سید ضمیر حسین جعفری اردو ادب کا وہ معتبر نام ہیں، جنہوں نے اپنی بے ساختہ مزاح نگاری اور منفرد شاعری سے قارئین کو نہ صرف محظوظ کیا بلکہ زندگی کے سنجیدہ مسائل کو بھی ہلکے پھلکے انداز میں اجاگر کیا۔ ان کا تعلق ضلع جہلم کے ایک گاؤں چک عبدالخالق سے تھا، جہاں وہ یکم جنوری 1916ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے خانوادے کی روحانی اور علمی روایتوں نے ان کی شخصیت اور شعری مزاج پر گہرے اثرات ڈالے، جو اُن کے تخلیقی کام میں جھلکتے ہیں۔
ضمیر جعفری کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک مدرسے میں ہوئی، جس کے بعد انہوں نے جہلم، اٹک، اور لاہور سے تعلیم مکمل کی۔ بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا اور زمانہ طالب علمی ہی سے لکھنے کا آغاز کردیا۔ 35 روپے ماہانہ پر روزنامہ ’’احسان‘‘ سے صحافت کا آغاز کیا، اور بعد ازاں چراغ حسن حسرت کی زیر ادارت ’’شیرازہ‘‘ میں معاون مدیر کے طور پر کام کیا۔
ضمیر جعفری نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں صحافت، فوج، اور سول سروس کے شعبوں میں خدمات انجام دیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران وہ برطانوی ہند کی فوج میں شامل ہوئے اور جنوب مشرقی ایشیا کے محاذ پر تعلقاتِ عامہ کے شعبے سے وابستہ رہے۔ جنگ کے بعد پاکستان واپس آگئے اور 1948ء میں کشمیر کی جنگ میں عسکری خدمات انجام دیں۔ 1952ء میں فوج میں دوبارہ شمولیت اختیار کی اور میجر کے عہدے تک پہنچے۔
انہوں نے راولپنڈی سے روزنامہ ’’بادشمال‘‘ جاری کیا اور 1951ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ بعد میں دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے، نیشنل سینٹر، اور وزارتِ بحالیاتِ افغان مہاجرین میں اہم عہدوں پر کام کیا۔
انہوں نے مزاحیہ شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ان کا کلام برجستگی، سادگی، شائستگی، اور شگفتگی کا مرقع ہے۔ ان کی شاعری نے طنز و مزاح کو فقرے بازی اور لطیفہ سازی سے نکال کر ایک بلند مقام پر پہنچایا۔ ان کی نظم ’’کراچی کی بس میں سفر‘‘ کراچی کے ٹرانسپورٹ نظام کی عکاسی کرتی ہے اور نصاب کا حصہ رہی ہے۔ ان کے اشعار کی گہرائی اور ان کی طنزیہ نظر قاری کو دیر تک سوچنے پر مجبور کرتی ہے:
ہنس مگر ہنسنے سے پہلے سوچ لے
یہ نہ ہو پھر عمر بھر رونا پڑے
ضمیر جعفری کی شاعری میں مزاح کے ساتھ سنجیدگی اور حساسیت بھی جھلکتی ہے۔ انہوں نے جنگِ کشمیر اور 1965ء کی پاک بھارت پر نہایت خوبصورتی سے لکھا۔ ان کے کئی گیت، جیسے مسرت نذیر کا گایا ہوا مشہور نغمہ ’’میرا لونگ گواچا‘‘ آج بھی مقبول ہیں۔
ضمیر جعفری کو ان کی خدمات کے اعتراف میں کئی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں ہمایوں گولڈ میڈل (1936ء)، تمغائِ قائداعظم (1967ء)، اور صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی (1985ء) شامل ہیں۔
انور مسعود کے بقول، ضمیر جعفری مزاحیہ شاعری کا اہم نام ہیں۔ انہوں نے مزاحیہ شاعری کو ایک نیا رنگ دیا اور اپنے ہم عصروں کی تعریف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لیا۔ وہ کہتے تھے ’’ہم شاعر لوگ توپوں کے آدمی نہیں پھولوں کے آدمی ہیں، ہم قہقہوں کے سفیر ہیں‘‘۔
1999ء کے آغاز سے ہی ضمیر جعفری بیمار رہنے لگے تھے، اور 12 مئی 1999ء کو نیویارک میں وفات پا گئے۔ ان کی تدفین کھنیارہ شریف، راولپنڈی کے قریب سید محمد شاہ بخاری کے پہلو میں ہوئی۔ ان کی وفات سے اردو ادب نے ایک عمدہ مزاح نگار اور شاعر کھو دیا۔ ان کا کہنا تھا:
جوانی سے عجب رشتہ رہا ہے
بڑھاپا آگے آگے جا رہا ہے
اپنے حصے کی مسرت بھی اذیت ہے ضمیرؔ
ہر نفس پاسِ غمِ ہم نفساں رکھتے ہیں
……
ایک لمحہ بھی مسرت کا بہت ہوتا ہے
لوگ جینے کا سلیقہ ہی کہاں رکھتے ہیں
……
درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غمِ ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت
……
زاہد خودی فروش تو واعظ خدا فروش
دونوں بزرگ میری نظر سے گزر گئے
……
یہ کیسی گرما گرمی چل رہی ہے اہلِ دانش میں
نظامِ مملکت کس نے بگاڑا ہے سنوارا تھا
ہمارا ملک اگر قرضے میں جکڑا ہے تو کیا حیرت
ہمارے ملک کا تو اک وزیراعظم ادھارا تھا
nn