بزم سعید الادب کا مشاعرہ

27

سعید الظفر صدیقی کی رہائش گاہ پر سعیدالادب کراچی کے زیر اہتمام ایک مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس کی صدارت رفیع الدین راز نے کی۔ امریکہ سے آنے والے شاعر باسط جلیلی اور جاوید صبا اس مشاعرے میں مہمانان خصوصی تھے جب کہ افتخار ملک ایڈووکیٹ مہمان اعزازی تھے۔ یاسر سعید صدیقی نے نظامت کے علاوہ اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ اردو زبان کی خدمت گزار ہیں‘ اردو کی ترویج و اشاعت ہماری تنظیم کا محور و مرکز ہے اور ہماری شناخت ہے‘ اس زبان نے قیام پاکستان میں تمام قبائل کو ایک لڑی میں پروئے رکھا ہے۔ یہ پاکستان میں رابطے کی زبان ہے‘ آپ اس کی افادیت اور اہمیت کم نہیں کرسکتے لیکن انگریزی زبان کاروباری ہے‘ ساری دنیا میں انگریزی کے ذریعے کاروبار چل رہا ہے اس لیے ہم مجبوراً یہ زبان سیکھتے ہیں لیکن جب تک ہم اپنا بیانہ نہیں بناتے ہم ترقی نہیں کرسکتے۔

سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ وہ ان دنوں گھر پر آرام کر رہے ہیں۔ کراچی زندگی گنگناتی ہیں اب یہ صورت حال ہے کہ کراچی کی فضائوں میں شاعری گونج رہی ہے۔ یہ وقت بڑی مشکل سے آیا ہے‘ چونکہ امن وامان کی صورت حال بہتر نہیں تھی ہمارے ملک میں دہشت گردی رائج ہے تاہم اس پر قابو پا لیا گیا ہے۔ شاعری سے ہمیں بہت سبق ملتا ہے‘ ہمارے ذہن کشادہ ہوتے ہیں‘ جدید تراکیب اور استعارے سامنے آتے ہیں۔ شعرائے کرام زندگی کے تمام شعبوں پر قلم اٹھاتے ہیں آج کے مشاعرے میں بہت اچھا کلام سامنے آیا ہے۔

رفیع الدین راز نے کہا کہ اردو کی ترقی میں مشاعروں کا بھی عمل دخل ہے‘ زبان دانی کی ترقی میں مشاعروں کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔ آج کے پروگرام میں اچھے اشعار سننے کو ملے‘ یہ چھوٹی سی شعری نشست اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ ہر شاعر نے اپنا نیا کلام سنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ بہت جلد امریکہ منتقل ہو رہے ہیں لیکن کراچی والوں کے ساتھ ان کا دل دھڑکتا رہے گا۔ کراچی کی یادیں میرے لیے سرمایۂ حیات ہیں‘ اس شہر نے مجھے عزت‘ شہرت دی ہے‘ میری پہچان کراچی ہے۔

باسط جلیلی نے کہا کہ وہ بنیادی طور پر پاکستانی ہیں لیکن کسبِ معاش نے انہیں پاکستان سے ہجرت پر مجبور کیا ہے‘ وہاں کینڈا اور امریکہ میں اردو کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں‘ ہم وہاں متحد ہو کر اردو مشاعرے کراتے ہیں جس میں پاکستان کے شعرائے کرام بھی شامل ہوتے ہیں۔ کراچی میں جدید اسٹائل کی شاعری ہو رہی ہے‘ نئے استعارے سامنے لائے جا رہے ہیں‘ انگریزی کے الفاظ اب اردو شاعری کا حصہ بن رہے ہیں۔ شاعری میں تجرباتِ زندگی شامل ہوتے ہیں جن سے ہمیں آگے چلنے کا راستہ ملتا ہے۔ شاعری سے زندگی سنورتی ہے‘ شعرائے کرام معاشرے کے سفیر ہوتے ہیں۔ آج کے مشاعرے میں زندگی رواں دواں نظر آرہی ہے۔

مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ جاوید صبا‘ باسط جلیلی‘ سعیدالظفر صدیقی‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ سلیم فوز‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ کشور عدیل جعفری‘ شاہدہ عروج‘ نازیہ غوث‘ انیلہ لقمان‘ یاسر سعید صدیقی نے اپنا کلام پیش کیا۔

انجمن تسکینِ ذوق ایک ایسی ادبی تنظیم ہے جو تواتر کے ساتھ شعری محافط سجا رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس ادارے کے تحت عینی لیب گلشن اقبال میں ایک مشاعرہ کیا گیا جس کی صدارت راشد حسین راشد نے کی۔ شمع نور اور افتخار ملک ایڈووکیٹ مہمانان خصوصی تھے۔ مہمانانِ اعزازی میں ڈاکٹر جاوید منظر‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ فرزانہ سحاب مرزا‘ زاہد حسین جوہری اور اسد رضوی شامل تھے۔ عابد شیروانی نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی اور اس پروگرام کی نظامت بھی کی۔ بینا کامران نے نعت رسولؐ پیش کی۔ انجمن تسکین ذوق کی چیئرپرسن گلنار آفرین ہیں جو کہ ایک سینئر شاعرہ اور افسانہ نگار ہیں انہوں نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے جو کہ ہر انسان میں نہیں ہوتی۔ شعرائے کرام ہر معاشرے کی ترقی میں اہم کردار کے حامل ہوتے ہیں‘مشاعروں سے زبان و ادب پروان چڑھتا ہے اور ہمیں ذہنی آسودگی بھی حاصل ہوتی ہے۔ شعرائے کرام نے متعدد تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے وقت ان لوگوں نے مسلمانوں میں آزادی کے جوت جگائی آج بھی یہ طبقہ مسائل پر قلم اٹھا رہا ہے۔

راشد حسین راشد نے کہا کہ دنیا بھر میں پاکستان وہ ملک ہے جو مذہبی بنیادوں پر قائم ہوا جب قیام پاکستان کی تحریک اپنے عروج پر تھی ہر شخص چاہتا تھا کہ پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہو‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ آج تو یہ صورت حال ہے کہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے عدالتی حکم موجود ہے لیکن اسے سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل رہا ہے جب کہ اردو عالمی زبان چکی ہے۔ امریکہ‘ کینڈا‘ برطانیہ اور مڈل ایسٹ کی تمام ریاستوں میں اردو بولی جا رہی ہے‘ وہاں بھی اردو کے مشاعرے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی شاعری اور غیر ممالک کی شاعری میں عنوانات مختلف ہوتے ہیں‘ دیارِ غیر کے رہنے والی اپنی زمین سے جڑے ہوتے ہیں‘ انہیں پاکستان یاد آتا ہے‘ ان کے اشعار میں پاکستانیت نظر آتی ہے‘ اب اس صنفِ سخن میں دنیا بھر کے مسائل نظر آرہے ہیں البتہ اب نظم کہنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔

عرفانہ ردا پیرزادہ جو کہ انجمن تسکینِ ذظق کی صدر ہیں‘ نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب کراچی میں ادبی گروہ بندیاں بہت ہیں‘ لوگ ایک دوسرے کو تسلم نہیں کر رہے‘ سینئر اور جونیئر کے معالات زیر بحث ہیں۔ یہ صورت حال بہت خراب ہے‘ اس سے اردو کی ترویج و اشاعت متاثر ہو رہی ہے۔ اس اہم مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ مشاعرے ہمارے تہذیب و تمدن کا حصہ ہیں۔ میں انجن تسکینِ ذوق کے تمام عہدیداران اور اراکین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ کراچی کی ادبی فضا اس وقت بہت شان دار ہے‘ لیکن ادبی گروہ بندیاں ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

مشاعرے میں راشد حسین راشد‘ گلنار آفرین‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ شمع نور‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ فرزانہ سحاب مرزا‘ اسد رضوی‘ رئیس جعفری‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ نادیہ صدیق غوری‘ عار ف شیخ‘ جہانداد منظر‘ کامران صدیقی‘ اختر سروش اور عرفانہ پیرزادہ نے کلام پیش کیا۔

حصہ