سیلف ایمپلائمنٹ کی گرم بازاری

48

غلامی کون پسند کرتا ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ بہت سوں کو نوکری بھی غلامی لگتی ہے۔ کسی کے ماتحت ہوکر کام کرنے میں قباحت محسوس کرنے والوں کی تعداد ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ کام اِس طور کیا جائے کہ کسی کی غلامی کا شائبہ تک نہ ہو۔

ایک زاویے سے دیکھیے تو یہ خواہش کچھ بُری نہیں کہ کسی کے ماتحت کام کرنے سے بہتر یہ ہے کہ انسان اپنی مرضی کے مطابق کام کرے اور پوری آزادی کے ساتھ اپنی صلاحیت کو بروئے کار لائے۔ جب انسان اپنی مرضی کے مطابق کام کرتا ہے تو کام بھی زیادہ کرتا ہے اور اُس کا معیار بھی بلند ہوتا ہے۔ ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ معاشرہ ترقی یافتہ ہو، ترقی پزیر یا پھر پس ماندہ… اکثریت کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے کام کریں اور کسی کے بے جا دباؤ یا نگرانی کے تحت کچھ نہ کریں۔

سیلف ایمپلائمنٹ ہمارے معاشرے میں کوئی نیا تصور نہیں۔ سبزی اور پھل بیچنے والے، الیکٹریشین، رکشا ٹیکسی چلانے والے، چھابڑی لگانے والے، پرچون فروش، پلمبرز، دہی بڑے اور گول گپے وغیرہ بیچنے والے، پھیری لگانے والے، ٹھیے لگاکر چیزیں بیچنے والے… یہ سب سیلف ایمپلائیڈ ہوتے ہیں، یعنی کسی کے ملازم نہیں ہوتے بلکہ اپنے طور پر کام کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق نرخ یا فیس مقرر کرکے وصولی کرتے ہیں۔

ٹیکنالوجیز نے کام آسان کردیا
پاکستانی معاشرے میں دو ڈھائی عشروں کے دوران ذاتی کام یا سیلف ایمپلائمنٹ کا رجحان بہت تیزی سے پروان چڑھا ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ٹیکنالوجیز کے شعبے میں پیش رفت نے بہت کچھ آسان کردیا ہے۔ ڈھائی تین عشروں کے دوران طرح طرح کی ٹیکنالوجیز کی آمد نے کئی شعبوں کو انقلابی نوعیت کی تبدیلیوں سے ہم کنار کیا ہے۔ بعض شعبے تو بالکل بدل گئے ہیں اور اب لوگوں کو یاد بھی نہیں کہ برسوں پہلے کام کس طور ہوا کرتا تھا۔

ٹیکنالوجیز کی مہربانی سے رابطے آسان ہوگئے ہیں۔ کسی زمانے میں جو رابطے تعیشات میں شمار ہوتے تھے وہ اب معمول کا حصہ ہیں اور وہ بھی برائے نام خرچ پر۔ ساتھ ہی ساتھ ٹیکنالوجیز کی مہربانی سے بہت سی مہارتوں کا حصول آسان ہوگیا ہے۔ یہ آسانی کام کرنے والوں کے لیے نعمت سے کم نہیں۔

مرضی کے اوقاتِ کار
سیلف ایمپلائمنٹ کا تصور اس لیے بھی تیزی سے پروان چڑھا ہے کہ نئی نسل اپنی مرضی کے اوقاتِ کار چاہتی ہے۔ اگر انسان کسی کا نوکر نہ ہو اور اپنے لیے کام خود تلاش کرتا ہو تو اوقاتِ کار بھی خود ہی متعین کرتا ہے۔ اِس صورت میں وہ اپنی مرضی کے مطابق آرام کرسکتا ہے۔ فی زمانہ یہ معاملہ بہت اہم ہے کیونکہ دنیا بھر کے بڑے شہروں کا رقبہ بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ لوگوں کو کام پر جانے اور آنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس پر پیسے بھی بہت خرچ ہوتے ہیں، وقت بھی ضایع ہوتا ہے اور تھکن بھی اچھی خاصی ہوجاتی ہے۔

زیرِحکم نہ ہونے کا سُکون
سیلف ایمپلائمنٹ کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان کسی کے زیرِنگیں یا زیرِحکم نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُسے بے جا و بجا باتیں نہیں سننا پڑتیں۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ قصوروار ہونے پر بھی تنقید یا سرزنش ہضم نہیں کر پاتا۔ ایسے میں بنا قصور کے کسی کی بے جا بات کیوں برداشت کی جائے؟

صلاحیت کے مطابق آمدنی
جب انسان اپنے طور پر کام کرتا ہے تو معاوضہ، فیس یا چارجز بھی خود ہی طے کرتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ اپنی مرضی کے مطابق معاوضہ طے کرسکتا ہے اور ایسا نہ ہو تو کام سے معذرت یا انکار بھی کرسکتا ہے۔ یہ سب کچھ کھلے بازار کی معیشت کے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ کسی چیز کی ڈیمانڈ ہو تو زیادہ قیمت ملتی ہے۔ اور پھر جس کے پاس کام کی چیز یا مہارت ہو اُسے وہاں جانا چاہیے جہاں اُس کی طلب ہو۔ اِس صورت میں وہ زیادہ وصولی کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔

کام کا دائرہ پھیلانے کی گنجائش
جب بھی کوئی شخص اپنے طور پر کام کرتا ہے یعنی سیلف ایمپلائمنٹ کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کو پھیلا بھی سکتا ہے۔ وہ کسی کے زیرِحکم نہیں ہوتا، اس لیے جس قدر بھی کام کرنا چاہتا ہے، کرسکتا ہے۔ نوکری کی صورت میں انسان پابند ہوتا ہے اور حکم کے مطابق کام کرتا ہے۔ بہت سی ملازمتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی زیادہ کام کرنا چاہتا ہے مگر اِس کی گنجائش نہیں ہوتی۔ معاملہ معاوضے کا آجاتا ہے۔ آجر جب محسوس کرتا ہے کہ وہ زیادہ معاوضہ نہیں دے سکے گا تو کام بھی حساب کتاب سے کرواتا ہے۔

یومیہ سفر کے جھنجھٹ سے نجات
جو لوگ اپنا کام کرتے ہیں یعنی کسی کے ملازم نہیں ہوتے اُنہیں یومیہ سفر سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ فی زمانہ کام پر جانا اور واپس آنا بھی ایک بڑا جھنجھٹ ہے۔ بڑے شہروں میں لوگ کام پر جانے اور آنے ہی میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ سفر کا خرچ اپنی جگہ، وقت کا ضیاع بھی روکا نہیں جاسکتا اور تھکن بھی دل و دماغ کی چُولیں ہلا دیتی ہے۔ کراچی ہی کی مثال لیجیے۔ لاکھوں افراد روزانہ کام پر جانے اور گھر واپس آنے کے لیے ڈیڑھ سے دو سو روپے تک خرچ کرتے ہیں اور کم و بیش ڈھائی گھنٹے اس مشقت پر صرف کرتے ہیں۔ اس یومیہ سفر سے وہ اس قدر تھک جاتے ہیں کہ مزاج میں بیزاری اور چڑچڑاپن بڑھ جاتا ہے۔

سیلف ایمپلائمنٹ میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔ جب کوئی کسی سے کام کرواتا ہے تو بہت اچھا کام کیے جانے کی صورت میں خوب سراہتا ہے۔ اس صورت میں پروفیشنل ازم کی سطح بلند ہوتی ہے، زیادہ کام ملتا ہے اور یوں انسان زیادہ کماتا ہے۔ کسی کے کام سے متاثر ہونے والے دوسروں کو بھی بتاتے ہیں جس کے نتیجے میں مزید کام ملنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ سیلف ایمپلائمنٹ میں صرف کامیابیاں لکھی ہیں۔ اس طریق سے معاشی سرگرمیاں چلانے والوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ بہت سوں کو آپ دیکھیں گے کہ ملازمت میں تو ٹھیک تھے مگر جب انہوں نے اپنا کام شروع کیا تو پریشان ہوئے اور پھر ناکامی سے بھی دوچار ہوئے۔

آخر کیا سبب ہے کہ بہت سے لوگ انتہائی باصلاحیت ہونے کے باوجود پروفیشنل سطح پر خاصے ناکام رہتے ہیں؟ لوگ اُن کے ہنر کو تو تسلیم کرتے ہیں مگر اُنہیں کام دینے سے گریز کرتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے کہ بہت سے لوگ جدید ترین ٹیکنالوجیز اور اپنے شعبے کے تمام رجحانات سے واقف ہونے کے باوجود کچھ زیادہ نہیں کر پاتے؟ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔

متوقع مسابقت کا جائزہ لینا لازم ہے
کسی بھی کام میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اُس شعبے میں مسابقت کتنی ہے اور جہاں کام کرنا ہے وہاں کیا کیفیت ہے۔ سیلف ایمپلائمنٹ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جائے اور یہ تصور کرلے کہ کام چل کر اُس کے پاس آ ہی جائے گا۔ ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ فطرت کے اصول کے خلاف ہے۔ کنواں اگر چاہتا ہے کہ اُس سے پیاس بجھائی جائے تو لازم ہے کہ وہ اپنے ہونے کا ڈھول پیٹے، کوئی پیاسوں کو اُس کے بارے میں بتائے۔ جہاں طلب ہو وہیں رسد کی گنجائش ہوتی ہے۔ اگر کسی کو اپنا مال بیچنا ہے تو خریداروں تک جانا پڑے گا۔ یا پھر تشہیر کاری کرنا پڑے گی تاکہ لوگوں کو پتا چلے اور وہ اُس کے پاس آئیں۔

فاضل افرادی قوت قیمت گرا دیتی ہے
سیلف ایمپلائمنٹ میں ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ فی زمانہ مسابقت بڑھ گئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ کسی کی نوکری کے بغیر کام کرنا اور زیادہ کمانا چاہتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں ہر شعبے میں افرادی قوت کی بھرمار ہے۔ جب رسد زیادہ ہو تو قیمت نیچے آجاتی ہے۔ بعض شعبوں میں سیلف ایمپلائمنٹ کے حوالے سے یہی صورتِ حال ہے۔ گرفک ڈیزائننگ کی فیلڈ اِسی لیے پِٹ گئی ہے کہ گرافک ڈیزائنر بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ ہزاروں نوجوان گرافک ڈیزائننگ سیکھنے کے بعد گھر بیٹھے کام کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ کام ملے اور دام بھی مزے کے ہوں۔ ایسا کیسے ممکن ہے، جبکہ فیلڈ میں جتنا کام ہے اُس سے زیادہ افرادی قوت موجود ہے؟

کانٹنیٹ رائٹنگ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جو لوگ برسوں کی ریاضت کے نتیجے میں کچھ سیکھ کر اخبارات، جرائد اور ویب سائٹس کے لیے لکھا کرتے ہیں وہ تو خیر اپنی جگہ، مگر معاملہ یہ ہے کہ اب کوئی بھی چار جملے سیکھ کر سامنے آجاتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ بھی کانٹینٹ رائٹر ہے اور کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔

آسانی کی تلاش سے مشکلات
مارکیٹ میں جب افرادی قوت بہت زیادہ ہو تو اجرت متاثر ہوتی ہی ہے اور ہورہی ہے۔ سیلف ایمپلائمنٹ کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ آج کل کراچی میں ایک نیا ٹرینڈ چلا ہے۔ جو لوگ نوکری نہیں کرنا چاہتے وہ تیس چالیس ہزار روپے کا کیبن بنواکر اُس میں بیس پچیس ہزار روپے کا سامان ڈال کر کہیں بھی کیبن کھڑا کرکے دھندا شروع کردیتے ہیں۔ اس کام کے لیے چونکہ تربیت اور مہارت درکار نہیں ہوتی اس لیے ہزاروں کیبن لگے ہوئے ہیں۔ جہاں کبھی ایک یا دو کیبن ہوا کرتے تھے وہاں پندرہ بیس کیبن دکھائی دیتے ہیں۔

بے مہارت کے کام کی بھرمار
یہی حال رکشوں کا بھی ہے۔ رکشہ قدرے سستی گاڑی ہے اور اُسے چلانے کے لیے بہت زیادہ مہارت بھی درکار نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ لوگ بیس تیس ہزار روپے ایڈوانس دے کر رکشا نکلواتے ہیں اور چلانا شروع کردیتے ہیں۔ اب رکشوں کی اِتنی بھرمار ہے کہ آمدن معمولی سطح پر آگئی ہے۔

جب آن لائن کیب کا سسٹم نیا نیا آیا تھا تب گاڑیاں کم تھیں اور آمدنی زیادہ۔ اب اس سسٹم میں گاڑیاں اِتنی زیادہ ہیں کہ بارہ پندرہ لاکھ کی گاڑی چلانے والے بھی زیادہ نہیں کما پاتے۔ مسابقت بڑھنے سے متعلقہ اداروں کے نخرے بھی بڑھ گئے ہیں۔ آن لائن ٹیکسی یا رکشا چلانا ایک حد تک سیلف ایمپلائمنٹ ہی ہے، تاہم سواری کی بکنگ کے لیے متعلقہ ادارے کی ایپ سے جُڑے رہنا لازم ہے۔ بہت سے لوگ اپنا نیٹ ورک بناکر سواریاں بک کرتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں مسابقت بہت زیادہ ہوجانے سے کمائی کا گراف گرگیا ہے۔

ہنر سیکھنے پر توجہ دی جائے
حالات کا رونا عام طور پر وہ لوگ روتے ہیں جو ہنر سیکھنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ ہنر نہ سیکھنے والوں کے لیے مسابقت ہمیشہ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مزدوری کرنے والوں کی تو بھرمار ہے۔ اگر کوئی مزدوری تلاش کرنے نکلے گا تو کام آسانی سے نہیں ملے گا کیونکہ یہ کام سبھی کرلیتے ہیں۔ سوال ہنرمندی کا ہے۔ درزی، الیکٹریشن، ریفریجریٹر مکینک، موٹر سائیکل مکینک، کار مکینک، پلمبر، پنکھے بنانے والے، اے سی مکینک، سیل فون کی مرمت کرنے والے… یہ سب ہنرمند ہیں۔ اِن کی طلب زیادہ ہے اس لیے آمدنی بھی زیادہ ہے۔

سیلف ایمپلائمنٹ کی صورت میں انسان کے پاس جو وقت بچتا ہے اور آمد و رفت کے کرائے کی مد میں خرچ ہونے سے جو رقم بچ جاتی ہے اُسے معقول حد تک بروئے کار لانا چاہیے۔ اِسی صورت انسان اپنے لیے آسانی سے کچھ زیادہ کمانے کی گنجائش پیدا کرسکتا ہے۔ جو وقت ضایع ہونے سے رہ گیا ہے وہ ضایع نہیں ہونا چاہیے۔

کام کرنے کی لگن جوان رہنی چاہیے
جس طور ورک فرام ہوم کی صورت میں بہت سے لوگ سہل پسندی کے عادی ہوجاتے ہیں اور کام میں دلچسپی برقرار نہیں رہتی بالکل اُسی طرح بہت سے لوگ سیلف ایمپلائمنٹ کی صورت میں ہر بندھن سے آزاد ہونے پر کام کو ایک طرف ہٹاکر اپنا وقت فضول سرگرمیوں میں ضایع کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہے سیلف ایمپلائمنٹ کا سب سے تاریک پہلو۔ ایسی صورت میں یہ پورا شعبہ ہوائی روزی بن کر رہ جاتا ہے۔ جو لوگ اپنا کام کرنا چاہتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اوقاتِ کار متعین بھلے ہی نہ ہوں، کام تو زیادہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ کسی کی غلامی سے نجات پانے کے بعد اپنی غلامی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اوقاتِ کار کی راحت الگ چیز ہے اور زیادہ کام کرنا الگ چیز۔ اِن دونوں معاملات کو اچھی طرح سمجھنا لازم ہے۔

تجربہ کار افراد راہ نمائی کریں
سیلف ایمپلائمنٹ اچھا اور خاصا بارآور تصور ہے، تاہم یہ اُسی وقت کارگر ثابت ہوتا ہے جب اِسے خوب سوچ سمجھ کر اپنایا جائے۔ لوگ اندھادھند اِس طرف آرہے ہیں جس کے باعث خود بھی کچھ نہیں کما پارہے اور دوسروں کے لیے بھی مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ اس حوالے سے متعلقہ تجربہ کار افراد کی طرف سے عمومی سطح پر نئے آنے والوں کی orientation اور mentoring لازم ہے۔ سیلف ایمپلائمنٹ کی طرف پہلے پہل آنے والے اوقاتِ کار کی پابندی سے آزاد ہونے پر وقت ضایع کرتے رہتے ہیں۔ وہ کام پر توجہ دینے کے بجائے آزادی کو انجوائے کرنے لگتے ہیں۔ یہ کیفیت طول پکڑ جائے تو کام پر سے اُن کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ یہ عدمِ توجہ اُن کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے اور صلاحیت و سکت کو زنگ لگتا جاتا ہے۔ سیلف ایمپلائمنٹ کا وسیع تجربہ رکھنے والوں کو نئے آنے والوں کی راہ نمائی کرنی چاہیے، اُنہیں سیلف ایمپلائمنٹ کی ڈائنامکس کے بارے میں بتانا چاہیے، عمومی مزاج اور موڈ سے روشناس کرانا چاہیے۔ اِسی صورت وہ بہتر طور پر کام کرسکیں گے اور ڈھنگ سے کچھ کما پائیں گے۔

سیلف ایمپلائمنٹ دنیا بھر میں مقبول ہوتا ہوا ٹرینڈ ہے۔ ہمارے ہاں بعض روایتی شعبوں میں یہ ٹرینڈ شروع سے رہا ہے۔ اب اعلیٰ تعلیم و تربیت کے شعبوں میں یعنی پروفیشنلز میں بھی یہ رجحان ٹیکنالوجیز کی مہربانی سے در آیا ہے تو اِسے مستحکم کرنا لازم ہے اور اِس کے لیے پوری توجہ درکار ہے۔

حصہ