دسمبر، سال کا آخری مہینہ، جب آتا ہے تو اس کی سرد اور بڑی راتیں کبھی کبھی بہت ہی اداس کرجاتی ہیں۔ ٹھنڈی اور خاموش شامیں اکثر ماضی میں لے جاتی ہیں۔ 16 دسمبر کو ’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ کا واقعہ، چند سال قبل 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں گھس کر دہشت گردوں نے معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کیا… ان واقعات پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
26 دسمبر 2012ء کو ہم بہن بھائیوں کے سر سے والدِ محترم کا سایہ اٹھ گیا۔ میرے والدِ محترم پروفیسر عبدالغفور احمد اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ والدہ 2008ء میں ہمیں چھوڑ کر ابدی زندگی کی طرف روانہ ہوگئی تھیں۔ والدین کے بعد لگتا ہے بھری دنیا میں اکیلے ہوگئے ہیں۔ دعا ہے ہم بہن بھائی اپنے والدین کے لیے صدقۂ جاریہ بنیں، آمین۔
والد محترم پروفیسر عبدالغفور احمدؒ نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں ہی جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور اپنی آخری سانس تک جماعت اسلامی سے ہی منسلک رہے۔ اباجی شرافت اور دیانت کی سیاست کے امین تھے۔ انہوں نے بے غرض سیاست کا مثالی نمونہ پیش کیا۔ پوری زندگی سادگی، کفایت شعاری اور رزقِ حلال کی حدود میں رہ کر گزاری۔ ابا جی نے پاکستان میں صاف ستھری اور دیانت دار سیاست کی مثال قائم کی۔
پاکستان کی سیاست میں مفتی محمودؒ، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، نواب زادہ نصراللہ خانؒ، شاہ احمد نورانیؒ، قاضی حسین احمدؒ، میاں طفیل محمدؒ، سید منور حسنؒ، سردار شیرباز مزاری جیسے قدآور لوگ تھے جن کی دیانت اور قابلیت کے سب معترف تھے۔ پروفیسر عبدالغفور احمدؒ بھی کوچۂ سیاست کے ان اجلے لوگوں کے قافلے کے راہی تھے جواسلاف کی نشانی تھے اور ہم سے بچھڑ کر اسلاف کے قافلے سے جا ملے۔
میرے والد محترم نہ جاگیردار تھے نہ سرمایہ دار، انہیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ سیاست صنعت کاری، سودی بازی نہیں ہے۔ جاگیرداروں کی بندر بانٹ نہیں، وفاداریوں کو تبدیل کرنے اور ہر بدلتے لمحے میں یوٹرن لینے کا نام نہیں ہے، بلکہ سیاست سامراجی طاقتوں کے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا نام ہے۔
اباجی (پروفیسر عبدالغفور احمد) ایسے ہی چند سیاست دانوں میں سے تھے جنہوں نے اپنے ضمیر کو سلامت رکھا۔ وہ وزیر بھی رہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن بھی رہے۔ وہ خود عوام میں سے تھے اور عوام میں ہی رہے۔ انہیں اپنی مٹی پر چلنے کا سلیقہ آتا تھا۔ وہ کبھی سنگِ مرمر پر نہیں چلے، اس لیے پھسلے بھی نہیں۔ اباجی ایک سچے محب وطن پاکستانی تھے اور مرتے دَم تک ان کی وفاداریاں اس پاک وطن کے لیے تھیں۔ انہوں نے خود کو کبھی بھی لسانی اور فرقہ وارانہ تنگ نظری اور نفرت سے آلودہ نہیں کیا۔ اختلافِ رائے میں بھی شائستگی کا دامن ان کے ہاتھ سے کبھی نہ چھُوٹا۔ انہیں دیکھ کر پتا چلتا تھا کہ تحمل، رواداری اور برداشت کسے کہتے ہیں۔ بلاشبہ ہر مکتبِ فکر کے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں نے ان کی شرافت کی گواہی دی۔ اباجی ہماری سیاسی تاریخ کی ظلمت میں روشنی کی وہ کرن تھے جو دلوں میں امید کی شمع روشن کیے ہوتی تھی۔ ابا جان پاکستانی سیاست پر کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ان کی کتابیں تاریخ کا انمول سرمایہ ہیں۔
عبدالحکیم ناصف صاحب نے ابا جی کے بارے میںکیا خوب کہا ہے:
پروفیسر، مصنف، رہنما، مشفق سیاست داں
عجب ایک شانِ وحدت تھے پروفیسر غفور احمد
آج دل چاہا کہ کچھ یادداشتیں پھر سے آپ سب کے لیے قلم بند کروں۔ یقینا پہلے بھی پڑھ چکے ہوں گے لیکن کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو بار بار پڑھنے پر بھی ہر مرتبہ ایک نئی سوچ اور فہم و فراست کا درس دیتے ہیں، جیسے کہ 1980ء کی دہائی میں جب ایم کیو ایم اپنے عروج پر تھی، انتخابات میں مہاجر قومی موومنٹ کی کامیابی پر اُس کے کارکن جشن مناتے اور شورو ہنگامہ کرتے ہوئے ہمارے گھر کے باہر خوب نعرے بازی کررہے تھے۔ وہ تقریباً دو، تین گھنٹے تک ہوائی فائرنگ کرتے اور نعرے لگاتے رہے۔ جب کارکن حد سے بڑھے تو ہم بہن بھائیوں نے ابا جی سے کہا آپ اعلیٰ حکام کو فون کرکے شکایت کریں۔ ایم کیو ایم کے کارکنان کی بدتمیزی بڑھتی جارہی ہے۔
ابا جی نے بہت ہی پیارا جواب دیا ’’میں کس کی شکایت کروں! یہ تو خود اپنا برا کررہے ہیں۔ تم بتائو غفورکس کا نام ہے؟‘‘ ہم نے کہا ’’اللہ کا…‘‘ پھر ابا جی نے کہا ’’میں تو غفورالرحیم کا ادنیٰ سا بندہ ہوں، میں عبدالغفور ہوں، یہ کارکنان جانیں اور ان کا غفور جانے۔‘‘
اس جواب سے ہم سب لاجواب ہوگئے اور ابا جی کے صبر اور برداشت کے قائل ہوگئے۔ اُن ہی دنوںکی بات ہے ایک دن اباجی گاڑی میں اپنے آفس جارہے تھے کہ ایک گاڑی والا کسی راہ گیر کو ٹکر مار کر بھاگ گیا۔ اباجی نے گاڑی روک کر اس زخمی راہ گیر کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور قریبی سرکاری اسپتال لے گئے۔ اسپتال والوں نے اباجی کو دیکھ کر زخمی راہ گیر کی مرہم پٹی کرنے سے انکار کردیا کیوںکہ اس اسپتال پر ایم کیو ایم کا قبضہ تھا۔ ابا جی خاموشی سے بغیر کچھ کہے اس زخمی راہ گیر کو پرائیویٹ کلینک لے گئے، وہاں اس کی مرہم پٹی کروائی اور اسے گھر چھوڑا۔ اباجی ہمیشہ تعصب سے پاک سیاست کے قائل تھے۔
ایک مرتبہ ایک نجی چینل والے ابا جی کا انٹرویو کرنے گھر آئے۔ انٹرویو شروع ہوا تو آواز کمرے سے باہر تک آرہی تھی، جو صحافی انٹرویو لے رہے تھے انہوں نے کچھ بے تکے اور چبھتے ہوئے سوالات پوچھنا شروع کردیے، ایسے سوالات کہ جن سے لامحالہ غصہ آئے۔ وہ صحافی جان بوجھ کر ایسا کررہے تھے، لیکن اباجی بہت تحمل مزاجی اور خوش اخلاقی سے ان سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ جب انٹرویو ختم ہوا اور سب چلے گئے تو میں نے ابا جی سے کہا کہ اتنے بے مقصد اور چبھتے ہوئے سوالات جنہیں سن کر مجھے غصہ آرہا تھا، لیکن آپ مسکراتے ہوئے ان کے جوابات دے رہے تھے، آپ کو غصہ نہیںآیا؟
ابا جی نے کہا ’’انسان کے ظرف اور اس کے اخلاق کی پہچان ہی اُس وقت ہوتی ہے جب کوئی اُسے غصہ دلائے تو وہ کیا ردعمل اختیارکرتا ہے۔‘‘
میں سوچتی ہوں آج کل کے سیاست دان ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم اپنی آنے والی نسلوںکو کیا سکھا رہے ہیں؟ اِس وقت اباجی جیسے سیاست دانوں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
میرے ذہن میں ایسے بے شمار واقعات ہیں، اگر انہیں لکھنے بیٹھوں تو صفحات بھر جائیں۔ اس لیے مضمون کو یہیں ختم کرتے ہوئے باقی یادداشتیں زندگی رہی تو آئندہ وقتاً فوقتاً لکھتی رہوںگی۔
میری اعلیٰ حکام اور اربابِ اختیار سے چند گزارشات ہیں۔ ایک تو یہ کہ کورس کی کتابیں خاص کر پاکستان اسٹڈیز کی کتاب کے سلیبس میں ایمان دار سیاست دانوں کا ذکر ہونا چاہیے۔ 1973ء کے آئین اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کے لیے جن جن سیاست دانوں نے نمایاںکردار ادا کیا اُن کے نام کورس کی کتاب میں ہونے چاہئیں، تاکہ ہماری آنے والی نسل بھی ان سیاست دانوں کو یاد رکھے۔
میں سندھ حکومت کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے والد محترم پروفیسر عبدالغفور احمد کے نام سے کراچی کے علاقے گلستان جوہر کی ایک سڑک منسوب کی۔ گزارش ہے کہ جس کے نام بھی سڑک کو منسوب کیا جائے اس کے سائن بورڈ پر اُس شخصیت کا مختصراً تعارف بھی لکھا ہونا چاہیے کہ یہ کون تھے اور ان کی کیا کیا خدمات تھیں۔ دیکھا گیا ہے جو قومیں اپنی تاریخ فراموش کردیتی ہیں وہ تباہ ہوجاتی ہیں۔ میری دعا ہے کہ آنے والی نسلیں پاکستان کی تاریخ اور دیانت دار سیاست دانوں کو یاد رکھیں۔