کنجوس مکھی چوس

25

بچے: السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ دادی جان۔

دادی جان: وعلیکم السلام بچو! لگتا ہے آج آپ سب مل کر کہانی سننے کے لیے آگئے ہیں۔

بچے: جی ہاں دادی جان۔
دادی جان: بہت خوب ! ماشاءاللہ۔
جویریہ: دادی! آج آپ کون سی کہانی سنائیں گی؟
دادی: آج میں آپ کو ایک بہت ہی پرانی کہانی سناتی ہوں۔
کعب: کیا سو سال سے بھی پرانی کہانی دادی جان؟
معاذ: ارے بھئی سب چپ ہوجاؤ، پہلے کہانی تو سن لو۔

دادی: ایک گاؤں میں بہت ہی مالدار آدمی رہتا تھا۔ اس کے پاس بہت زیادہ پیسہ تھا۔ زیور، ہیرے، جواہرات اور دولت جمع کرکے رکھتا تھا۔

سعد: بے وقوف تھا وہ۔ پیسے فلسطین بھیج دیتا، اس کو ثواب مل جاتا اور فلسطین کے لوگوں کی مدد ہوجاتی۔

حذیفہ: بھئی بہت پرانی کہانی ہے۔ اُس وقت فلسطین کی یہ حالت تھوڑی ہوگی، کیوں دادی؟

دادی: ہاں بیٹا! تب فلسطین کی یہ حالت نہیں تھی۔

دادی پھر بولیں: وہ اتنا کنجوس تھا کہ اپنے اوپر بھی پیسے خرچ کرنے سے بچتا تھا۔ جب اس کے پاس بہت ساری دولت و مال جمع ہوگیا تو وہ بہت خوش ہوا کہ اب اس کے پاس بہت سارا زیور، جواہرات، روپیہ اور بہت ساری زمینیں، مکانات اور دکانیں موجود ہیں۔ وہ اپنی دولت دیکھ دیکھ کر بہت خوشی محسوس کرتا۔ لیکن اسے ہر وقت دھڑکا لگا رہتا کہ کہیں کوئی اس کی دولت نہ چرالے۔ وہ کسی کی مدد نہیں کرتا تھا، اسی لیے گاؤں کے لوگ اسے ”کنجوس مکھی چوس“ کہتے تھے۔

سب بچے ہنس پڑے ”مکھی چوس… واہ بھئی واہ“۔

ایک دن ان کے گاؤں میں ایک دوسرے مالدار آدمی کا اچانک انتقال ہوگیا۔ وہاں گاؤں کے سارے لوگ جمع ہوگئے اور غریب لوگ اس مرحوم کی تعریف کر کرکے آنسو بہا رہے تھے کہ وہ ہماری بہت مدد کرتے تھے، صدقہ خیرات کرتے تھے، رمضان میں ہمارے لیے کپڑوں اور راشن کا انتظام کرتے تھے، اللہ ان کو اجر عطا فرمائے۔ اس کے بچوں نے کہا کہ ہم اپنے ابا کی طرح آپ لوگوں کا خیال رکھیں گے اِن شاءاللہ۔ وہ مالدار آدمی اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ یتیموں، مسکینوں، غریبوں، بے سہارا اور بیمار لوگوں پر خرچ کرتا تھا۔ اس نے گاؤں میں اسپتال اور اسکول بھی بنوایا تھا جہاں ضرورت مندوں کو مفت علاج اور تعلیم کی سہولت حاصل تھی، اس کے بچے بھی اس کام میں اس کی مدد کرتے تھے، اسی لیے سب ہی لوگ اس کی بہت تعریفیں اور اس کے لیے دعائے مغفرت کررہے تھے۔ کنجوس آدمی نے جب یہ دیکھا کہ وہ مالدار مرحوم تو اپنا مال و دولت یہیں پر چھوڑ کر بالکل خالی ہاتھ دنیا سے جارہا ہے، وہ بھی صرف تین کپڑوں میں لیکن لوگوں کی تعریفوں اور دعاؤں کے ساتھ… تو کنجوس آدمی سوچ میں پڑ گیا کہ اگر میں مر گیا تو میری ساری دولت کا کیا ہوگا؟ میں نے دولت کے چکر میں شادی ہی نہیں کی، میرے تو بال بچے بھی نہیں ہیں، میرے لیے کون دعا کرے گا؟ یہ سوچ کر اس نے اپنی دولت ضرورت مندوں پر خرچ کرنے اور نیکی کے کاموں میں لگانے کا فیصلہ کرلیا، وہ سوچنے لگا کہ مجھے بھی اپنی دولت کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے گاؤں میں پانی کا مسئلہ رہتا ہے مجھے ٹیوب ویل لگانا چاہیے۔ سڑکیں اور راستے پکے بنوانے چاہئیں تاکہ لوگوں کو آسانی ملے۔ اس طرح وہ نیکی کے راستے پر چل پڑا اور اپنی دولت غریبوں اور بے سہارا لوگوں کو کاروبار شروع کرنے کے لیے بھی دی، اور مستحقین میں بھی تقسیم کی۔ اس نے ایک بیوہ خاتون سے شادی کی اور اُس کے تینوں بچوں کی کفالت کرلنے لگا۔ اب اس کا دل مطمئن تھا۔ وہ پُرسکون اور خوش و خرم زندگی گزارنے لگا۔ اب گاؤں کے لوگ اسے دعائیں دیتے۔

وہ مسجد جاکر نماز پڑھتا، قرآن و حدیث کے درس وغیرہ سن کر بالکل اللہ کے قریب ہوگیا۔ یوں اس پر نیکی کے دروازے کھلتے ہی چلے گئے۔ گاؤں والے بھی اس سے بہت خوش تھے۔ گاؤں کے لوگ جو پہلے اسے کنجوس مکھی چوس کہتے تھے اب سخی بھائی صاحب اور حاتم ثانی کہنے لگے۔ اس نے گاؤں کے لوگوں کے لیے مدرسے بھی بنوائے۔ گاؤں والے جو پہلے اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اب اس سے محبت کرتے ہیں اور اسے انسان دوست کہتے ہیں۔ اس طرح نفرت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔

سعد: اللہ کا شکر ہے وہ کنجوس آدمی سدھر گیا۔

معاذ: واقعی ہمیں اللہ کے بندوں کی مدد کرتے رہنا چاہیے۔

کعب: ہاں! میں بھی اب اپنی چیزیں سب سے شیئر کیا کروں گا، اِن شا اللہ۔
جویریہ اور حذیفہ نے کہا کہ ہم تو وہاں کینیڈا میں اپنے اسکول میں لوگوں کی مدد کے لیے بیت سی ایکٹیوٹیز کرتے رہتے ہیں، یعنی اولڈ ہاؤس میں جانا، کام کرنا، اسپتال میں فرسٹ ایڈ کرنا، روڈ سیفٹی اور صحت و صفائی کے اداروں کے ساتھ والنٹیئر بن کر کام کرنا۔
دادی: کرو مہر بانی تم فرشِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
سب بچے بیک آواز بولے ان شاءاللہ۔

حصہ