پاکستان کا نظریہ اتنا پُرعظمت تھا کہ اس نے قائداعظم اور خود پاکستان کو بڑائی عطا کردی۔ قائداعظم کے سوانح نگار اسٹینلے ولپرٹ نے قائداعظم کی عظمت بیان کرتے ہوئے بالکل درست کہا ہے کہ تاریخ میں ایسے لوگ بہت کم ہوئے ہیں جنہوں نے تاریخ کو تبدیل کیا ہے، اس سے بھی کم لوگ وہ ہوئے ہیں جنہوں نے جغرافیہ بدلا ہے، اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جس نے قومی ریاست قائم کی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام بیک وقت کیے۔ قائداعظم جب تک ایک قومی نظریے کے علَم بردار تھے صرف محمد علی جناح تھے۔ دو قومی نظریے نے انہیں قائداعظم بنادیا۔ محمد علی جناح جب تک کانگریس میں تھے وہ افراد کے وکیل تھے، مگر دو قومی نظریے نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا وکیل بناکر کھڑا کردیا۔ دو قومی نظریہ نہ ہوتا تو اسٹینلے ولپرٹ کو قائداعظم کے بارے میں کبھی وہ بات کہنے کا موقع نہ ملتا جو اس نے قائداعظم کے بارے میں کہی۔ لوگ قائداعظم کا موازنہ گاندھی اور نہرو سے کرتے ہیں، مگر ان دونوں نے نہ تاریخ کو تبدیل کیا، نہ جغرافیے کو بدلا، نہ کوئی قومی ریاست قائم کی۔ چنانچہ ان دونوں رہنمائوں کا قائداعظم کے ساتھ کوئی موازنہ ہی نہیں۔ قائداعظم کی تاریخی شخصیت اتنی بڑی ہے کہ گاندھی اور نہرو دونوں اگر قائداعظم کے پرسنل سیکریٹری ہوتے تو یہ ان کے لیے اعزاز کی بات ہوتی۔ پاکستان کے نظریے نے خود پاکستان کو عہدِ جدید میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست بناکر ابھارا۔ ایسی ریاست جسے اگر آٹھ دس سال تک قائداعظم کی قیادت میسر رہتی تو وہ دنیا کی دس طاقت ور ترین ریاستوں میں سے ایک ہوتی۔
قائداعظم کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت میں گاندھی کی طرح ’’دکھاوا‘‘ نہیں تھا، انہیں نہ ’’مہاتما‘‘ کہلانے کا شوق تھا نہ قوم کا ’’باپ‘‘ کہلانا انہیں پسند تھا۔ انہیں ’سر‘ کا خطاب دیا گیا تو انہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اپنا اوریجنل نام پسند ہے اور میں اس نام میں کوئی اضافہ کرنا پسند نہیں کروں گا۔ قائداعظم کی شخصیت کا اصل جوہر کیا تھا، اس کا تھوڑا سا اندازہ قائداعظم کے اس خطاب سے کیا جاسکتا ہے۔ قائداعظم نے فرمایا:۔
’’تمہاری تعداد سب سے زیادہ ہوا کرے، تم ترقی یافتہ اور تمہاری اقتصادیات مستحکم ہی سہی، اور تم سمجھا کرو کہ سروں کی گنتی ہی آخری فیصلہ ہے، لیکن میں بتا دیتا ہوں تم دونوں کو کہ تم تنہا یا تم دونوں متحد ہوکر بھی ہماری روح کو فنا کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوسکو گے۔ تم اس تہذیب کو کبھی مٹا نہ سکوگے، اس اسلامی تہذیب کو جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ ہمارا نور ایمان زندہ ہے، ہمیشہ زندہ رہا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ بے شک تم ہمیں مغلوب کرو، ہم پر ظلم و ستم کرو، ہمارے ساتھ بدترین سلوک روا رکھو، لیکن ہم ایک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور ہم نے یہ سنگین فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر مرنا ہی ہے تو لڑتے لڑتے مرجائیں گے‘‘۔
(مرکزی اسمبلی۔ 22 مارچ 1939ء)
قائداعظم کی ایک اور تقریر کا اقتباس ملاحظہ کیجیے:۔
’’دولتِ برطانیہ، ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتی ہے، اور گاندھی جی مسلم ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم دونوں کو اپنے پر حکومت نہ کرنے دیں گے، خواہ دونوں متحد ہوکر یا تنہا کوشش کر دیکھیں۔ ساری دنیا مان چکی ہے اور حکومتِ برطانیہ بھی فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے یہ تسلیم کرچکی ہے کہ مسلم لیگ ہی مسلم ہندوستان کی جائز اور نمائندہ جماعت ہے، لیکن تاحال سیوگائوں میں روشنی طلوع نہیں ہوئی اور ابھی تک گاندھی صاحب اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں‘‘۔
(عربک کالج، دہلی۔ 1939ء)
قائداعظم کی تقریر کا پہلا اقتباس 1939ء کا ہے۔ اُس وقت تک قراردادِ پاکستان بھی منظور نہیں ہوئی تھی، قائداعظم ٹھیک ایک ’’انقلابی‘‘ کی طرح وقت کی واحد سپر پاور سلطنتِ برطانیہ اور ہندوستان کی عظیم اکثریت ہندوئوں کو للکار رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ تم ہماری تہذیب کو نہیں مٹا سکتے۔ ہمارا نورِ ایمان زندہ ہے، ہم لڑتے لڑتے مر جائیں گے مگر تمہارے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔ تقریر کا دوسرا اقتباس بھی 1939ء ہی کا ہے۔ اس تقریر میں بھی قائداعظم خالی ہاتھ ہونے کے باوجود وقت کی واحد سپر پاور اور ہندوستان کی عظیم اکثریت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے:۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
کیا آپ کو ایسا محسوس نہیں ہورہا کہ اقبال نے یہ شعر جن قلندروں کے لیے کہا ہے اُن میں قائداعظم بھی شامل ہیں۔ قائداعظم کی تقاریر کے مذکورہ بالا اقتباسات نہ صرف یہ کہ ہمارا قومی ورثہ ہیں بلکہ ان اقتباسات میں قائداعظم کا ’’تصورِ پاکستان‘‘ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔
قائداعظم کا تصورِ قوم اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور اسلامی روایت سے پوری طرح ہم آہنگ تھا۔ قائداعظم جب بھی مسلمان قوم کے تصور پر غور کرتے تھے اسلام اُن کے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا تھا۔ ذرا قائداعظم کے مندرجہ ذیل بیانات تو ملاحظہ کیجیے۔ قائداعظم نے فرمایا:۔
’’تمام دشواریوں کے باوجود مجھے یقین ہے کہ مسلمان کسی دوسرے فرقے کی نسبت ’’بہتر سیاسی دماغ‘‘ رکھتے ہیں۔ سیاسی شعور مسلمانوں کے خون میں ملا ہوا ان کی رگوں اور شریانوں میں دوڑ رہا ہے، اور اسلام کی باقی ماندہ عظمت ان کے دلوں میں دھڑک رہی ہے‘‘۔
(عربک کالج، دہلی۔ 1939ء)
قائداعظم نے ایک اور مقام پر فرمایا:۔
’’اقلیت کا لفظ اتنی مدت تک استعمال کیا گیا ہے کہ اس کے اثرات کا زائل کرنا بعض اوقات مشکل ہوجاتا ہے۔ مسلمان اقلیت میں نہیں ہیں۔ ہر اعتبار سے مسلمان ایک قوم ہیں۔ برطانیہ اور کانگریس کی طرف سے یوں کہا جارہا ہے: ’’بہرحال آپ اقلیت ہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ اور جیسا کہ بابو راجندر پرشاد نے فرمایا: ’’اقلیتیں اور کیا چاہتی ہیں؟‘‘ میں اعلان کرتا ہوں، یقیناً مسلمان اقلیت نہیں ہیں۔ ہندوستان کے نقشے پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ اس ملک کے وسیع علاقے مسلمانوں کے قبضے میں ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں مثلاً بنگال، پنجاب، صوبہ سرحد، اور صوبہ سندھ ‘‘۔
(اجلاس مسلم لیگ، لاہور۔ 23 مارچ 1940ء)
قائداعظم نے ایک اور جگہ ارشاد کیا:۔
’’قومیت کی تعریف چاہے جس طرح کی جائے، مسلمان اس تعریف کی رو سے ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اس لیے اس بات کے مستحق ہیں کہ ملک میں ان کی اپنی الگ مملکت اور اپنی جداگانہ خودمختار ریاست ہو۔ ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر ہم ایک آزاد قوم بن کر اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہم آہنگی اور امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ ہماری تمنا ہے کہ ہماری قوم اپنی روحانی، اخلاقی، تمدنی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو کامل ترین نشوونما بخشے اور اس کام کے لیے وہ طریقِ عمل اختیار کرے جو اس کے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ ہو‘‘۔
(اجلاس مسلم لیگ، لاہور۔ 23 مارچ 1940ء)
قائداعظم ایک اور جگہ گویا ہوئے۔ فرمایا:۔
’’میں کئی بار کہہ چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ جناب گاندھی دیانت داری سے تسلیم کرلیں کہ کانگریس ہندو جماعت ہے اور وہ صرف ہندوئوں کے نمائندہ ہیں۔ جناب گاندھی کیوں یہ بات فخریہ نہیں کہتے کہ ’’میں ہندو ہوں اور کانگریس کو ہندوئوں کی حمایت حاصل ہے‘‘۔ مجھے تو یہ کہنے میں کہ میں مسلمان ہوں، شرم محسوس نہیں ہوتی‘‘۔
(اجلاس مسلم لیگ، لاہور۔ 23 مارچ 1940ء)
پاکستان میں سیکولر، لبرل اور سابق کمیونسٹ عناصر آئے دن اس بات کا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ قائداعظم ایک مسلم قوم پرست کے سوا کچھ نہ تھے، مگر قائداعظم کی تقاریر اور بیانات سے لیے گئے مذکورہ اقتباسات سے ثابت ہوتا ہے کہ قائداعظم کا تصورِ قوم ان کے مذہب ہی سے پھوٹا تھا۔ وہ صرف اسلام کی روحانی اور تہذیبی اقدار کے علَم بردار تھے، اور وہ پاکستان کو ایک مثالی اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو قائداعظم کا تصورِ قوم مذہب کے ذکر سے خالی ہوتا۔
جہاں تک دو قومی نظریے کا تعلق ہے، یہ ’الف‘ سے لے کر ’ے‘ تک اسلام میں ڈوبا ہوا ہے، اور قائداعظم نے اس نظریے کے مختلف پہلوئوں پر بہت تفصیل سے اظہارِ خیال کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ اور تعلیمی اداروں پر سیکولر اور لبرل عناصر کا غلبہ ہے، چنانچہ یہ حقائق قوم کی نئی نسل تک بہت کم پہنچ پاتے ہیں۔ ذرا دیکھیے تو قائداعظم دو قومی نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے کیا فرما رہے ہیں:۔
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملّت کی عمارت استوار ہے۔وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک کتاب، ایک امت‘‘۔
(اجلاس مسلم لیگ، کراچی۔ 1943ء)
قائداعظم نے ایک اور موقع پر فرمایا:۔
’’پاکستان اُسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے، وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا۔ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی‘‘۔
(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ 8 مارچ 1944ء)
ایک اور جگہ قائداعظم نے کہا:۔
’’آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجۂ جواز کیا تھی؟ تقسیمِ ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری ہے، نہ انگریزوں کی چال۔ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔‘‘ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ 8 مارچ 1944ء)۔
بہت سے لوگ قیامِ پاکستان کو ہندو اکثریت کے ممکنہ جبر اور انگریزوں کی چال کے طور پر دیکھتے ہیں، مگر قائداعظم نے مذکورہ بالا اقتباس میں صاف فرمایا ہے کہ یہ سب اضافی باتیں ہیں، اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا تھا۔ یہ بات اس لیے درست ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس کے بعض تقاضے ریاست کے بغیر پورے نہیں ہوتے۔ مثلاً اسلام کا نظامِ عدل ایک اسلامی مملکت ہی میں قائم ہوسکتا ہے۔ اسلام کے تصورِ جہاد کو ایک اسلامی ریاست ہی بروئے کار لا سکتی ہے۔ اسلام کا نظامِ معیشت بھی مسلمانوں سے ایک ریاست کا تقاضا کرتا ہے۔ قائداعظم کا ظاہری حلیہ ایسا تھا کہ اسے دیکھ کر کسی کو خیال نہیں آسکتا تھا کہ اس شخص کا دل اسلام اور اسوۂ رسولؐ کے لیے دھڑکتا ہے۔ قائداعظم نے ایک جگہ فرمایا:۔
’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اُس اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے، جو قانون عطا کرنے والے پیغمبرِ اسلام نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات و اصولوں پررکھیں‘‘۔
(شاہی دربار، سبی بلوچستان۔ 14 فروری 1947ء)
قائداعظم نے اس حوالے سے ایک اور مقام پر ارشاد کیا:۔
’’شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے ساتھ جو خیر سگالی اور رواداری کا برتائو کیا، وہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ اس کی ابتدا آج سے تیرہ سو سال پہلے ہی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کردی تھی۔ انہوں نے زبان سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ ان کے ساتھ رواداری برتی، اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔ مسلمان جہاں کہیں بھی حکمران رہے، ایسے ہی رہے۔ ان کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ ایسے ہی انسانیت نواز اور عظیم اصولوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہوگی، جن کی ہم سب کو تقلید کرنی چاہیے‘‘۔
(مائونٹ بیٹن کی تقریر کے جواب میں۔ 14 اگست 1947ء)
غور کیا جائے تو دو قومی نظریہ ہو یا اسوۂ حسنہ سے گہرے تعلق کی آرزو… یہ سب قائداعظم کے تصورِ پاکستان کا حصہ ہیں۔ اُس تصورِ پاکستان کا جو ایک اٹل حقیقت ہے مگر معروف نہیں ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں اور غلط نہیں کہتے کہ اسلام کے ’’ضابطۂ حیات‘‘ ہونے کا تصور مولانا مودودی کی عطا ہے۔ یہ بات درست ہے، مگر قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں ’’ضابطۂ حیات‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اسلام کا ضابطۂ حیات ہونا ثابت کیا ہے۔ ذرا دیکھیے تو قائداعظم کیا کہہ رہے ہیں:۔
’’ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآنی احکام مذہبی اور اخلاقی فرائض تک محدود نہیں۔ جیسا کہ گبن نے کہا تھا: ’’اوقیانوس سے گنگا تک قرآن کو دینیات ہی نہیں بلکہ شہری (سول) اور تعزیری قوانین کی بنیاد بھی سمجھا جاتا ہے، اور وہ قوانین جن سے بنی نوع انسان کے اعمال اور حقوق کی حد بندی ہوتی ہے وہ بھی خدا کے غیرمتبدل احکام سے متعین ہوتے ہیں۔ جاہلوں کی بات الگ ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی، سماجی، کاروباری، فوجی، عدالتی، تعزیری اور قانونی ضابطۂ حیات… جو مذہبی تقریبات سے لے کر روزمرہ زندگی کے معاملات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، تمام افراد سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر جرم تک، اس دنیا میں جزا اور سزا سے لے کر اگلے جہاں تک کی سزا و جزا تک کی حد بندی کرتا ہے‘‘۔ (پیام عید۔ 1945ء)۔
اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد کوئی ’’جاہل‘‘ اور کوئی ’’شیطان‘‘ ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ دیکھا جائے تو قائداعظم کی مذکورہ بالا گفتگو سے بھی اُن کا تصورِ پاکستان پوری طرح عیاں ہے۔
قائداعظم پاکستان کو ایک عظیم ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں اُن کا تصورِ پاکستان کیا تھا اور اُن کی ترجیحات کیا تھیں، اس کا اندازہ قائداعظم کے اس خطاب سے بخوبی کیا جا سکتا ہے:۔
’’تعمیرِ قوم کے بڑے بڑے شعبے کیا ہیں؟ آئیے میں آپ کو بتاتا ہوں۔ کسی قوم کو ایک مملکت کا حکمران اور ملک چلانے کے قابل بنانے کے لیے کم از کم تین بڑے ستونوں کی ضرورت ہے۔ پہلا ستون تعلیم ہے۔ تعلیم کے بغیر آپ بالکل ویسی ہی حالت میں ہیں جیسے کہ کل رات یہ پنڈال اندھیرے میں تھا۔ تعلیم کے ساتھ آپ اس حالت میں ہوں گے جیسے کہ اب دن کے اس چکاچوند اجالے میں ہیں۔ دوسرے کوئی قوم کوئی بڑا کام نہیں کرسکتی جب تک وہ کاروبار، تجارت اور صنعت و حرفت کے میدانوں میں معاشی طور پر مستحکم نہ ہو۔ اور تیسرے جب آپ تعلیم کے ذریعے علم کی روشنی حاصل کرلیں، اور جب آپ معاشی، تجارتی اور صنعتی اعتبار سے خود کو مضبوط اور مستحکم کرلیں تو آپ کو اپنے دفاع کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ یعنی بیرونی جارحیت سے بچائو اور اندرونی امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ان تین ستونوں پر ایک قوم کھڑی ہوتی ہے، اور کسی قوم کی طاقت اور عظمت کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اس کے یہ تین ستون کتنے مضبوط ہیں، اور قوم ان تینوں شعبوں میں کیا کچھ کرنے کے لیے تیار ہے‘‘۔
(پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن۔ 2 مارچ 1941ء)
قائداعظم کے اس خطاب سے ثابت ہے کہ وہ پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے، اور ان کا تصورِ قوم یہ تھا کہ قوم باشعور نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے بعد آنے والے حکمران طبقے نے علم اور شعور کو اپنے خلاف ایک سازش سمجھا اور اس نے آج تک قوم کو نہ تعلیم یافتہ ہونے دیا، نہ باشعور ہونے دیا۔ قائداعظم کے اس خطاب سے ظاہر ہے کہ وہ تعلیمی انقلاب کے بعد پاکستان میں صنعتی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے، مگر قائداعظم کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اُن کے اس خواب کو بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔ یہاں تک کہ ہم نے دفاع کے سلسلے میں بھی قائداعظم کے تصور کی پاسداری نہ کی۔ چنانچہ 1971ء میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
افواجِ پاکستان کے سلسلے میں قائداعظم کا تصورِ پاکستان کیا تھا، ملاحظہ کیجیے۔ قائداعظم نے فرمایا:۔
’’خدا کی قسم، جب تک ہمارے دشمن ہمیں اٹھا کر بحیرۂ عرب میں نہ پھینک دیں، ہم ہار نہ مانیں گے۔ پاکستان کی حفاظت کے لیے میں تنہا لڑوں گا، اُس وقت تک لڑوں گا جب تک میرے ہاتھوں میں سکت اور میرے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے۔ مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ اگر کبھی کوئی ایسا وقت آجائے کہ پاکستان کی حفاظت کے لیے جنگ لڑنی پڑے تو کسی صورت میں ہتھیار نہ ڈالیں اور پہاڑوں میں، جنگلوں میں، میدانوں میں اور دریائوں میں جنگ جاری رکھیں‘‘۔(بحوالہ: سردار عبدالرب نشتر)۔
قائداعظم کی تقریر کا یہ اقتباس اُن کے تصورِ پاکستان اور ان کے تصورِ فوج کو پوری وضاحت سے بیان کررہا ہے۔ قائداعظم کہہ رہے تھے کہ کبھی جنگ لڑنی پڑ جائے تو ہمارے فوجی دشمن کے سامنے ہتھیار نہ ڈالیں۔ پہاڑوں، جنگلوں، میدانوں اور دریائوں میںجنگ جاری رکھیں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے جرنیلوں نے قائداعظم کی بات پر توجہ نہ دی۔ انہوں نے 1971ء میں بھارت کے سامنے نہ صرف یہ کہ ہتھیار ڈالے بلکہ 90 ہزار فوجیوں کو بھارت کا قیدی بنوایا۔ حالانکہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ اگر جنرل نیازی چاہتے تو تین چار ماہ تک ڈھاکا کا دفاع کر سکتے تھے اور ملک کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا تھا۔
قائداعظم کی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ انہیں اپنے بعد ہونے والے واقعات کا بھی شعور تھا۔ مثلاً انہیں معلوم تھا کہ اردو کو سرکاری زبان بنانے میں دشواری ہو گی، چنانچہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں کھڑے ہو کر اردو کا مقدمہ لڑا۔ اسی طرح انہیں احساس تھا کہ فوج میں بنگالیوں کو نظرانداز کیا جائے گا، چنانچہ قائداعظم نے کہا:۔
’’غلامی کے زمانے میں بنگال کو، جس میں ہمارا مسلم اکثریت والا مشرقی بنگال بھی شامل تھا، فوجی مقاصد کے لیے کمتر اور کمزور سمجھا جاتا تھا… تعداد کے لحاظ سے بھی اور کارگزاری کے اعتبار سے بھی۔ حالانکہ بنگال کے لوگوں کے مجاہدانہ جذبے اور فوجی اسپرٹ سے تاریخ کے صفحات اٹے پڑے ہیں، اور خاص طور پر مسلمانوں نے بنگال کی تاریخ میں جو کارنامے سرانجام دیے ہیں، وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں۔ یہ تلخ حقیقت بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں کہ دوسری بے شمار اعلیٰ صفات کی طرح فوجی صلاحیت اور جذبۂ شجاعت کو بھی سختی سے کچل دیا گیا۔ دہکتے ہوئے شعلے پر راکھ کا ڈھیر ڈال دیا گیا اور رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ کہا جانے لگا کہ بنگال فوجی مقاصد کے اعتبار سے کمتر اور کمزور ہے۔ اب آزاد پاکستان میں، جو دنیا کی عظیم ترین اقوام کی پہلی صف میں شامل ہے، آپ کو اس دبی ہوئی چنگاری کو شعلہ بنانے، جذبۂ شجاعت کو ابھارنے اور فوجی صلاحیت کو بحال کرنے کے سلسلے میں ہر موقع ملے گا، اور دنیا خود دیکھ لے گی کہ بنگال کیا کچھ کرسکتا ہے‘‘۔
(فوجی پریڈ سے خطاب۔ 20 مارچ 1948ء)
ایک اور مقام پر قائداعظم نے فرمایا:۔
’’جہاں تک مشرقی پاکستان کے لوگوں کی فوجی صلاحیت اور شجاعت کا تعلق ہے، تاریخ میں کافی ثبوت موجود ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے باقاعدہ مسلح فوج اور پاکستان نیشنل گارڈز میں اس صوبے کے نوجوانوں کی بھرتی اور تربیت کے لیے اہم قدم اٹھائے ہیں۔ آپ کو ہمیشہ کے لیے یہ یقین رکھنا چاہیے کہ دفاعِ پاکستان میں اس صوبے کے جوانوںکو اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی‘‘۔
(جلسہ عام ڈھاکا۔ 21 مارچ 1948ء)
بدقسمتی سے قائداعظم کے بعد ہمارے حکمرانوں اور جرنیلوں نے بنگالیوں پر 1960ء تک فوج کے دروازے بند رکھے۔ انہوں نے مارشل ریس کا نظریہ گھڑ لیا، جس کے تحت کہا گیا کہ بنگالیوں کا قد چھوٹا ہے اور وہ فوج کے لیے مناسب نہیں۔ چنانچہ 1971ء میں سقوطِ ڈھاکا کے وقت پاک فوج میں بنگالیوں کی موجودگی آٹھ، دس فیصد تھی حالانکہ وہ ملک کی آبادی کا 56 فیصد تھے۔ اس صورتِ حال نے ملک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا، اور بالآخر ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ قائداعظم کے تصورِ پاکستان سے غداری کا یہی نتیجہ ہوسکتا تھا۔
قائداعظم ’’بالائی طبقے‘‘ سے تعلق رکھتے تھے، مگر ان کا دل غریبوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ ان کے تصورِ پاکستان میں غریبوں کی بڑی اہمیت تھی، اور قائداعظم کبھی غریبوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ ذرا دیکھیے تو قائداعظم برصغیر کے غریب مسلمانوں کے بارے میں کیا کہہ رہے تھے:۔
’’دولت مند اشخاص روپیہ دینے سے پہلے تھوڑی بہت ناز برداری کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ہم نے کبھی مسلمانوں سے مالی امداد کی کوئی اپیل نہیں کی۔ اور خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ سرمائے کے بغیر ہم نے اس جدوجہد کو کس طرح جاری رکھا۔ اب ایک یا دو اشخاص کی مالی امداد سے کام نہیں چل سکتا، اسی وجہ سے میں نے اپیل کی تھی۔ خدا کے فضل سے اس کا ہر طبقے میں خیرمقدم ہوا۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ دو آنے اور چار آنے تک کے منی آرڈر موصول ہوئے ہیں۔ غریب مسلمان بڑے خلوص سے اپنے ذرا ذرا سے عطیے بھیج رہے ہیں اور پُردرد خطوط لکھ رہے ہیں۔ اگر آپ یہ خطوط دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جذبۂ ایثار کی کتنی تیز آگ ان کے سینوں میں بھڑک رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم غریب ہیں، روپیہ نہیں دے سکتے، مگر اپنی جانیں دے دیں گے۔ اور اس کے لیے وہ بالکل تیار ہیں۔ دولت مندوں کے لاکھوں سے کہیں زیادہ ایسی چھوٹی چھوٹی رقموں نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے‘‘۔
(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ 2 نومبر 1941ء)
بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران طبقے نے قائداعظم کے بعد معاشرے کے غریب طبقوں کو یکسر نظرانداز کردیا، اور یہ تاثر دیا کہ پاکستان صرف جرنیلوں، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا پاکستان ہے۔
قائداعظم کا دل ہندوستان کے اقلیتی صوبوں کےمسلمانوں کے لیے دھڑکتا تھا اور وہ ان کی تعریف اور ان کے احسانات کے تذکرے کا کوئی موقع جانے نہ دیتے تھے۔ عید کے موقع پر قائداعظم نے اپنے پیغام میں کیا فرمایا، ملاحظہ کیجیے:
’’اس مبارک موقع پر ہمیں اپنے اُن بھائیوں اور بہنوں کو نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے اپنا سب کچھ محض اس لیے قربان کردیا کہ پاکستان قائم ہو اور ہم لوگ اس میں آزادی سے زندگی بسر کرسکیں۔ ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ جو شہید ہوگئے، خدا اُن کو جوارِ رحمت میں جگہ دے، اور جو مظلوم ہوئے ان کو اپنے سایۂ عاطفت میں رکھے۔ ان لوگوں کی یاد ہمارے دلوں سے کبھی محو نہ ہوگی جو شہید ہوئے اور جو مظلوم ہوئے۔ ہم پاکستانیوں کے لیے یہ عید خوشی اور مسرت کا موقع نہ بن سکی۔ ہمارے مسلمان بھائی جو ہندوستان میں اقلیت میں رہ گئے ہیں، ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم کبھی ان کو نہ بھولیں گے اور نہ کبھی نظرانداز کریں گے، ہمارے دل ان کے ساتھ ہیں۔ ان کی مدد اور خوشحالی کے لیے ہم بڑی سے بڑی کوشش اور قربانی کو بھی ہیچ سمجھیں گے، کیونکہ میری رائے میں یہ مسلم اقلیتی صوبے ہی تھے جنہوں نے حصولِ پاکستان کے محبوب نصب العین میں سب سے پہلے پیش قدمی کی اور سبز پرچم برابر بلند رکھا۔ حصولِ پاکستان کے لیے ان کی امداد کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا، اور مجھے امید ہے کہ پاکستان کے مسلم اکثریتی صوبے بھی یہ حقیقت فراموش نہ کریں گے کہ مسلم اقلیتی صوبے حصولِ پاکستان کی تاریخی اور دلیرانہ تحریک میں ہراول دستے کی حیثیت رکھتے تھے‘‘۔ (پیغام عید۔ 18 اگست 1947ء)۔
قائداعظم کا دل ہندوستان کے اقلیتی مسلمانوں کے لیے دھڑکتا تھا اور وہ ان کی ہر ممکن مدد کے لیے تیار تھے، یہاں تک کہ انہوں نے ایک اور بیان میں فرمایا تھا کہ بھارت کے مسلمانوں کو ہندوئوں کے جبر و ظلم سے بچانے کے لیے اگر پاکستان کو ہندوستان میں فوجی مداخلت کرنی پڑی تو ضرور کرے گا۔ مگر آج پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت کے مسلمانوں کا ذکر بھی نہیں کرتا۔ اس نے بھارت کے مسلمانوں کو کیا کشمیریوں تک کو چھوڑ دیا ہے۔ یہ بھی قائداعظم کے تصورِ پاکستان سے کھلی غداری ہے۔