جان تمنا

150

غزوۂ خیبر میں جیسے ہی آنحضرتؐ نے یہ فرمایا کہ ’’آج میں یہ جھنڈا اُس شخص کو دوں گا جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت ہے، اور اللہ اس کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائے گا‘‘۔ یہ سنتے ہی ہر صحابی کا دل اس جھنڈے کو پانے اور اٹھانے کے لیے بے تابانہ دھڑکنے لگا اور للچائی ہوئی ہزاروں معصوم نظریں اس پر جم کر رہ گئیں جو اُس وقت دو عظیم خصوصیات کے ساتھ دستِ رسولؐ میں لہرا رہا تھا، ایک یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کا نشان ہے، اور دوسرے یہ کہ اس جھنڈے کو اٹھانے والے کے ہاتھ پر اسلام کو فتح و کامیابی کی سربلندیاں حاصل ہونے والی ہیں۔

درحقیقت صرف یہی ’’دو خصوصیات‘‘ ہوسکتی ہیں جن میں ایک مومن کے لیے بہترین اپیل، ایک بہترین کشش ہوسکتی ہے۔ یہی دو چیزیں ہیں جو مومن کے پورے قلب اور پوری دنیائے آرزو کو گھیرے ہوئے ہوتی ہیں اور ہوتی تھیں۔ صحابہؓ کے قلوب میں اس وقت انھی دو تمناؤں نے زبردست مگر حسین ترین اضطراب پیدا کردیا تھا۔ وہ سب اس جھنڈے کے لیے سراپا نگاہ اور مجسم طلب بنے ہوئے تھے۔ کوئی بھی اس جھنڈے کو اس لیے نہیں چاہ رہا تھا کہ اس کے ذریعے علَم برداری اور سیادت کا اعزاز حاصل ہوجائے۔ کوئی بھی اس جھنڈے سے اس لیے دور بھاگنے کو تیار نہ تھا کہ اس کو اٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ خطرۂ عظیم بھی آئے گا کہ میدانِ جنگ میں دشمن کی سب سے زہرناک نظریں علَم برداری پر ہوا کرتی ہیں۔ نہ ان کو دنیا سے محبت تھی اور نہ موت سے وحشت، اور نہ زندگی کے طول کی آرزوئیں۔ کیسے خوش نصیب تھے ہمارے وہ بھائی! جن کے قلوب ان دونوں مہلک فتنوں سے پاک و صاف تھے جن کو آنحضرتؐ نے آنے والے زمانے کے سلسلے میں ’’حُبِّ دنیا اور کراہیتِ موت‘‘ کے ناموں سے یاد کیا تھا۔ کیسے دکھیا رہے ہیں وہ بھائی ہمارے، کہ جن کے روح و دل ان فتنوں کی لپیٹ میں ہیں۔ جن کے ایمان کو ان دونوں ناگوں نے ڈسا ہے اور ڈس رہے ہیں، مگر پھر بھی نہ جانے کیوں وہ ان ناگوں کو مارنے کی کوئی خواہش رکھتے ہیں نہ کسی کو مدد کے لیے نزدیک آنے دیتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف محسوس کرتے ہیں! کیا ایسے لوگ ختم ہوچکے؟ کیا ان کے ایمان کی جان نکل گئی؟

اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت اور اسلام کی فاتحانہ پیش قدمی کی دو تمنائیں ایک معیاری مسلمان کے دل میں کس قدر شدید ہوا کرتی تھیں، اس کا اندازہ کرنا ہو تو چشم تصور کو ذرا خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ کی طرف پھیریے۔ دیکھیے وہ غزوۂ خیبر کے اس تاریخی مقام پر ’’امارت‘‘ کی آرزو کررہے ہیں، حالانکہ ’’امارت‘‘ ان کے لیے وہ شے تھی کہ خدا کے سامنے اس کے سلسلے کی جواب دہی کا خطرہ مول لینا ان کے نزدیک اپنی گردن کٹوا دینے سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور خطرناک تھا۔ یہی تو وہ عمرؓ ابنِ خطاب تھے جن کو اس جواب دہی اور ’’حبط اعمال‘‘ کے جان لیوا خوف نے ایک دن زمین پر لٹا ہی دیا تھا۔ چلتے چلتے وہ رکے تھے۔ صحرا کی خاموشی میں سنگریزوں کے فرش پر چادر ڈال کر چت لیٹ گئے تھے اور آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر اور ہاتھ پھیلا کر ’’آسمان والے‘‘ کو اس طرح پکارا تھا:

’’خداوند…! اب میں بوڑھا ہوگیا اور قویٰ جواب دے گئے اور میری رعایا ہر جگہ پھیل گئی۔ پس مجھ کو اس حال میں دنیا سے اٹھا لے کہ میرا کیا دھرا اکارت نہ چلا گیا ہو، اور میرا قدم حد سے آگے نہ نکلا ہو…‘‘

اور… زمین والوں سے ایک دن انھوں نے یہ کہا تھا کہ ’’اگر کوئی دوسرا شخص خلافت کے اس بار کو اٹھانے کی قوت رکھتا تو مجھ پر یہ بہت زیادہ آسان تھا کہ میں آگے بڑھ جاؤں اور میری گردن مار دی جائے‘‘۔

مگر اس دن وہ بھی ’’امارت‘‘ کی آرزو کررہے تھے۔ اس جھنڈے کے لیے سراپا سوال و شوق بنے ہوئے تھے! کس قدر شدید ہوتی ہے وہ محبت جو ایک مومن کو خدا اور اس کے رسولؐ سے ہوتی ہے اور غلبہ اسلام سے ہوتی ہے!! آؤ لوگو! ہم بھی اپنے سینوں میں جھانک کر دیکھیں کہ وہاں کیا حال ہے اور کون سی آرزوئیں موجزن ہیں؟

اور بات یہ بھی نہیں کہ مومن کی یہ دو تمنائیں اسی وقت سامنے آسکتی ہیں جب کہ حضورؐ اپنی حیاتِ ظاہری کے ساتھ سامنے جلوہ افروز ہوں۔ سقیفہ بن ساعدہ میں حضرت زیدؓ بن ثابت نے جو کچھ کہا اور جو کچھ کیا اس سے تو یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ وفاتِ رسولؐ اور حیاتِ رسولؐ کے فرق سے مومن کی آرزوؤں میں کوئی فرق نہیں واقع ہوتا۔ اس دن حضورؐ کا جسدِ اطہر بظاہر قطعاً بے حس و حرکت ہوچکا تھا۔ آپؐ کا جنازہ حجرۂ عائشہؓ میں تھا اور سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ نازک سے نازک شکل اختیار کرتا چلا جارہا تھا۔ اچانک زیدؓ بن ثابت کے سینے سے مومن کی ان دو آرزوؤں کا نورانی چشمہ پھوٹ نکلا اور وہ مسئلہ جو وفاتِ رسولؐ کے ساتھ اسلام کی وفات کا خطرہ بنا جارہا تھا، اچانک حل ہوگیا۔ ثابت کے بیٹے زیدؓ کی پکار یہ تھی:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجر تھے۔ اس لیے خلیفہ بھی مہاجر ہی ہوگا۔ ہم جس طرح آپؐ کے انصار تھے، اسی طرح آپؐ کے خلیفہ کے بھی انصار رہیں گے‘‘۔

جب تک یہ دو جذبات اور یہ دو تمنائیں مسلمان کے سینے میں موجزن رہیں، امت کے تمام مسائل حل ہوتے رہے، مگر اب مسائل کے الجھاؤ کا اصل سبب یہی ہے کہ مومنین کے سینے اب ان دو آرزوؤں سے خالی ہوتے جا رہے ہیں؟ اللہ اور رسولؐ کی محبت اور غلبہ اسلام کی آرزو کے دعوے تو ابھی تک زندہ ہیں مگر ثبوت بس کبھی کبھی اور کہیں کہیں ہی نظر آتا ہے۔ عبدالقادر عودہ، حسن البنا، سید قطب، عبدالفتاح اسماعیل اور یوسف مواشی رحمتہ اللہ علیہم بہت کم اور بہت بہت دیر میں سامنے آتے ہیں مگر عبدالناصر ہزاروں ہیں اور آئے دن پیدا ہوتے اور مرتے ہیں۔ اب محمدؐ کو قائد مان کر دو قدم چلنے کی اجازت مسلم ممالک میں بھی نہیں مل رہی۔ ہاں ’’فرعون‘‘ کو قومی ہیرو ماننے اور منوانے کی کھلی چھوٹ ہے، کتنا چھوٹا سا سوال ہے مگر کتنا بڑا سوال ہے: کیا ہم مسلمان ہیں؟

اس سوال سے ہمیں دلچسپی ہو یا نہ ہو مگر اس سوال کو ’’ہم‘‘ سے پوری دلچسپی ہے۔ اس سے ہمیشہ دور بھاگنا بھی ممکن نہیں۔ آج ہم اسے نظرانداز کرسکتے ہیں مگر قبر اور حشر میں اس کا سامنے آنا بالکل یقینی ہے۔ یہ دنیا پیٹھ پھیرے بھاگ رہی ہے اور قبر منہ کھولے اور آخرت ہماری طرف منہ کیے بھاگی چلی آرہی ہے۔ آخر کتنی دیر ہم اس سوال کو اور زیادہ ٹال سکیں گے؟

ہاں… وفاتِ رسولؐ کے بعد حقیقی مسلمانوں کے دل میں ان دو عظیم تمناؤں اور جذبات میں ایک تبدیلی ضرور پیدا ہوئی تھی، ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے۔ حضورؐ کی وفات کے بعد دنیا میں ’’تاریکی‘‘ بڑھتی ہوئی محسوس کرکے مسلمان کی ایک خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ جلد سے جلد اِس دنیا سے رخصت ہوکر اُس دنیا میں حضورؐ سے جا ملے، اور دوسری خواہش یہ ہوا کرتی تھی کہ ہم حضورؐ کے بعد زندہ رہیں اور وہ صرف اس لیے کہ جس طرح حضورؐ کی زندگی میں ان کی تصدیق کی تھی اسی طرح وفات کے بعد تصدیق کی جائے۔ جس طرح حضورؐ کے سامنے اسلام کے غلبے کے لیے سعی و جہد کا حق ادا کیا تھا اسی طرح حضورؐ کے پیچھے حضورؐ کے دین کو سربلند کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی جائے۔

لیکن یہ خواہش ہرگز مومنانہ نہیں کہ ہم دنیا میں اس لیے دیر تک زندہ رہیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی ہم سے چھٹتی نہیں اور اس کے ہولناک عواقب اور اخروی سزاؤں کا انکار بھی ہم سے نہیں ہوتا۔ لذتِ گناہ اور حسرتِ ثواب کے لیے زندہ رہنا ہرگز مومنانہ بات نہیں ہے۔

آئیے سوچیں تو سہی کہ ہمارے اندر کیا ہورہا ہے؟

حصہ