کسی بھی ریاست کے بنیادی ستون عدلیہ، مقننہ، فوج، انتظامیہ اور پولیس ہوتے ہیں، جن کی بہترین کارکردگی سے ملک دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا ہے اور اس کی آزادی محفوظ رہتی ہے، ملک میں امن قائم رہتا ہے، اُس ملک کے حکمران، ریاستی اداروں کے افسران اور ذمے داران عوام کی نظروں میں قابلِ احترام ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہ اپنے فرائضِ منصبی سے انصاف نہیں کرتے تو عوام ان کی عزت کرنے کے بجائے ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے ممالک میں خونیں انقلاب برپا ہوتا ہے جس کی مثالیں ماضی اور حال میں بھری ہوئی ہیں۔
اسی طرح ہر معاشرے میں سرکاری ذمے داری اور مناصب سے ہٹ کر کچھ شخصیات نہایت قابلِ احترام ہوتی ہیں جو ملکی سطح پر نسلِِ نو کی تعلیم و تربیت میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان میں پہلے نمبر پر اساتذہ ہیں جنہیں ’’معمارِ قوم و ملت‘‘ کہا جاتا ہے۔
نصف صدی سے پہلے تک ان اساتذہ کو احترام کے حوالے سے اوّلیت حاصل تھی، کیوں کہ یہ نہ صرف علم و آگہی فراہم کرنے کا ذریعہ تھے بلکہ طلبہ و طالبات کے لیے رول ماڈل بھی تھے۔ یہ طلبہ کو علمی، دینی، تہذیبی اور اخلاقی تربیت سے آراستہ کرتے تھے اور اس کام کو کارِِ نبوت سمجھ کر کرتے تھے، اسکول کے اوقات کے بعد بلامعاوضہ یہ طالب علموں کو گھروں پر پڑھایا کرتے تھے۔ والدین بھی اساتذہ کو اپنے بچوں کا روحانی باپ سمجھ کر ان کی عزت و توقیر کرتے اور دیدہ و دل فرشِ راہ کیا کرتے۔ اساتذہ کو ماں باپ کی جگہ مکمل اختیار ہوتا تھا کہ دورانِ تعلیم اور گھر سے باہر بھی شاگردوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش کریں۔ مگر تف ہے اس جدیدیت کو، جس نے تعلیم کو کاروبار بنادیا۔ لہٰذا اب اساتذہ بھی اس پیشے کو کاروبار سمجھ کر اپنانے لگے، نتیجتاً تعلیم کے اس کاروبار اور بروکری میں عزت و احترام اور تکریم و تعظیم کا تقاضا عبث ہے۔ اس کے بعد اساتذہ کو اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ بچوں کی شرارت اور بدتمیزی پر انہیں ڈانٹ ڈپٹ کریں یا کوئی سزا دیں۔
جس انگریزی تہذیب اور جدیدیت نے تعلیم کا یہ طریقہ عام کیا ہے ان کے یہاں ایک مقولہ مشہور ہے:“Spare the rod spoil the child”
اساتذہ واحد ذریعہ تعلیم ہیں جو زندگی کے تمام شعبوں کے لیے نوجوان نسل تیار کرتے ہیں۔ عالم، جج، انجینئر، ڈاکٹر، فلسفی… گویا زندگی کے تمام ہنرمند افراد اساتذہ کے ذریعے معاشرے کی خدمت کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج زندگی کا ہر شعبہ انحطاط پزیر کیوں ہے؟ اور ان کو چلانے والوں کی اکثریت بدعنوان کیوں ہے؟ یہ بات آفاقی سچ کی طرح تسلیم کی جاتی ہے کہ:
’’تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ نسل آنے والی نسل کو اپنے علمی، دینی، تہذیبی، اخلاقی اور ثقافتی ورثے کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ منتقل کرتی ہے‘‘ جو تعلیم کی خرید و فروخت کی نذر ہوگیا اور اساتذہ کا یہ بڑا طبقہ اپنی عزت و تکریم سے محروم ہوگیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں معلم اخلاق بناکر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ اب تو کالج اور یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ کے درمیان احترام کا رشتہ بھی زوال پذیر ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے اس حوالے سے کیا خوب کہا ہے:
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
وہی استاد قابلِ صد احترام ہے جو ان خصوصیات کا حامل ہے۔ ورنہ وہ دو کوڑی کا ہوتا ہے۔
A teacher is that who ponders over the sacred writings of God and wonders of nature and tells about them to the students. He always keeps the interests of the students in first hand. He has high moral value to idealize the students.
(استاد وہ ہے جو مقدس تحریروں اور قدرت کے عجائبات پر غور وفکر کرتا ہے اور ان سے متعلق اپنے شاگردوں کو بتاتا ہے۔ وہ طالب علموں کے مفادات کو ہمیشہ اولیت دیتا ہے۔ وہ ان اعلیٰ اخلاقی قدروں کا حامل ہوتا ہے، جنہیں طلبہ اپنا سکیں۔)
معاشرے کے اہم رکن علماء کرام، مفتیانِ دین اور محدثین ہیں۔ پورے ملک میں مدارس اور دارالعلوم کا نیٹ ورک ہے جہاں سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں علما اور دینی علوم کے ماہرین فارع التحصیل ہوتے ہیں، یہی منبر و محراب اور دینی اداروں میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کی جگہ یہ مسلکی اور فرقہ وارانہ واعظ اور درس دیتے ہیں، نتیجتاً آج ہر مسلک کا حامل مسلمان ایک دوسرے کے لیے نہ صرف کافر بلکہ واجب القتل ہوگیا ہے جس سے آج پورا پاکستان متاثر ہے۔ شدت پسندانہ نظریات کے حامل مسلح گروہوں نے تو کہرام برپا کررکھا ہے جس کا عالمی طاغوتی قوتوں کو براہِ راست فائدہ پہنچ رہا ہے، اور مسلم دنیا آپسی جنگ و جدال میں مبتلا ہے جس کی براہِ راست ذمے داری ان دینی رہنمائوں اور منبر و محراب کے عَلم برداروں پر عائد ہوتی ہے۔ آج نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ خودکش دھماکوں اور علما کی ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے نفرت کا ایسا بازار گرم ہے کہ علما اور دینی رہنما نہ صرف بے قدر ہوچکے ہیں بلکہ بے توقیر کیے جاتے ہیں۔ جبکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔’’ (آل عمران)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مسلمان جسدِ واحد کی مانند ہے۔ اگر جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے‘‘۔ لیکن آج اہلِ غزہ کے لیے روئے زمین پر اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں، جب کہ دنیا میں 57 آزاد مسلم ممالک ہیں جو اسرائیل کے مظالم اور فلسطینیوں کی نسل کُشی کو لگام ڈال سکتے ہیں۔ جب کہ اہلِ غزہ مسجد اقصیٰ کی بازیابی کے لیے جہاد کر رہے ہیں۔ یہ علما بھی درباری ملاؤں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ بے توقیر ہوکر اپنی حیثیت کھو چکے ہیں۔
جج حضرات معاشرے کے اہم ستون ہیں۔ ان کے درست فیصلوں سے ہی معاشرے میں امن قائم رہ سکتا ہے اور جرائم کی بیخ کنی ہوسکتی ہے۔ آج یہ طبقہ حکمرانوں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی کے طور پر استعمال ہورہا ہے، اور فیصلے طبقاتی بنیادوں پر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلوں کو نیلام کرنے والے لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ بالخصوص برصغیر ہند و پاک اور بنگلادیش میں تو اکثر مقتول کے ورثا ہی مجرم ٹھیرا دیے جاتے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں جہاں منصفین طبقاتی فیصلے کرتے ہیں۔‘‘
مت پوچھیے اس دہر میں کیا کیا نظر آیا
انصاف سے توانا قاتل نظر آیا
خون بہا ڈالو ہر قتل کے بدلے
منصف کے ہاتھوں میں تیشہ نظر آیا
(محمد امین اللہ امینؔ)
آج یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ قومی خزانہ لوٹنے والے صدر اور وزیراعظم بن جاتے ہیں اور ایک فقیر روٹی چوری کے الزام میں برسوں جیل میں چکی پیستا ہے۔ گجرات کا قاتل چائے والا بھارت کا وزیراعظم بن جاتا ہے اور لوگوں کو شیشہ گھروں کے عقوبت خانوں میں سالہا سال رکھنے والی حسینہ برسوں ملک پر حکمرانی کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں انقلابات جنم لیتے ہیں۔
تری گفتار پہ حیرت ترے کردار پہ خاک
قاضیِ عصر ترے عدل کے دربار پہ خاک
جس میں سچائی کو مصلوب کیا جاتا ہے
شہرِ انصاف ترے کوچہ و بازار پہ خاک
ظلم کے باب میں اک رسم نئی لکھنے کو
تُو نے قاتل کو جو پہنائی ہے، دستار پہ خاک
(نوشی گیلانی)
ڈاکٹر اور حکما جو انسان کی تمام تر صحت و تندرستی بحال رکھنے اور لوگوں کو شفایاب کرنے کے ذمے دار ہیں، آج ان کی عزت و احترام لوگ صرف اور صرف بیماری کی حالت میں ہی کرتے ہیں۔ متوسط طبقہ علاج معالجے کے اخراجات اور ڈاکٹر کی فیس برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا۔ شدید بیماری کی صورت میں جب وہ مجبوراً کسی نجی اسپتال میں داخل ہوتا ہے تو اخراجات کے بوجھ تلے دب کر قرض دار ہوجاتا ہے۔ مریض اچھا تو ہوجاتا ہے لیکن علاج کرانے کے چکر میں مقروض بھی ہوجاتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں دوائیں میسر نہیں ہوتیں اور سرکاری ڈاکٹر اپنے ذاتی کلینک میں مریضوں کو آنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ رفاہی اسپتال ویسے تو کم ہیں مگر وہ بھی اب دھیرے دھیرے کاروباری بنتے جارہے ہیں۔ ادویہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جان لیوا امراض کی دوائیں اتنی مہنگی ہیں کہ غریب اور متوسط طبقے کی قوتِ خرید سے باہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں کو لوگ مسیحا کے بجائے قسائی کہنے لگے ہیں۔ کیوں کہ آدمی کی عزت اور احترام اس کے اعلیٰ کردار، اخلاق اور خدمتِ خلق کی وجہ سے ہوتا ہے۔
یہ بات نہیں ہے کہ یہ تمام طبقات معاشرے میں اپنی حیثیت بالکل کھو چکے ہیں، بلکہ آج بھی عمومی طور پر ان کا احترام باقی ہے، مگر اکثریت اپنے کردار اور فرائض کے ساتھ ناانصافی کرنے کی وجہ سے بدنام ہے۔
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
(شیخ ابراہیم ذوقؔ)