انسانی رویے

52

انسانی وجود کے کئی پہلو ہیں۔ وہ محض ایک بے جان مشین نہیں بلکہ روح بھی رکھتا ہے اور جسم بھی‘ عقل بھی رکھتا ہے اور احساس و جذبات بھی۔ ان میں سے ہر پہلو کے کچھ مخصوص تقاضے ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اب اگر کسی ایک پہلو ہی پر نظر رکھی جائے اور دوسرے پہلو کو یکسرنظرانداز کر دیا جائے تو یہ بڑی غلطی ہوگی‘ مثلاً ایک کارخانے دار اپنے کارکنوں کے جسموں ہی پر توجہ دیتا ہے کہ وہ کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں اور کتنی پیداوار ان سے حاصل ہوتی ہے اور ان کے احساسات و جذبات کو نظرانداز کر دیتا ہے‘ تو آخرکار کارکنوں کی معنوی پڑمردگی کارخانے کی پیداوار پر بھی اثرانداز ہو کر رہتی ہے۔

آپ ایک شخص سے بات کرتے ہیں۔ آپ کا اندازِ گفتگو اس کے دل میںآپ کے لیے احترام و قدر بھی پیدا کر سکتا ہے اور بے قدری و بیزاری بھی۔ آپ کسی کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘ آپ کے اندازِبیان سے محسوس ہو جاتا ہے کہ آپ دل سے شکریہ ادا کر رہے ہیں یا یہ محض ایک تصنّع اور بناوٹ ہے اور آپ صرف زبانی خانہ پْری کر رہے ہیں۔ ایک شخص آپ سے کوئی بات کہتا ہے‘ آپ پوری توجہ سے سنتے ہیں یا محض ہوں ہاں کر کے اسے ٹال دیتے ہیں۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی مختلف چیزیں آپ کے مخاطب کو آپ کے بارے میں یہ رائے قائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں کہ آپ ایک بامقصد و بامعنی بات کرتے ہیں یا بے مقصد اور لایعنی بات کرنے والے ہیں۔ اس لیے طرزِگفتگو میں شائستگی اور آداب کا لحاظ رکھنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔

انسانی رویے کے محرکات:
انسانی سلوک و معاملت کے پس پشت عوامل و محرکات کا دارومدار دراصل انسان کے عقیدے اور نظریۂ زندگی پر ہوتا ہے۔ ایک غیر مومن شخص سچ بولتا ہے‘ خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے‘ وعدہ کا پابند ہے اور اسی طرح دیگر امور میں بھی خوش گوار طرزِعمل اپناتا ہے تو اس کا محرک ذاتی شرافت‘ مصلحت اورکسی نفع کی امید یا نقصان کا خوف بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاًایک شخص چوری نہیں کرتا لیکن اس کی وجہ نگرانی اور پکڑے جانے کا خوف بھی ہو سکتا ہے۔اگر یہ مصلحت یا خوف باقی نہ رہے‘ تو وہ شخص اپنے حقیقی رنگ میں آجاتا ہے۔ آج بہت سے لوگ امریکہ اور یورپ کی دیانت داری کا ذکر ستایش کے ساتھ کرتے نہیں تھکتے لیکن اسی امریکہ کے ایک شہر میں آٹھ گھنٹوں کے لیے بجلی چلی جاتی ہے— اور یہ بہت مشہورواقعہ ہے— تو اس مختصر وقفے میں چوری کی ۵ ہزار وارداتیں درج کرائی جاتی ہیں کیونکہ بجلی چلے جانے کی وجہ سے کیمروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا اور لوگوں کو پکڑے جانے کا ڈر نہیں رہ گیا تھا۔لیکن ایک مومن کے محرکات و عوامل اس سے مختلف ہوتے ہیں۔

مومن کو اللہ کا نیک بندہ اور شریف انسان بننے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چنانچہ وہ بندگانِ خدا کے ساتھ حسن سلوک دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں کہ ’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہو‘‘۔ بہترین اخلاق پر مومن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کا امیدواررہتا ہے۔ خوش اخلاقی کامظاہرہ اس کی ذاتی مصلحت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ اس کے مقصدِ زندگی کا عین تقاضا ہوتا ہے‘ چاہے لوگ خوش ہوں یا ناراض‘ تعلقات خوش گوار ہوں یا ناخوش گوار‘ محبت و اعتماد حاصل ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو‘ وہ بہرصورت اپنے رب کو خوش رکھنے کے لیے کوشاں رہتاہے۔ یہی اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ اس سے بہترین اخلاق پر برابر قائم رہنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں: ’’انسان اپنے اچھے اخلاق کی بدولت مستقل طور پر رات کو نمازیں پڑھنے والے اوردن میں روزے رکھنے والے شخص کے درجات حاصل کر لیتاہے‘‘۔

خوش اخلاقی مومن کی بہترین صفات میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں: ’’مومن (دوسروں سے) مانوس ہوتا بھی ہے اور انھیں مانوس کرتا بھی ہے۔ اور جو ایسا نہ کرے اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ لوگوں میںسب سے بہتر وہ شخص ہے جولوگوں کوسب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔ (جامع صغیر)

اللہ تعالیٰ نے جس طرح بہترین اخلاق اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ ہم اللہ کے راستے کی طرف بھی لوگوں کوحکمت اور بہترین خیرخواہی کے ساتھ دعوت دیں۔

’’اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو‘ حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔‘‘ِ (النحل16-125)

یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا تو سب سے اچھی بات ہے ہی‘بلانے کے لیے انداز بھی حکیمانہ اور دل کو موہ لینے والااختیارکرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے خود رسولؐ اللہ کی صفت نرم دلی بتائی ہے جو انسان کو خوش گوار سلوک کا پیکر بناتی ہے۔’’یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔ (آل عمران3-159)

بہترین سلوک کی ایک شکل غلطیوں سے درگزر کرنا بھی ہے۔ یہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ کسی قدیم دانش ور کا قول ہے کہ لوگوں کے ساتھ محبت آمیز برتائو کرنا نصف عقل ہے۔

اگر اخلاق کی پشت پر کارفرما عوامل بہترین اور پسندیدہ نہیں ہوتے توان کی بنیاد نہایت کمزور اور ناپایدار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کے اثرات بھی وقتی اور ناپایدار ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ماتحت اپنے افسر کے ساتھ بظاہر بڑے اخلاق سے پیش آتے ہیں‘ اس کی خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں لیکن اس کے ریٹائر ہوجانے پراس سے کوئی ربط و تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر تعلق کی بنیاد خلوص اور بے غرضی ہوتی‘ تو ربط و تعلق کا یکسر خاتمہ نہ ہو جاتا۔

جس طرح اچھے اخلاق کی بنیاد خدا ترسی اور اس کی رضا کا حصول ہے‘ اسی طرح اس کے کچھ ضابطے اور احکام بھی ہیں جو ہمارے اپنے مقرر کردہ نہیں بلکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہیں۔ جس چیز کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ حرام اور قابل اجتناب ہے اور جس چیز کو لازم قرار دیا گیا ہے اسے چھوڑنے کی کوئی گنجایش نہیں۔ مثلاً والدین کے ساتھ حسن سلوک اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی طرح جن امور کی نشان دہی رسولؐ اللہ نے فرمائی ہے ان میں بھی کسی چوں چرا کی گنجایش نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے لیے ان میں سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے واقف ہونے کی ہم مسلسل اور سنجیدہ کوشش کرتے رہیں اور جس حد تک واقفیت ہو‘ ان پر عمل پیرا ہوں۔

طرزِ سلوک:
لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حسنِ معاملہ کے کچھ فطری اصول وقواعد ہیں جو ساری دنیا میں اور تمام قوموں میں تسلیم کیے جاتے ہیں لیکن انھیں تسلیم کرنے اور ماننے کا فائدہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہماری زندگی مخلصانہ طور پر ان ہی اصولوں پر استوار ہو اور حالات کی نرمی و سختی ہماری راہ میں حائل نہ ہو سکے۔

نارمل لوگوں کے ساتھ تو اکثر ان ہی قواعد کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ اس کے ساتھ اگر حسنِ سلوک ‘ عزت اوراحسان کا معاملہ کیا جاتا ہے تودل میں قدر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص نارمل نہیں ہے‘ تو اس سے معاملہ کرتے وقت اس کے مزاج و طبیعت کا لحاظ رکھا جائے۔

اپنے علم و ادراک اور فہم و شعور کے اعتبار سے بھی لوگوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک انسان ذہین اور سمجھ دار ہوتا ہے۔ دوسرا کم عقل اور کم فہم ہوتا ہے‘ اس کا علم بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کی ذہانت اور صلاحیت کے مطابق ہی ان سے گفتگو کی جائے۔ یہی نصیحت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے اس قول سے بھی ملتی ہے کہ ’’تم لوگوں سے اگر کوئی ایسی بات کروگے جو ان کے ذہن سے بلند تر ہو تو وہ بات ان کے لیے فتنہ بن جائے گی‘‘ (مسلم)۔ اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ یا تو اس بات کو سمجھ ہی نہیں پائیں گے یا غلط سمجھ بیٹھیں گے۔

لوگ کیا پسند کرتے ہیں:
یہ ایک فطری بات ہے کہ لوگ اس شخص کو پسند کرتے ہیں جو ان میں ذاتی طور پر بھی دل چسپی لیتا ہو‘ ان کے خیالات و مسائل پر بھی توجہ دیتا ہو‘ جو ان کی ضروریات پوری کرتا ہو اور انھیں تحفے تحائف سے بھی نوازتا ہو۔ حدیث میں آتا ہے: ’’باہم تحفے دیا کرو‘ اس سے باہمی محبت پیدا ہوتی ہے‘‘ (مؤطا)۔ تحفہ چاہے معمولی قیمت ہی کا کیوں نہ ہو‘ اس سے توجہ اور یگانگت کا اظہار ہوتاہے۔ کھانے کی دعوت بھی لوگوں کے درمیان قربت پیدا کرنے کاذریعہ بنتی ہے۔

اگرچہ کسی شخص کو کسی کام کے کرنے یا اس سے باز رہنے کا مشورہ دینا بھی نیکی ہے‘ لیکن بہت سے لوگوں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ آپ جس چیز کی طرف دعوت دینا چاہتے ہیں‘ حسنِ سلوک اور حسنِ اخلاق کے ذریعے دیں‘ اس سے بھی دل چسپی پیدا ہو جاتی ہے۔ طبرانیمیں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ شخص وہ ہے جولوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ آپ کسی مسلمان کو خوش کر دیں‘ یا اس کی کوئی پریشانی دْور کردیں‘ یا اس کا کوئی قرض ادا کر دیں‘یا اس کی بھوک مٹا دیں۔ اگر آپ اپنے بھائی کے ساتھ اس کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے جائیں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ آپ ایک مہینے تک مسجد میں اعتکاف کیے رہیں‘‘۔

اگر ذمے داران اور ملازمین یہ سمجھ لیں کہ لوگوں کے معاملات جلدنمٹانا‘ بلاتاخیر ان کی ضرورت پوری کرنابھی حسن ِ سلوک سے تعلق رکھتا ہے اور باعث اجر ہے‘ تو وہ جلد جلدمعاملات کو نمٹانے لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لوگ ٹھیک طور سے اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے لگیں تو معاشرہ مثالی بن جائے اور ہم مغربی ممالک کی مثالیں نہ دیں۔

فرانس میں ایک بار ایسا ہوا کہ کارخانوں کے ملازمین نے ہڑتال کر دی‘ لیکن کچھ ملازمین ہڑتال میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے افسران اور ذمّے داران ان سے ذاتی روابط رکھتے تھے‘ مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کرتے تھے اور انھیں مشینوں کے بجائے باعزت انسان قراردیتے تھے۔ جن کارخانوں اوردفتروں میں ملازمین کے ساتھ ذمّے دار حضرات ہمدردی و انسانیت کاسلوک کرتے ہیں وہاں ملازمین بھی خوش دلی کے ساتھ ان کا حکم مانتے اور اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان کارخانوں کی پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے۔

لوگوں کو یہ اچھا لگتا ہے کہ کوئی ان کی باتیں توجہ سے سنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ یہ نہیں کہ ہمیشہ اپنی ہی باتیں سناتا رہے۔ اگر آپ اچھی گفتگو کرنے والے بننا چاہتے ہیں تو پہلے اچھے سننے والے بنیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں آپؐ صحابہ کرامؓ کی ضرورتوں سے واقف ہو کر ان کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

دکھ سکھ‘ ملازمت کے لیے تقرری‘ ترقی اور شادی و غمی وغیرہ سے متعلق لوگوں کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لینا اور ان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا محبت و یگانگت کا باعث ہوتا ہے۔ (جاری ہے)

حصہ