آرزو اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے کمرے میں کھڑکی کا شیشہ کھولے چاندنی رات کا منظر دیکھ رہی تھی۔ آج کی رات اس کی آنکھوں سے نیند ویسے ہی کوسوں دور تھی، اور کیوں نہ ہوتی، صبح اس کی منگنی کا دن تھا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے اس کے دل میں محبت کا ہر احساس حمزہ کے نام سے شروع ہوکر اُسی کے نام پر آکر ٹھیر جاتا تھا۔ زندگی کا محور ہی گویا حمزہ کی ذات بن گئی تھی۔ کہاں کون سا حصہ اور کون سی گفتگو اس کے ذکر سے خالی ہوا کرتی تھی! دوستوں کی محفل ہو یا خاندان کی کوئی تقریب… ہر دفعہ موضوعِ گفتگو حمزہ کی ہی ذات ہوا کرتی تھی۔
گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں تایازاد کزن لائبہ کی شادی پر اُس نے جو لہنگا سلوایا تھا وہ بلا کا خوب صورت تھا اور اس کے ہاتھوں میں لگی مہندی کے ساتھ کانوں میں چمکتی ہوئی جھمکیاں اس کی خوب صورتی کو چار چاند لگا رہی تھیں۔ وہ اس شام کمرے میں آئینے کے سامنے اپنا لہنگا سنبھالتے ہوئے چھوٹی بہن دانیہ سے کہنے لگی ’’دانیہ میرے گجرے کہاں ہیں؟ ان کے بغیر تو میری خوشی اور تیاری دونوں ہی ادھوری ہیں۔‘‘
لائبہ آپی کی شادی کا نجانے کتنا انتظار کیا! اسے بھی تیار ہونا تھا اور جاکر تصاویر بنوانی تھیں، کیوں کہ اس کے خیال میں اگر تیاری میں زیادہ دیر ہوگئی تو چچیاں، مامیاں اور خالائیں سب فوٹو گرافر کو موقع ہی نہیں دیں گی کہ وہ ہم بچوں کی بھی الگ سے تصاویر بنالے۔ لہٰذا وہ آرزو کو اُس کے گجرے پکڑا کر ہمیشہ کی طرح اسے چڑانے والے انداز میں یہ کہہ کر باہر نکل آئی کہ ’’آپی! جلدی تیاری مکمل کرلیجیے گا ورنہ امی سے خیر نہیں ہوگی، کہیں ایسا نہ ہو امی شادی پر لیا جانے والا اپنا اعلیٰ کوالٹی کا جوتا آپ پر ہی آزما کر دیکھ لیں کہ کتنا مضبوط ہے۔‘‘
آرزو غصیلی نگاہ سے اسے دیکھ کر رہ گئی، کیوں کہ اگر وہ اس کے پیچھے چھترول کرنے کے لیے بھاگتی تو یقینا اس کی گھنٹوں کے حساب سے خود پر کی گئی محنت ضائع ہوجاتی۔ اسے ابھی صرف ایک ہی چیز کی فکر تھی کہ وہ حمزہ کو کیسی لگے گی؟ کیا وہ اس پر سے اپنی نگاہیں ہٹا سکے گا؟ لہٰذا اپنی نازک سی کلائیوں میں گجرے پہنے خود کا آخری جائزہ لیتی، سنبھلتے سنبھلتے سیڑھیاں اترنے لگی۔
سارا گھر لائٹوں سے جگمگا رہا تھا اور وہ سیڑھیاں اترتے نیچے آئی ہی تھی کہ تائی جان نے اسے دیکھتے ہی اس کی بلائیں لینا شروع کردیں اور پُرجوش انداز میں کہنے لگیں ’’ماشاء اللہ! کتنی پیاری لگ رہی ہے میری بچی، میں قربان جاؤں۔ آج تو میں بھابھی سے بات کر ہی لوں گی کہ بس اب میری بچی کو مجھے سونپ دیں، زیادہ انتظار نہیں کرنا ہمیں، لائبہ کے فرض سے سبکدوش ہوتے ہی اپنی بیٹی کو گھر لے آؤں گی۔ میں اور حمزہ کا انتظار بھی تو ختم ہوجائے گا نا، آخر میرا بچہ کس قدر محبت کرتا ہے، اور کیوں نہ کرے، اتنی حسین اور خوب صورت بچی جو ہے ہماری۔‘‘
آرزو نے شرماتے ہوئے اپنی نگاہیں تائی جان سے چرائیں اور بھاگتی ہوئی یہ کہہ کر باہر لان میں چلی گئی ’’تائی جان! اصل میں لائبہ آپی دلہن بنی ہیں نا، تو میرا انتظار کررہی ہوں گی، میں ذرا انہیں دیکھ آؤں‘‘۔ تائی جان بھی دروازے سے داخل ہوتے مہمانوں کے استقبال میں مصروف ہوگئیں۔ ابھی آرزو باہر لان میں داخل ہوئی تھی اور اسٹیج پر اس نے قدم رکھے ہی تھے کہ لائبہ نے فوراً اسے مخاطب کرکے تنگ کرنا شروع کردیا ’’آہا محترمہ! آج تو چاند سے بھی زیادہ حسین لگ رہی ہیں، کیا خیال ہے اتنی تیاری کر آئی ہو تو اب یہیں دلہن نہ بنادیں تمہیں!‘‘
آرزو نے جواباً کہا ’’لائبہ آپی! اب بس بھی کریں، آپ سب تو حد ہی کرتے ہیں۔‘‘
ان دونوں کی گفتگو ابھی جاری ہی تھی کہ آرزو کی امی نے آکر کہا ’’جاؤ تمہیں تمہارے ابو بلارہے ہیں، اُن سے ذرا مٹھائیوں کا ٹوکرا تو لے آئو… لائبہ کے سسرال والے بارات لے کر بس آنے ہی والے ہیں، اور یہ میز دیکھو، سجی ہونے کے بجائے خالی پڑی ہے، جاؤ جلدی مٹھائی کے ساتھ سارا سامان بھی میز پر لگا آئو‘‘۔
آرزو نے کہا ’’مگر امی! لائبہ آپی کے ساتھ کون رہے گا، وہ اکیلی ہیں‘‘۔ تو اسماء بیگم نے یہ کہہ کر آرزو کو روانہ کردیا کہ ابھی میں موجود ہوں اُس کے پاس، تم جاؤ یہ کام دیکھ کر آؤ، پھر لائبہ کے ساتھ تمہیں ہی رہنا ہے‘‘۔ وہ مٹھائی کا ٹوکرا لے کر پلٹی ہی تھی کہ اس کے عقب میں کھڑا حمزہ اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ امی کی زوردار آواز سنائی دی ’’آرزو! آرزو! کہاں ہو تم؟ میں نے سامان سجانے کے لیے کہا تھا نا تم سے۔‘‘
حمزہ نے اپنے کھلتے لب دوبارہ بند کرلیے کہ اسماء بیگم اگر کچھ سن لیتیں تو دونوں کی خیر نہیں تھی، کیوں کہ ابھی باقاعدہ طور پر حمزہ کی والدہ نے آرزو کے لیے رشتہ نہیں مانگا تھا، لہٰذا آرزو اپنا لہنگا سنبھالتی اسماء بیگم کی آتی آواز کی جانب بڑھ ہی رہی تھی کہ وہ اندر داخل ہوگئیں اور حمزہ نے آہٹ سنتے ہیں خود کو دروازے کی اوٹ میں چھپالیا۔
آرزو ’’جی امی!‘‘ کہتے، مسکراتے ہوئے باہر کی جانب چل دی۔ بالآخر رخصتی ہوگئی اور لائبہ کو بھی الوداع کہنے کا لمحہ آ ہی گیا۔ آرزو کی تائی رابعہ بیگم بھی اب خود کو تنہا محسوس کرنے لگی تھیں اور وہ پہلے ہی سے چاہتی تھیں کہ لائبہ جائے تو آرزو میرے گھر بہو کی صورت میں آجائے، اور میں اسے اپنی بیٹی بنا کر رکھوں۔ مگر کسے معلوم تھا کہ اگلے لمحوں میں کیا کچھ بیتنے والا ہے۔ رخصتی کی رات ہی ہال میں جانے سے قبل رابعہ بیگم نے اسماء بیگم اور آرزو کے والد سے منگنی طے کرنے سے متعلق بات کرلی تھی اور وہ چاہتی تھیں آئندہ ہفتے میں ہی آرزو اور حمزہ کی منگنی ہوجائے تاکہ وہ رسم بھی کردیں، اس طرح آرزو کا آنا جانا بھی ہوجائے گا، اور ان کا خیال تھا کہ حمزہ کی پڑھائی مکمل ہونے میں چوں کہ ابھی وقت ہے تو آرزو کا پیر ان کے گھر میں منگنی اور گود بھرائی کی رسم سے کھلا ہوجائے گا، اور اگلے روز ولیمے کے دن آرزو کے والد اور اسماء بیگم نے انہیں رشتے کے لیے ہاں میں جواب بھی دے دیا تھا۔
آرزو کو یہ خبر فون پر لائبہ نے سنائی تھی، اور اب اگلے ہفتے آرزو کی آنکھوں میں سجے وہ خواب پورے ہونے والے تھے اور اس کے دل میں موجود جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اب سکون میں آنے والا تھا۔ مگر حقیقت کا رنگ کچھ اور ہی ہوتا ہے، اگر حقیقی محبت سے دیکھنے والی آنکھ اور دھڑکنے والا دل کسی کے سینے میں ہو تو وہ اس محبت کو کسی قیمتی خزانے کی طرح سنبھال کر رکھتا ہے اور اس کی اہلیت رکھنے والے فرد کے سپرد کرنے کے لیے صحیح وقت کا تعین کرتا ہے۔ مگر آرزو کو اس بیش قیمت خزانے یعنی اس کی محبت، اس کے جذبات اور اس کی خواہشات کا صحیح حق معلوم نہ تھا، یا شاید اسے لاعلم رکھنا اور اس جیسی کئی پھول کی کلیوں کو ان کی قدر و قیمت اور ان کا مول بتانے سے لاپروائی برتنا اس ستم گر ماحول نے اپنا فرضِ اوّلین سمجھ لیا ہے۔ جیسے دن میں پسندیدگی اور دنوں سے لمحوں میں محبت تبدیل ہوگئی یا یہ کہہ لیجیے کہ تبدیل کردی گئی، وہیں منگنی کا دن آگیا۔ سارا گھر پھولوں سے مہک رہا تھا۔ وہ بیوٹی پارلر سے تیار ہوکر حمزہ کی دلہن کے روپ میں خود کو آئینے میں دیکھتی یہی سوچ رہی تھی کہ میں اور میرا وجود اب حمزہ کے ہی نام ہے۔ سلور رنگ کے کامدار جوڑے اور پرپل رنگ کا ویلویٹ کا نازک سی نلکیوں سے جڑا ہوا سر پر سجائے ماتھے کے ایک جانب ٹیکا لگائے وہ بہت خوب صورت لگ رہی تھی، اور یقینا خاندان میں آرزو سے زیادہ خوب صورت لڑکی کوئی تھی بھی نہیں، تبھی تو حمزہ کے لیے اس کی تائی رابعہ بیگم نے اسے چنا تھا کہ ایسی من موہنی صورت والی لڑکی تو میرے بیٹے ہی کی دلہن بننی چاہیے۔ وہ اپنی آنکھوں میں ساری زندگی کے لمحوں کو حمزہ کے ساتھ ایک تصویر کی صورت میں قید کرچکی تھی اور اس محور سے باہر آنا اب اس کے لیے گھٹن کا باعث تھا۔ وہ اپنا عکس آئینے میں دیکھ رہی تھی کہ دانیہ نے دروازہ کھول کر اس سے کہا ’’آرزو آپی! لائبہ آپی آرہی ہیں آپ کو لے جانے، آپ تیار ہیں نا؟ فوٹوگرافر نیچے انتظار کررہا ہے‘‘۔ آرزو نے دانیہ سے کہا ’’ہاں میں تیار ہوں، ان سے کہو آجائیں‘‘۔ دانیہ بھاگتی دوڑتی لائبہ کو بلا لائی، اور پھر کیا تھا… ظالم سماج جو آج تک اپنی بیٹیوں کے ساتھ اور ان کی پاکیزہ زندگی کا آغاز ہونے سے پہلے ہی ان کے ایمان کو چھین لینے کا جو کردار ادا کرتا آیا ہے اسی کردار کی ادائیگی کا آغاز ہوچکا تھا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے حمزہ سے متعلق آرزو کے دل میں محبت کے جذبات بھڑکانے اور اس کی نگاہ کو فریب میں مبتلا کرنے کا کام آرزو کا پورا خاندان اور اس کی سہیلیاں کرتی آئی تھیں۔ لائبہ اسے سیڑھیوں سے نیچے لاتے ہوئے کہہ رہی تھی ’’آج تو میرا بھائی اپنے ہوش ہی گنوا بیٹھے گا، اس قدر حسین لگ رہی ہو تم کہ میں کیا بتاؤں… اُف کیا حال ہوگا حمزہ کا!‘‘ آرزو شرماتی ہوئی اس کے ساتھ چلتی چلی گئی۔ وہ اسٹیج پر پہنچی تو تائی جان بلائیں لینے کے لیے کھڑی تھیں۔ آرزو نے سیڑھیوں پر قدم رکھا ہی تھا کہ رابعہ بیگم نے حمزہ کو مخاطب کیا ’’آؤ بھئی حمزہ ہاتھ پکڑو آرزو کا، اب کیا میری بہو سے ایسا برتاؤ کرو گے!‘‘
حمزہ یہی سوچ رہا تھا کہ میرے لیے آرزو کسی سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے، اتنی خوب صورت اور دل ربا سی منگیتر ہر کسی کو تھوڑی ملتی ہے۔ اب مجھے مل گئی ہے تو خوب ناز اٹھوائوں گا۔ ہمارے یہاں تو ویسے بھی منگنی پر محرم ہی سمجھ لیا جاتا ہے، بھلا بیوی بناکر اس کی ذمہ داری اٹھانے کی مجھے کیا ضرورت! اس نے سوچتے ہوئے رابعہ بیگم کے کہنے پر فوراً آرزو کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے قریب اسٹیج پر بٹھالیا۔
سب بہت خوش اور مطمئن نظر آرہے تھے، گویا حمزہ اور آرزو اب ایک دوسرے کے لیے حلال ہوگئے ہوں، وہ خواہ اس کا ہاتھ پکڑ کر انگوٹھی پہنائے یا چمچ سے اسے کیک کھلائے، کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ سب نے اپنی نگاہ سے اسے محرم ہی تو دیکھا تھا۔
زوردار آواز میں گانے لگائے گئے تھے۔ یہ کسی مسلمان کے شایانِ شان تو نہیں تھا۔ خیر وہیں دور بیٹھی آرزو کی پھوپھی زاد کزن جو خود ایک نوجوان لڑکی تھی اور مکمل پردے میں ان کا انداز ان کی شخصیت کے پُروقار ہونے کا پتا دے رہا تھا، وہ یہ سب دیکھ کر اپنے دل میں پاکیزہ زندگی سے متعلق بہت سے سوالات کررہی تھیں کہ کیا واقعی یہ محبت ہے؟ کیا یہ سب محبت کے شایانِ شان ہے؟ اگر ہاں تو حضرت خدیجہؓ سے آپؐ کا کیا معاملہ تھا؟ کہ انہوں نے محبت کی تو پاکیزہ زندگی کی شرط پر کی، اپنے جذبات کا اظہار اس کی اصل قدر و قیمت کے مطابق کیا۔ مگر یہاں یہ سب کیا ہورہا ہے؟ انہوں نے خود کو سمجھاتے ہوئے یہ عہد کیا کہ وہ آرزو کو ضرور سمجھائیں گی کہ یہ محبت نہیں ہے، وہ تمہارا محرم نہیں ہے، اس کو تمہاری قربت کا حق حاصل نہیں ہوا ہے۔
کچھ ہی دیر میں منگنی کا اختتام ہوا اور سب خوشی کے فریب میں مبتلا اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
آئندہ ایک سے ڈیڑھ ہفتے تک مستقل بنیاد پر حمزہ کا آرزو کو باہر لے جانے کا سلسلہ چلتا رہا… کبھی کافی کے بہانے، کبھی شاپنگ، اور کبھی پکنک پر فیملی فرینڈز کے ساتھ جانے پر اصرار۔ اور آرزو تو اپنی زندگی کا سارا حق اسے دے چکی تھی۔ مستقل بنیاد پر جاری رہنے والے اس حرام سلسلے کے دوران آرزو کی پھوپھی زاد کزن نمل کو اس سے بات کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا، کیوں کہ وہ شہر سے باہر اسلام آباد میں موجود یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کررہی تھی اور وہیں ہاسٹل میں رہتی تھی۔ خیر، جس دن صبح فارم ہاؤس سے آرزو کی واپسی ہوئی اور وہ دروازے سے داخل ہورہی تھی کہ نمل وہیں چائے کا کپ ہاتھ میں لیے کھڑی تھی۔ آرزو اس سے گرم جوشی سے ملی اور کہا ’’نمل! میں ذرا چینج کرکے فریش ہو آؤں، پھر بات کرتی ہوں‘‘۔ نمل کو تو سنہرا موقع مل گیا تھا، سو وہ وہیں آرزو کا انتظار کرنے لگی۔ اب اس کے جانے کے دن بھی قریب تھے، لہٰذا وہ چاہتی تھی کہ آرزو کی نگاہوں کا منظر تبدیل کرتی ہوئی جائوں، تاکہ اُس سمیت دنیا میں موجود ہر لڑکی کو اپنے پاس محفوظ خزانے اور قیمتی متاع کو سنبھالنے کا شعور آجائے۔
آرزو فریش ہوکر نیچے اترکر آئی ہی تھی کہ اسما بیگم نے رو رو کر گھر سر پر اٹھا رکھا تھا۔ آرزو اور نمل بھاگتی ہوئی آئیں اور دانیہ کو آواز لگاکر کہا کہ جاؤ پانی لے کر آؤ امی کے لیے۔ آرزو نے دانیہ سے لے کر اسماء بیگم کو پانی پلایا اور خاموش کروانے ان کے پاس بیٹھ گئی۔ نمل بھی سرہانے بیٹھ کر ان سے دریافت کرنے لگی کہ آخر ماجرا کیا ہے، آپ کیوں رو رہی ہیں؟ تو اسماء بیگم نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ’’نمل نمل! میری آرزو… میری بچی کی زندگی برباد ہوگئی، حمزہ نے کہیں اور اپنی یونیورسٹی کی کسی لڑکی سے شادی کرلی ہے‘‘۔ یہ جملہ سننا تھا کہ آرزو کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور اسے محسوس ہورہا تھا جیسے آسمان اس پر ٹوٹ پڑا ہے۔ اس نے تو اپنی زندگی کی ہر سانس حمزہ کے نام کردی تھی، وہ تو اپنے جذبات اور اپنے دل میں موجود ہر احساس اس کے سپرد کرچکی تھی، پھر یہ اس کی زندگی میں کیا ہوگیا! یہ کیسا طوفان تھا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا! اس کے سارے خواب چکنا چور ہوچکے تھے اور آنسو اس کی آنکھوں سے بہے چلے جارہے تھے۔
نمل نے اسماء بیگم کو تسلی دی اور پانی پلا کر خاموش کروایا۔ اس کے بعد انتہائی نرمی سے آرزو کا ہاتھ تھاما اور کہا ’’آرزو! جانتی ہو محبت کیا ہے؟ تم نے محبت کا اعتبار ہی نہیں کیا، کیوں کہ تم نے کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ جو ہمارے دل میں پنپتا پیار کا احساس ہے یہ بہت خالص ہوتا ہے، اور یہ دل ہمارے رب کا گھر ہوتا ہے، یہاں کی کنجیاں حوالے کرنے کا اختیار صرف اسی کو ہے جو رب کی حدود کو پہچان کر پاکیزگی کو اپناتے ہوئے اس دل کی اور اس میں موجود محبت کی کنجیاں اپنی حوالگی میں لے لے۔ اُس وقت تک یہ احساسات اس معتبر شخص کی امانت ہوتے ہیں۔ یہ تو کسی عطر کی خوشبو کی طرح ہوتے ہیں جو اگر بوتل میں محفوظ نہ کی گئی ہو تو ضائع ہوجائے گی۔ اسی طرح اپنے دل اور اپنی نگاہوں کو بھی صرف اپنے محرم کی امانت سمجھ کر سنبھالنا ہوتا ہے، اور سب سے بڑھ کر اس قیمتی خرانے کا جو حق ہے وہ اس کی تخلیق کرنے والے کا ہے، یعنی تمہارے اور میرے رب کا۔ ہم سمجھ بیٹھتے ہیں کہ چند لمحوں کی کشش اور اس کی خوب صورتی دائمی ہے اور ہمیشہ کا حاصل ہے، جب کہ اصل محبت تو رب کی محبت ہے جو حیا یعنی حفاظت سکھاتی ہے، اپنے جذبات اور اپنے احساسات کی قدر کرواتی ہے اور اصل قدردان تو تمہارا اور میرا رب ہے نا۔‘‘
اس نے آرزو کا چہرہ نرمی سے اپنی جانب کرتے ہوئے سمجھانے والے انداز میں کہا ’’آرزو ڈیئر! تمہیں معلوم ہے کہ اُس روز جب حمزہ تمہارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر انگوٹھی پہنا رہا تھا اور پھر فوٹوگرافر جب تم دونوں کے پوز بنا رہا تھا اور کسی کو اس بات سے کوئی فرق ہی نہیں پڑ رہا تھا، اُس لمحے میں لرز گئی تھی، کیوں کہ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کسی آدمی کے سر میں لوہے کی سوئی ٹھونس دی جائے، یہ اُس کے لیے اِس سے بہتر ہے کہ وہ غیر محرم عورت کو چھوئے، جو اس کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔ یہ غیر شرعی تعلق محبت کی دلیل نہیں ہے۔ میری گڑیا! چلو اٹھو، اللہ تعالیٰ سے جاکر معافی مانگو، اس کے غضب سے زیادہ اس کی رحمت بڑی ہے، وہ تمہیں تھام لے گا بشرطیکہ سچائی سے اپنی غلطی کا اعتراف کرو اور دوبارہ نہ دہراؤ، سمجھیں۔‘‘ اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے وہ مسکرا رہی تھی۔
آرزو کے دل پر سے بوجھ اترتا گیا اور نمل کا ایک ایک لفظ گویا اس کی روح میں اترتا چلا گیا، اسے محسوس ہورہا تھا کہ کسی نے اس کی نگاہوں کے سامنے موجود طلسم توڑ دیا ہے اور اس کی نگاہ اب اصل بصارت سے آشنا ہوئی ہے۔ اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے نمل کے گلے لگ کر سچا اقرارِ محبت کیا اور اپنی غلطی پر نادم ہوکر اعتراف کیا کہ اس سوسائٹی میں رائج یہ جاہلانہ تصورات انسان سے اس کی انسانیت اور مومن سے اس کا ایمان چھین لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم اصل محبت سے ناآشنا رہتے ہیں اور ہماری نگاہ میں نامحرم بھی محرم بن جاتا ہے، ساتھ ہی شیطانیت کے مکروہ چہرے پر خوشنما خول چڑھاکر ہمارا حفاظتی حصار یعنی ہماری حیا چھین لیتا ہے، اور ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں وہ ہماری نگاہ میں ہمارا محرم تو ہوسکتا ہے مگر حقیقت میں نکاح سے ایک سیکنڈ پہلے تک وہ ہمارے لیے نامحرم ہی ہوتا ہے!