جانبدار میڈیا:
ایکسپریس ٹریبیون ، ڈان کے کئی عشروں بعد شروع ہوا لیکن مسلم معاشرت میں مذہب بیزاری پیدا کرنے کی دوڑ میں آگے ہی ہے۔ سارہ کیس میں 19دسمبر 2024کو اپنے ایڈیٹوریل میں زبردستی بغیر کسی دلیل اور حوالے کے یہ لکھنا کہ
Some reports suggest Urfan had also claimed that he was allowed to beat her because it was part of his Pakistani-Muslim culture.
آپ نے نوٹ کرلیا ہوگاکہ اِس ایک جھوٹے زہریلے جملے نے پاکستان و اسلام دونوں پر حملہ کیا ہے۔ یہ ہے وہ حرکت جو یہ اسلام و پاکستان دشمن ادارے کررہے ہوتے ہیں۔یہ جانب داری کا معاملہ انتہائی ہولناک صورت اختیار کر چکا ہے۔اس غلیظ جانبداری کا پوسٹ مارٹم کرنے کی کوشش کریں گے۔سوشل میڈیا پر ’سارا شریف قتل ‘کا یہ موضوع عالمی سطح پر توجہ پا چکا ہے۔10سالہ بچی سارہ شریف کا یہ قتل 10اگست 2023 کو برطانیہ کی سرے پولیس کے سامنے آیا، کیس کا فیصلہ 17 دسمبر 2024 کو قاتل باپ و سوتیلی ماں اور چچاکو سزا پرختم ہوا۔
برطانوی وزیر اعظم بھی ٹوئیٹ کررہا ہے کہ ،’’سارہ شریف کے اذیت ناک قتل کے بعد بچوں کی سماجی نگہداشت کی اصلاحات پر سبق سیکھنا ضروری ہے۔‘‘ برطانیہ میں نئی قانون سازی پر کام شروع ہوگیا۔ میں سال بھر سے اس کیس کو دیکھ رہا ہوں۔تمام بڑے برطانو ی نشریاتی اداروں کی خبریں و تجزیے دیکھتا رہا ہوں۔یہی نہیں سوشل میڈیا پر سارا شریف کے باپ کی پولیس کو فون کال کی ریکارڈنگ سے لیکر گرفتاری کے بعد مجرموں کے بیانات بھی دیکھے ۔ تمام میڈیا نے قتل کے محرکات ، قتل کی وجوہات کو چھپایا ہے جیسے وہ کرتے ہیں۔ کسی نے بھی کہیں کوئی ٹھوس وجہ نہیں بیان کی۔ میں حیران ہوں کہ جب کہیں کوئی وجہ ،محرک رپورٹ نہیں ہوا تو ایکسپریس کے ایڈیٹوریل کے پاس ان کے علاوہ کونسی رپورٹس ہیں جس میں قاتل باپ کا پاکستان و مسلم کلچر سے متعلق بیان ظاہر ہوا۔ اس لیے یہ صاف جانبداری ، پیشہ وارانہ بددیانتی ہی نہیں اپنے ملک و مذہب کے ساتھ غداری جیسا کام ہے۔
جو حقیقت چھپالیتے ہیں:
جب آپ کو کوئی چیز اسلام سے جوڑنی ہو تو یہ اُصول ہے کہ یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ اسلام کہتا کیا ہے؟ایک مسلمان پر لازم یہی ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا نہیں احکام الٰہیہ کا پابند ہوتا ہے۔ قرآن مجید ہو یا پورا اسلامی تعلیمات کا سلسلہ وہ مستقل انسان کو، اپنے مخاطب کو، مسلمان کو حقیقی کامیابی کے لیے نفس کا تزکیہ، نفس پرقابو، خواہشات نفسانی کو دباکر اطاعت رب کا پابند بناتا ہے۔ اس کے لیے خالق نے اپنی محبوب ترین ہستی کو عملی تشریح کی صورت بھی مبعوث فرما دیا تاکہ لوگوں کے لیے آسانی ہو ۔ جو کچھ دین بتا رہا ہے ، جو خالق حکم دے رہا ہے وہ سب کا سب واقعاتی حقیقت بھی بن سکے۔ یہ اتنا اہم معاملہ ہےکہ صحیح مسلم شریف میں چہرے پر مارنے کی ممانعت کے بیان میں پورا باب تشکیل دیاگیا ہے۔اس ذخیرے میں ایک حدیث میں گدھے کے چہرے پر مارنے والے پر نبی کریمﷺ ، محسن انسانیت نے لعنت فرمائی ہے۔ جو دین کسی جانور کے بھی چہرے پر مارنے کی سخت ممانعت و لعنت بیان کرتا ہے ۔ جس دین اسلام کا شارح بیٹی کے بارے میں یہ فرماتا ہے کہ ،جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ نہ تواسے کوئی تکلیف پہنچائے، نہ ہی اسے بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ کریم اسے جنت میں داخِل فرمائے گا۔ (مستدرک، 5/248 ، حدیث: 7428)وہاں ایسی ہولناکی کاتصور بھی کیسے ہوگا۔اس حقیقت کو فراموش کرکے جو ’دین دشمن تجزیہ کار‘ زہر انڈیلتے ہیں ،اُس سے ہمیں ہوشیار بھی رہنا ہوگا اور دور بھی۔
کیا صرف سارہ ہی قتل ہو رہی ہے:
سوشل میڈیا پر اس ہفتے سارہ ہی نہیں 2 مزید کیسز ڈسکس ہوئے ہیں۔ امریکی ریاست وسکانسن کےایک نجی عیسائی اسکول میں 15سالہ طالبہ بندوقیں لیکر اسکول میں داخل ہوئی ۔اُس نے اندھا دھند فائرنگ کرکے اسکول ٹیچر سمیت4طلبہ ہلاک کردیئے۔6 طلبہ گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ بعد ازاں لڑکی نے بھی خود کو گولی مار لی ( میڈیا رپورٹس)۔امریکہ میں یہ واقعات مستقل بڑھتے جا رہے ہیں۔صرف اس سال ایسے عوامی دہشت گردی واقعات کی تعداد400 سے زائد ہو چکی ہے ۔امریکہ میں سب لوگ کہتے ہیں کہ وہاں بہت صفائی ہے سڑکیں ، پانی، بجلی، گٹر بھی نہیں ابلتے، تعلیم، صحت، نوکری، بنیادی حقوق سب کچھ تو ہیں۔ یہ 15 سال کی لڑکی کو کیا ہوا کہ بندوق لیکر اپنے ہی اسکول کے استاد و ساتھیو کو قتل کرگئی۔یہی نہیں اپنی زندگی بھی بے وقعت جان کر ختم کر گئی تاکہ قتل کی وجہ معمہ ہی رہ جائے۔
18 دسمبر کو نیو میکسیکو میں 16 سالہ لڑکے نے گھر میں اپنے ہی خاندان کو قتل کردیا۔یہ بھی ایک درجہ اچھا ہے کہ اب کوئی مسلمان یا اسلام کا واسطہ نہیں ڈھونڈا جارہا،مگر گوری چمڑی والوں کو کئی کئی قتل کرنے پر دہشت گرد بھی نہیں لکھا جارہا۔دماغی مریض کہنے کا سلسلہ جاری ہے۔پاکستان کے اسکولوں و تعلیمی نظام پر بہت تنقید ہوتی ہےلیکن اب امریکی اسکولوں میں کیا پڑھایا سکھایا جا رہا ہے اس پر بات شروع ہو چکی ہے۔وہاں طلبہ مستقل براہ راست نشئی، زانی، قاتل بن رہے ہیں۔امریکہ کے طرز زندگی، معاشرت و تہذیب پر دیوانےلوگ اس سفاک حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ وہاں کی تعلیم ہی نہیں، آب و ہوا، غذا ، لبرل معاشرت ہی ایسے سفاک بچوں کی فیکٹری لگا رہی ہےجو والدین کو بھی کھا جائیں۔
ایک جھلک برطانیہ کی بھی:
یہ تو سارہ کا کیس تھا جس میں باپ نے خود فون کرکے پولیس کو اطلاع دی کہ اُس کےہاتھوں بیٹی کا قتل ہو گیا ہے۔ مگر18 دسمبر کو برطانیہ ایسیکس کے علاقے ساؤتھ اوکینڈن کے ایک گھر سے 5سالہ بچے کی لاش نکلی ۔بچے کی شناخت لنکن بٹن کے نام سے ہوئی جس کا قاتل اور قتل کے محرکات بھی نامعلوم ہیں۔تاہم ایک خاتون کو قتل کے شُبے میں گرفتار کیا گیاہے لیکن ان کی شناخت اور بچے سے رشتہ ظاہر نہیں کیا گیا۔
این ایس پی سی سی کی ایک بریفنگ میں خبردار کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں اوسطا ایک ہفتے میں کم از کم ایک بچہ مارا جاتا ہے ۔ بچوں کے قتل عام طور پر والدین یا سوتیلے والدین کی وجہ سے ہوتے ہیں ؛ ۔”پانچ سالوں میں برطانیہ میں ایک سال میں 62 بچوں کی اموات ہوئیں ۔این ایس پی سی سی (نیشنل سوسائٹی فار دی پریوینشن آف کرویلٹی ٹو چلڈرن ) 1884 میں قائم کیا گیا برطانوی تحقیقاتی ادارہ ہے ۔۔ ایکسپریس ٹریبیون کے پاس تو اپنے بیان کے لیے کچھ نہیں مگر www.willispalmer.comپر موجود یہ رپورٹ پوری دُنیا کو صاف بتا رہی ہے کہ یہ مسئلہ مغربی معاشرت کی جڑ میں پہنچا ہوا ہے۔اس کو اسلام سے جوڑنا، پاکستانیت سے جوڑنا اِنتہائی قبیح بددیانتی پر مبنی فعل ہے۔
سیدھی بات:
جب اسلام کی ایسی کوئی تعلیمات ہی نہیں ، بلکہ ممانعت ہے تو کیسے اسلام کوایسے کسی عمل کا ذمہ د ار قراردیا جا سکتا ہے؟ البتہ جس نظریے میں اس جانب رغبت ہو، اِس درندگی کی طرف جھکاؤ ہو تو یہ تجزیہ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ ایسی سفاکی کا محرک یہی نظریہ ہے۔ بدقسمتی سے دنیا میں یہی نظریہ غالب ڈسکورس ہے۔ اِس نظریے کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ نہیں ہوتا، جیسے اسکولوں میں دینیات ، اسلامیات کے مضامین ہوتے ہیں ۔ یہ اپنی قوت نافذہ کی وجہ سے انسان کے لاشعور میں پنپتے رہتے ہیں، پورا کا پورا نظام اُس کے لیے حالات موافق کرتا رہتا ہے تو لوگ ازخود اُس میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ وہ جس لبادے میںآتے ہیں وہ انتہائی خوشنما ہوتا ہے۔ جیسے humanity،ہیومن رائٹس، آزادی، ایکویلیٹی سمیت کئی عنوانات ہیں۔یہ سارے اُس نظام حیات کے بنیادی عقائد ہیں۔ اس کو ہم لبرل ازم کہتے ہیں۔
لبرل ازم:
مغربی معاشرت کے ایسے کیسز کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ’لبرل ازم ‘ کو کم از کم سطح پر جاننا ضروری ہے۔لبرل ازم مغربی مفکرین کی غلیظ فکر سے نکلنے والا ایک مکمل سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ نظریہ حیات بن چکاہے ۔ یہ کسی بھی خدا کی حاکمیت کو نہیں مانتا بلکہ صرف فرد کی آزادی اور حقوق پر کھڑا ہے۔ صحیح ،غلط کیا ہے ،یہ سب میری عقل، میری مرضی طے کرے گی۔ اُس کے مطابق یہی فطرت ہے کہ انسان اپنے عمل کی مکمل آزادی سے زندگی گزارے ۔مغربی مفکرین میں ایمانوئیل کانٹ،ڈیکارٹ، جان اسٹوارٹ مل، جرمی بنتھم، والٹیئر، آسکر وائلڈ سمیت کئی مغربی مفکرین اس شیطانی نظریے میں جان ڈالنے کا بھرپور کام کیا۔
یہ نظریہ صرف (الٰہی ، بادشاہی) حکومت ، مذہب ہی نہیں بلکہ روایتی سماجی خاندانی پابندیوں سےبھی مکمل آزادی کا دعویدار ہے۔لبرل ازم یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ افراد اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق رکھتے ہیں۔اُن کی یہ آزادی چھینی نہیں جا سکتی۔ یہ کام کروانے کے لیے وہ ’ماڈرن اسٹیٹ‘ کو ذمہ دار بناتا ہے۔اس لیے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ نظریہ کا کوئی رنگ، روپ، نہیں ہوتا ۔ لبرل ازم کا نظریہ جب کسی کے اندر داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے انسانی رشتوں کی تقدیس ختم کرتا ہے۔جیسے کوئی کینسر یا ایڈز کی بیماری کا شکار ہوتا ہے تو پہلے بخار، موشن، کھانسی وغیرہ کی علامات سامنے آتی ہیں پھر آہستہ آہستہ جب وہ وائرس جگہ بناتا ہے تو اصل بیماری کے رنگ واضح ہوتے ہیں۔ یہ مغربی نظریات بھی ایسے ہی ہیں۔
تخم خبیث:
برصغیر کے ایک بڑے مفکر سید مودودی ؒ نے مغرب کو ’تخم خبیث‘ قرار دیا، وہ جانتے تھے کہ جس بھی مٹی میں یہ تخم داخل ہوگاوہاں خباثت ہی پیدا کرے گا۔اس لیے مغربی نظریات آپ کے اندر چلے گئے ہیں ،اس کی پہلی علامت یہ ہوتی ہے کہ انسانی رشتوں یعنی ماں باپ، بھائی بہن، خاندان، رشتہ دار،پڑوسی، دوست احباب سے تعلق کی جو روایتی تقدیس ہزاروں سال سے چلی آرہی ہوتی ہے ،خواہ اسلامی ہو یا اسلام سے قبل کی روایت سب ختم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ نظریہ ’فرد‘ کی آزادی (خواہش) کی راہ میں ہر ہر حد کو ختم کرنے کا قائل ہے۔فرد کو مکمل آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے ہر عمل کو پورا کرے۔اب جب سب ایسا کریںگے تو معاشرت میں افرا تفری، فساد ہوگا تو اُس کو قابو کرنے کے لیے مستقل قانون سازی ہوگی اور سب کو ایک قانون کا پابند ہونا پڑے گا۔یہ قانون ماڈرن اسٹیٹ نافذ کرے گی کیونکہ جو سب لوگ ’’آزاد ‘‘ہو چکے ہیں تو اب اُن کو آپس میں ٹکرانے سے روکنا بھی تو ہے ۔اس لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ سارہ قتل کے بعد دوبارہ قانون سازی کی بات شروع ہو گئی۔
موٹی موٹی چند مثالیں:
چند واقعاتی اور موٹی موٹی واضح مثالوں سے سمجھ لیں۔مغرب میں تو ہیں ہی مگر اس کے باہر بھی جس نے یہ نظریہ کسی صورت اپنایا وہاں خاندانی اقدار تو دور کی بات نسل ہی کے لالے پڑگئے ہیں۔چین :آبادی کے بدترین بحران کا شکار ہوچکا ، خواتین کو لالچ دیئے جا رہے ہیں کہ بچہ پیدا کرو۔ جاپان: سب کچھ کرلیا ، جاپانی بچے پیدا نہیں کررہے۔کرائے پر رشتہ دار دستیاب، روبوٹ سے شادیاں، ہم جنس پرستی عام۔جنوبی کوریا: بچوں کی پیدائش پر انعامات۔روبوٹ سے شادیاں، ہم جنس پرستی ۔سنگا پور: پیدائش کی شرح ایک سے بھی نیچے چلی گئی۔ روس: یورپ: امریکہ سب جگہ یہی اعداد و شمار ہیں۔
پیدا شدہ کے ساتھ بے اعتنائی کی کیفیت یہ ہےکہ اولڈ ہاؤسز اب ’’سینئر کیئر انڈسٹری ‘‘بن چکے ہیں۔امریکہ میں 90 بلین ڈالر 2023 میں اس کا حجم تھا۔لوگ والدین کو ساتھ کیوں نہیں رکھنا چاہتے؟ میں نے چین، روس سے بات اسلیے شروع کی کیونکہ لبرل ازم کا نظریہ عالمگیریت چاہتا ہے ،یہ غلیظ نظریہ امریکہ کی جاگیر نہیں ہے ۔جب کسی کو والدین کی خدمت نہیں کرنی تو بچوں کی دیکھ بھال کیسے کرے گا؟ یوں ڈے کیئر سینٹرزاس وقت دنیا میں منظم کمرشل انڈسٹری بن چکے ہیں ۔یہ کیسا انسان ہے جو والدین کو نہیں رکھنا چاہتا،بچوں کو نہیں پالنا چاہتا تو پھر ایسی ’’غلیظ سفاکی ‘‘مزید آگے کیوں نہیں جائیگی ؟یہ پاکستان ہو یا جاپان، امریکہ ہو یا برطانیہ یہ کیفیت خالص مغربی نظریات پر کھڑی ہے۔