احتساب ذات

53

ایک وقت تھا جب پاکستان میں پڑوسی ملک کی فلموں اور ڈراموں کا راج جیسے خاموش وائرس کی طرح پھیل گیا تھا۔ ڈش انٹینا گھروں میں گھر کے فرد کی طرح لازم ہوگئے تھے۔ شام 6 بجے سے لگاتار جو اسٹیج شوز، بچوں کے ڈرامے، پھر سوپس کی شکل میں شیطان کی آنت کی مانند ڈراموں کا جو لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا وہ رات گئے تک جاری رہتا تھا۔ خواتین تو خواتین، مرد حضرات تک کو اس دیوانگی میں مبتلا دیکھا گیا۔ ہندی الفاظ گھروں میں بچوں کی زبان سے یوں ادا ہوتے جیسے یہ ان کی مادری زبان ہو، ایسا لگتا تھا کہ دو قومی نظریہ نام کی کوئی سوچ ہی نہ تھی جس کی بنیاد پر ہمارا ملک پاکستان وجود میں آیا تھا۔ انڈین ساڑھیاں، انہیں پہننے کے طریقہ کار، ماتھے پر سجی مختلف طرز کی بندیاں، چوڑیاں، زیور… غرض گھروں کی بناوٹ اور سجاوٹ سب پڑوسی ملک کی جھلک دکھلانے لگی۔

اس دور کے بعد وطنِ عزیز میں بہت تیزی سے لوگوں کی پسند، معیارِ زندگی اور معاشرتی اقدار کی پہچان میں ایک بے باک تبدیلی آگئی۔ جہاں اداکارائیں ہیرو سے چار فٹ دور رہ کر مکمل مناسب لباس میں ملبوس رومانوی ڈائیلاگ بولتی تھیں تو گھروں میں موجود نوجوان لڑکے لڑکیاں والدین کے سامنے وہ مناظر دیکھتے ہوئے کھسیانے ہوجاتے، اور والدین بچوں کے سامنے چور بن جاتے تھے، اب وہاں نامکمل لباس میں مقابلۂ رقص باپ، بیٹی، بیٹا، ماں اور گھر کے دیگر بزرگ شوق سے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے اور تبصرے کرتے کہ کس رقاص یا رقاصہ نے تمام رموز و اوقاف کے ساتھ پُرفارم کیا؟ کون جیتے گا؟ کون ہارے گا؟ ڈراموں میں پیش گوئیاں ہوتیں کہ کس اداکار کا افیئر کس شادی شدہ خاتون کیریکٹر سے خفیہ طور پر چل رہا ہے۔ دادی کا معاشقہ اس وجہ سے ناکام ہوا کہ عاشق کے پوتے کا عشق دادی کی نواسی سے چل رہا ہے، اس لیے دادی نے اپنی نوعمری کی محبت کی قربانی دے دی اور سارا معاشرہ بوڑھے افراد کے معاشقوں کا عادی ہوتا گیا۔

خواتین کے حقوق کا شور شرابا اس انداز سے کیا جاتا کہ لگتا جب تک ہر عورت کئی مرتبہ طلاق لے کر اتنی ہی تعداد میں شادی نہ کرلے تب تک وومن امپاورمنٹ کا تصور حرام ہے، جب تک وہ گھر کے مرد حضرات کو عدالت میں نہ گھسیٹ لے تب تک اس کا نام روشن نہ ہوگا، اور مرد کو سربراہ سے سرِِراہ لانے کا یہی عمل ہمارے معاشرے میں بھی زور پکڑتا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس زہر کا تریاق ڈھونڈا جاتا، لیکن ہوا یہ کہ زہر کے بدلے میں ایک ایسا ایٹم بم لایا گیا جس نے اسلامی و معاشرتی اقدار کی وہ دھجیاں بکھیریں جو اب سمٹتی مشکل نظر آتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں سامنے آیا ایک نیا پاکستانی میڈیا، جس نے کلین سوئپ کیا انڈین ڈراموں کو پاکستان سے، اور بدلے میں عوام کو دیا بدلے چہرے کے ساتھ انڈین ڈراموں سے بدترین بے ہودہ بے حیائی کا کلچر، جس کا مقصد صرف تماش بینوں کو اپنی طرف متوجہ رکھنا تھا۔ اُنہیں اس بات سے کوئی غرض نہ تھی کہ جو برائی کل تک دُور کے محلوں میں تھی آج وہ اسے اپنے معاشرے میں عام کررہے ہیں۔ اور وہ بھلا کیوں یہ سب سوچتے؟ انہیں تو خوشی و کامیابی میسر آرہی تھی کہ عوام جو پڑوس میں ڈھونڈ رہے تھے وہ سب کچھ اب ارضِ پاک کے ڈراما کری ایٹرز اور الیکٹرانک میڈیا انہیں خود فراہم کررہے تھے جس کے نتیجے میں تجوریاں تو بھر ہی رہی ہیں، ساتھ ہی غیر ملکی آقائوں اور ساری دنیا سے شاباشی بھی مل رہی ہے۔ انہیں کسی کے اخلاق و کردار کے بگڑنے، معاشرتی اقدار کے تباہ ہونے، نئی نسل کا مزاج بے حیائی کی طرف مائل ہونے کی کوئی فکر نہ تھی، کیوں کہ ان کو ایجنڈا یہی ملا تھا۔ اور انہیں فکر ہوتی بھی کیسے جب عوام نے ہی اپنی آنکھیں اس بے ہودہ کلچر کی طرف سے بند کررکھی تھیں! پڑوسی ملک میں مندر میں داخل ہوتے وقت خواتین عام زندگی ہو یا ڈراما، یا فلم… اپنے سر کو پلو سے ڈھانپ لیا کرتی تھیں، جب کہ ہمارے یہاں مسجدوں میں دلہن دکھاکر شوٹ کیا جانے لگا، سروں سے دوپٹہ تو اتارا ہی گیا ساتھ ہی قمیص سے آستین بھی غائب کی گئی۔ دین، عبادات تو ممنوع الفاظ بنا دیے گئے اور وہاں کے مذہب کو کاپی کیا جانے لگا۔ جو بے شرمی پڑوس کی ڈراما انڈسٹری نہ دکھا سکی وہ کمی ہماری ڈراما انڈسٹری نے پوری کردی، اور اس طرح کی کہ پڑوس والے بھی ہمارے شیدا نظر آنے لگے، انہیں اپنے رئیلٹی شوز میں نامحرم مرد و زن کے یکجا رہنے سے زیادہ ہمارے یہاں کے مرد و زن کا اختلاط پسند آیا، ہمارے ڈراموں میں ادھورے لباس والی خواتین زیادہ پُرکشش لگیں، ہمارے نوجوان لڑکے ڈراموں میں لڑکیوں کی عزتیں پامال کرنے اور لڑکیوں کی طرح ناچنے گانے لگے۔ اور وہ مرد جو دینِ اسلام کے نفاذ کی بات کرتے تھے، غیر تو غیر اپنے ہم وطنوں کو بھی ایسے کھٹکنے لگے کہ ان کے خلاف ’’عورت مارچ‘‘ کے نام پر احتجاج ہونے لگے۔ انہیں ظالم، شقی القلب اور غاصب قرار دیا جانے لگا۔ شادی جیسے مقدس فریضے کو ایک بزنس ایگریمنٹ کی طرح دکھایا جانے لگا کہ دل چاہے تو رشتہ چلائو ورنہ ٹاٹا بائے بائے کرکے مادر پدر آزاد زندگی گزارو۔ ہمارے ناظرین یہ بھول ہی گئے کہ پاکستانی ہونے سے پہلے ہم مسلمان ہیں جنہیں فحاشی سے دور رہنے کا خاص حکم ملا ہے، اور کس طرح وہ اس حکم سے لاپروائی برت کر ایک ایسی فصل کا بیج بوچکے ہیں جس سے آج ہر شہر، ہر گاؤں میں ذلت و رسوائی کا پھل پا رہے ہیں۔ آج نامحرم سے تعلق کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی، جس کے نتیجے میں کسی لڑکی کی عزت محفوظ نہیں۔ یقین نہ آئے تو زنا بالجبر اور زنا بالرضا کے اعداد و شمار چیک کرلیجیے۔ گھروں میں سازشی ماحول ہے، ادھیڑ عمر مرد و زن شادی شدہ ہونے کے باوجود غیر مرد و عورت سے دوستی رکھنا، غیر اخلاقی تعلقات رکھنا گناہ نہیں سمجھتے۔ بھائی بھائی پر بھروسہ نہیں کرتا، بہن بہن پر شک کرتی ہے۔ نہ جانے یہ طوفان کہاں جاکر تھمے گا اور اُس وقت تک کتنا نقصان ہوچکا ہوگا، تباہی کس حد تک معاشرے کو تباہ کرچکی ہوگی۔ آیئے آج اپنا اپنا احتسابِ ذات کرتے ہوئے خود سے کچھ سوال کرتے ہیں کہ ہماری اس اجتماعی بے حسی نے ہمارا اپنا ذہنی سکون برباد نہیں کردیا؟ ہمیں جان، مال اور عزت کے جانے کے خوف میں مبتلا نہیں کردیا؟ بھوک ہے، بے روزگاری ہے، سڑکوں پر لوٹ مار ہے، نوجوان شادی کو بوجھ سمجھ رہے ہیں، بسے بسائے گھر صرف ضد و اَنا کی وجہ سے ٹوٹ رہے ہیں، نشہ آور اشیاء کا استعمال لڑکے لڑکیوں میں برابر بڑھتا جا رہا ہے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ سب، چاہے عوام ہوں یا خواص… سب کی بے حسی کا نتیجہ ہے؟ ایک بار ضرور سوچیے گا، ہوسکتا ہے کہ کسی ایک کا بھی ضمیر زندہ ہو تو وہ کئی اور کے ضمیر کو زندہ کرنے کا سبب بن جائے۔

حصہ