے متلاشی تھے، اور اُدما دیبی ان کو بھی خوب FLATTER کررہی تھیں۔ مترا بابو جو شادی کی گفت و شنید ڈھاکے کے زمانے سے چلا رہے تھے بڑے کائیاں بزنس مین تھے۔ بابا، رائے خاندان کے داماد بن جائیں تو اُن کے ذریعے وہ نرملیندو رائے سے اپنے دسیوں کام نکلوا سکیں گے کیونکہ نرملیندو اتنا ’’برائون صاحب‘‘ اور بد دماغ مغرور آدمی تھا کہ کوئی نتھو خیرا اس کے پاس پھٹک ہی نہ سکتا تھا۔

میں حیرت سے یہ سارا ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔ اصول پرست بابا نے مجھ سے ریحان کے بارے میں کبھی ایک لفظ نہ پوچھا تھا۔ ادما دیبی سے میں بات ہی نہیں کرتی تھی۔ بڑے شدید تنائو میں وقت گزر رہا تھا۔

اب دیکھو کلاس کی پیدائشی خر دماغی کبھی جاتی نہیں۔ اُدما پرانی ’’فیلوٹریولر‘‘ تھیں۔ بابا سے شادی کرنے والی تھیں مگر ہمارے کنبے سے اس طرح کا برتائو کرنے لگی تھیں جیسے ہم غریب ریفیوجی لوگ ان کے محتاج کرم تھے۔

میں نوکری کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ بابا مطب جمانے کی فکر میں تھے۔ چندر کنج کی قیمت کا روپیہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا تھا۔ شونو اور ٹُونُو آوارہ گردی کرنے لگے تھے۔ مترا بابو کے گھر پر رہتے ہم لوگوں کو تقریباً ایک سال ہوگیا۔ اب مسز مترا نے پشی ماں سے لڑنا شروع کردیا۔ بھوتارنی دیبی گوڈ بلیس ہر… خود ایک لڑاکا خاتون.. گھر میں روز کھٹ پٹ ہونے لگی۔ میں گھبرا کر باہر نکل جاتی۔ ریڈیو پروگراموں سے ذرا سی آمدنی ہوجاتی تھی، باقی وقت میں میوزیم یا کسی لائبریری میں گزارتی۔ مترا بابو کے گھر واپس جاتے مجھے وحشت ہوتی تھی۔ اور اس چیز سے اور زیادہ کوفت ہوتی کہ ریحان اسی شہر میں موجود ہیں اور ان کو معلوم ہے کہ میں کس حال میں ہوں۔ ایک بے روزگار ریفیوجی۔

ایک صبح میں وکٹوریہ میموریل میں گھوم رہی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے میں ٹیپو سلطان کے بیٹے عبدالخالق کے پورٹریٹ کے نیچے کھڑی جانے کیا کیا سوچ رہی تھی۔ سراج الدولہ، کلائیو کارنوالس، ٹیپو، تیتو میر… اچانک ادما دیبی کی آواز سنائی دی۔ پلٹ کر دیکھا وہ کسی انگریز کے ساتھ وہاں موجود تھیں۔ مجھے اس سے ملوایا۔ وہ ان کا لندن کا کوئی پرانا ہم جماعت تھا۔ کلکتہ آیا ہوا تھا۔ اسے سیر کرا رہی تھیں۔ پھر انہوں نے نہایت بلندی سے میرا تعارف کرایا… مِس دیپالی سرکار… میرے بھائی نرملیندو رائے کی پرسنل اسسٹنٹ۔

میں ہکّا بکّا ان کی شکل دیکھنے لگی۔ غصے کے مارے میرا بھیجا آئوٹ ہوگیا۔ میں نے فوراً کہا ”معاف کیجیے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں کسی مسٹر نرملیندو رائے کی پی اے نہیں ہوں۔“

اُدما دیبی نے جو اُس وقت وکٹوریہ میموریل کے اندر انگریز دوست کے ساتھ بڑی شان سے کھڑی تھیں، مجھے گھور کر دیکھا، اور اسی برطانوی ڈچز کے سے انداز میں کہا ”اس کے متعلق ہم پھر بات کریں گے۔“

انگریز بہت مہذب ہوتا ہے۔ وہ اس غیر متوقع مچیٹے سے خاصا نادم نظر آیا۔ میں لال پیلی ہوکر وہاں سے ہٹ گئی۔

اسی روز شام اُدما رائے مترا بابو کے ہاں پہنچیں۔ میں باہر چبوترے پر کھڑی تھی۔ انہوں نے موٹر سے اُترتے ہی مجھے پھٹکارنا شروع کیا: ”تم.. تم کو میرے انگریز دوست کے سامنے مجھے جواب دینے کی ہمت کیسے ہوئی؟“

’’آپ حد سے آگے بڑھ رہی ہیں اُدما دیبی“۔ میں نے جواب دیا۔

’’حد سے تم آگے بڑھ چکی ہو.. احسان فراموش۔ تم پہلی تاریخ سے نرملیندو کے آفس میں کام کرو گی۔ تمہاری جیسی ریفیوجی لڑکیوں سے کلکتہ پٹا پڑا ہے۔ ہر چوتھی بنگالی لڑکی تمہاری طرح گاتی ہے۔ تم عجوبہ روزگار نہیں ہو۔ یہاں تم کو کوئی ویسٹ بنگال کا گورنر نہیں بنادے گا۔ شکر کرو کہ میں نے نرملیندو کے دفتر میں تمہاری ملازمت کا بندوبست کردیا۔“

’’اگر آپ سمجھتی ہیں کہ میں آپ کے شرابی، بدمعاش، بددماغ بھائی کی سیکرٹری بننا قبول کروں گی تو آپ بہت سخت غلطی پر ہیں اُدما دیبی“۔ میں نے اب ذرا سکون سے جواب دیا۔

’’میں تمہارے باپ سے بات کرتی ہوں…“ انہوں نے پیر پٹخ کر کہا۔

’’کرلیجیے…“ میں نے جواب دیا۔

بابا اور مسٹر مترا گھر پر موجود نہ تھے۔ پشی ماں کالی گھاٹ گئی ہوئی تھیں۔ مسز مترا کان لگائے اندر سے یہ سارا مکالمہ سن رہی تھیں۔ اُدما دیبی اُلٹے پائوں واپس گئیں۔ جب بابا گھر آئے تو مسز مترا نے یہ سارا قصہ نمک مرچ لگا کر اُن کو سنایا۔ بابا نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ رات کے کھانے کے بعد وہ نزدیک میدان میں ٹہلنے جاتے تھے۔ کھانے کے بعد مجھے آواز دی۔ میں باہر چبوترے پر آئی۔ اس رات میں اُدما کے جانے کے بعد کمرہ بند کرکے بہت روئی تھی۔ بابا نے کہا ”دیپالی ہمت سے کام لو۔“

’میں نے کہا ”بابا کیا آپ واقعی اس خوفناک عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟“

وہ چپ رہے۔ میں نے کہا ”کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں نرملیندو رائے کی پرسنل سیکرٹری بنوں؟“

علاوہ ازیں سرپری توش اُدما دیبی کے لیے علیحدہ کوٹھی بنوا رہے ہیں۔ وہ وہاں رہیں گی۔ ریحان بھی وہاں آیا کریں گے۔ میں ریحان کی ساری عمر شکل نہیں دیکھنا چاہتی۔ یہ کیسی ہولناک صورت حال ہے۔“ پھر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس روز میں نے پہلی بار بابا کے سامنے ریحان کا نام لیا تھا۔

بابا چند منٹ خاموش رہے، پھر بولے ”چلو ہم اس ملک کو ہی خیرباد کہتے ہیں۔“

’’واپس ڈھاکہ…؟“ میں نے پوچھا۔

’’نہیں، ٹرینیڈاڈ۔ مُکل کا خط آیا تھا، جس میں اس نے لکھا ہے کہ اگر میں وہاں آنا چاہوں تو وہ میرے لیے وہاں انتظام کرسکتا ہے۔ کسی بھی پلانٹیشن پر میڈیکل آفیسر کی جگہ مل سکتی ہے۔“

بابا کے ایک چچا زاد بھائی مدتیں گزریں ڈھاکہ سے پورٹ آف اسپین چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر تھے، وہاں بہت پیسہ کمایا۔ ایک مرتبہ وطن آئے تو چندر کنج آئے تھے۔ بڑھیا سُوٹ، ہوانا سگار۔ میری ماں زندہ تھیں، انہوں نے جھینپ جھینپ کر گھر کا افلاس چھپاتے ہوئے ان کی میزبانی کی تھی۔ اب میں نے بابا سے کہا ”مگر آپ اب اُدما دیبی کو کس طرح SHAKE OFF کریں گے؟“

بابا ہنس پڑے، کہنے لگے ”میں ان سے کہوں گا شادی کے بعد وہ میرے ساتھ ٹرینیڈاڈ چلیں۔ وہ انکار کریں گی۔ قصہ ختم ہوجائے گا‘‘۔

ایسا ہی ہوا۔

چندر کنج کی قیمت کا جو روپیہ باقی بچا تھا اس سے جہاز کے پانچ ٹکٹ خریدے گئے۔ بابا، پشی ماں، میں، شُونُو، ٹونو… بہت لمبا بحری سفر کرکے ہم لوگ یہاں پہنچے۔ کھوکھو آنے پر راضی نہ ہوا۔ وہ مہاسبھائی لیڈر بنتا جارہا تھا اور آر ایس ایس میں شامل ہوچکا تھا۔

ازدواجی زندگی کا آرام جو پندرہ برس بعد ان کو دوبارہ حاصل ہوسکتا تھا شاید بابا نے میری وجہ سے اس کی قربانی دی۔ پشی ماں مجھ سے بہت خفا تھیں کہ گھر آئی لکشمی کو واپس کردیا‘‘۔

’’ارے وہ لکشمی تھی کہ وبالِ جان…‘‘ یاسمین بولی۔ ’’آپ سب کی زندگی اجیرن کردیتیں‘‘۔

’’یہاں پہنچ کر میں نے پشی ماں کو سمجھایا کہ اشنان کریبین میں بھی ہوسکتا ہے۔ مہا کالی ہر جگہ ہے۔ مندروں کی یہاں کمی نہیں۔

یہاں سوشل رسوم انیسویں صدی کے ہندوستان کی رائج ہیں۔ ہنومان جی کے مندروں میں پوجا کے بعد لوگ باگ چوراہوں پر آکر فیسٹا کرتے ہیں اور کلپسوڈانس۔ شونو کو سان فرنینڈو میں نوکری مل گئی ہے۔ ٹونو وینزویلا چلا گیا ہے۔

للت سین سے میری شادی یہاں پہنچنے کے دوسرے برس مُکل چاچا نے طے کروا دی، اور میں بڑے اطمینان سے مسز سین بن گئی۔ للت یہاں کے کامیاب ترین بیرسٹر ہیں۔ پہلی بیوی اسپینش نژاد اور بے اولاد تھی اسے عرصہ ہوا طلاق دے دی۔ شریف آدمی ہیں۔ میں کافی خوش ہوں۔ بابا اور پشی ماں ہمارے ساتھ بطور P.G رہتے ہیں۔ بابا کے مطلب کے لیے دیکھو للت نے کیسا خوبصورت ٹری ٹاپ ہائوس بنوا دیا ہے‘‘۔

یاسمین نے ذرا تعجب سے دیپالی کو دیکھا۔ کچھ لمحے خاموش رہی اور بولی ’’اس کا مطلب ہے جہاں آراء آپا بھی اپنے دیناج پور کے رئیس کے ساتھ خوش ہوں گی؟‘‘

’’شاید‘‘۔

’’یہ مجبوریوں سے سمجھوتہ ہے یا سچی خوشی؟‘‘

’’معلوم نہیں‘‘۔

ایک طویل امریکن کار پھاٹک میں داخل ہوئی۔ اسے وردی پوش نیگرو شوفر ڈرائیور کررہا تھا۔ بھاری بھرکم اور کم رو للت سین بریف کیس سنبھالے کار سے برآمد ہوئے اور رین ٹری کی سمت آئے۔

ڈاکٹر بنوئے چندر سرکار ٹری ٹاپ ہائوس کی سیڑھیاں اُترے۔ وہ چاروں باتیں کرتے اسپینش کولونیل بنگلے کی طرف چلے گئے۔ اندر ڈائننگ روم میں نیگرو بٹلر لنچ کے انتظام میں مصروف تھا۔ یاسمین طویل برآمدے میں سے گزرتی ڈرائنگ روم میں چلی گئی۔ اس نے دریچے سے باہر جھانکا۔ بھوتارنی دیبی ایک درخت کے نیچے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہل ہل کر مالا جپ رہی تھیں۔ سامنے پالتو خرگوش اور اعلیٰ نسل کتے دوڑتے پھر رہے تھے۔ نہایت پُرسکون منظر تھا۔ یاسمین دریچے سے ہٹ کر وسیع ڈرائنگ روم میں اِدھر سے اُدھر بیش قیمت سامانِ آرائش دیکھتی پھری۔ ایک بڑے اونچے گراموفون کے نزدیک دیپالی سرکار کے پرانے ریکارڈ رکھے تھے۔ یاسمین نے کوک بھر کے بھونپو والا ایک ریکارڈ گراموفون پر لگایا۔ سوئی کہیں بیچ میں پڑ گئی۔ اچانک دیپالی کی آواز بلند ہوئی: کوئی کہے کانو… کوئی کہے گورد۔ لیو ہے… لیو ہے۔ بجنا ڈھول۔

(جاری ہے)

حصہ