حفیظ جالندھری اردو کے ایک عظیم شاعر، ادیب اور نثر نگار تھے، جنہوں نے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے ادب کو ایک نئی جہت دی۔ ان کا اصل نام محمد حفیظ تھا، لیکن ’’ابوالاثر‘‘ کی کنیت اور ’’حفیظ جالندھری‘‘ کے قلمی نام سے شہرت پائی۔ 14 جنوری 1900ء کو جالندھر میں پیدا ہونے والے حفیظ نے بچپن ہی سے شعرو سخن میں دلچسپی ظاہر کی اور مولانا غلام قادر گرامی جیسے استاد سے کسبِ فیض کیا۔ رسمی تعلیم کے باوجود ان کی تخلیقی صلاحیتوں نے انہیں اردو ادب کی دنیا میں ایک نمایاں مقام عطا کیا۔
حفیظ جالندھری نے زندگی کے مختلف شعبوں میں خود کو آزمایا، جن میں عطر فروشی، خیاطی، فوج کی ٹھیکیداری اور صحافت شامل ہیں۔ انہوں نے کئی رسائل کی ادارت کی، جن میں ’’شباب‘‘، ’’نونہال‘‘ اور ’’تہذیب ِنسواں‘‘ شامل ہیں۔ تاہم ان کی اصل شناخت ان کی شاعری بنی۔ ان کی نظمیں اور گیت اپنے عہد کی قومی اور سماجی روح کی عکاسی کرتے ہیں۔ ’’شاہنامہ اسلام‘‘ جو چار جلدوں پر مشتمل ہے، اسلامی تاریخ کو شاعری کی صورت میں پیش کرنے کا ایک منفرد کارنامہ ہے۔
حفیظ جالندھری کو پاکستان کے قومی ترانے کا خالق ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جو 120 ترانوں میں سے منتخب کیا گیا۔ ان کی تخلیق نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت بن گئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے آزاد کشمیر کا ترانہ بھی لکھا اور اس کی دھن بھی ترتیب دی، جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور وسعت کی عکاس ہے۔
تحریکِ پاکستان میں ان کا کردار نہایت اہم رہا۔ جہاں انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو متحرک کیا اور قومی جوش و جذبہ پیدا کیا، وہاں 1965ء کی جنگ میں وہ اگلے مورچوں پر جاکر سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے، جو ان کی بے لوث محبت اور حب الوطنی کا ثبوت ہے۔
حفیظ جالندھری کی اہم تصانیف میں ’’نغمۂ زار‘‘، ’’سوز و ساز‘‘، ’’تلخابۂ شیریں‘‘ اور ’’چراغِ سحر‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے افسانے بھی لکھے اور بچوں کے لیے نظمیں اور گیت بھی تخلیق کیے، جو ان کی ادبی وسعت کا ثبوت ہیں۔ 21 دسمبر 1982ء کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی وصیت تھی کہ انہیں علامہ اقبال کے پہلو میں دفن کیا جائے، تاہم یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ حفیظ جالندھری اپنی تحریروں اور خدمات کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہیں گے، اور ان کا نام اردو ادب کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ان کی شاعری کی ایک جھلک پیش ہے:
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
……
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں
……
کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
……
وفا جس سے کی بے وفا ہو گیا
جسے بت بنایا خدا ہو گیا
……
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
……
کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے
……
یہ ملاقات ملاقات نہیں ہوتی ہے
بات ہوتی ہے مگر بات نہیں ہوتی ہے
……
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
……
ہم سے یہ بارِ لطف اٹھایا نہ جائے گا
احساں یہ کیجیے کہ یہ احساں نہ کیجیے
……
نہیں عتابِ زمانہ خطاب کے قابل
ترا جواب یہی ہے کہ مسکرائے جا