شعور

21

آج کے دور میں تعلیمی اداروں اور دیگر معاشی، معاشرتی اداروں میں مذہب اور سیاست پر بات ممنوع سمجھی جاتی ہے۔ اس بات کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ان موضوعات پر بات کرتے ہوئے انسان جذباتی بھی ہوجاتا ہے، اور جھگڑے بڑھ جاتے ہیں۔ جب کہ پرچون کی دکان پر، پنساری کی دکان پر، راستوں میں، چوکوں پر، بسوں میں، ٹرین میں زور شور سے ان موضوعات پر بات ہورہی ہوتی ہے، کوئی روک ٹوک نہیں۔ جب کہ ان مقامات پر بہت زیادہ تعلیم یافتہ افراد نہیں ہوتے۔کہا یہ جاتا ہے کہ اب لوگوں میں قوتِ برداشت ختم ہوگئی ہے۔ برداشت کیوں کر ختم ہوئی، یا تربیت کی کمی یا فقدان ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سب کچھ برداشت کرنا اچھا ہے؟ کیا انسان مٹی کا مادھو بن جائے، اچھا برے کی تمیز نہ ہو، خاموشی سے دیکھتا، سنتا اور سہتا رہے، کسی قسم کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کرے؟ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ردعمل کس طرح، کیسے اور کس مقدار میں ظاہر کیا جائے۔ بڑے چھوٹے کی تمیز کے ساتھ اس کی تربیت ہونی چاہیے، اس کی مشق کرنی ہوگی۔ انسان کچھ معیار بناتا ہے، کوئی کسوٹی رکھتا ہے، کوئی پیمانہ رکھتا ہے پھر فیصلہ کرتا ہے کہ کیا اچھا ہے اورکیا برا، کسے اپنانا ہے اور کسے رد کرنا ہے، کن چیزوں پر احتجاج کرنا ہے، کس کو برداشت کرنا ہے، درگزر کرنا ہے، یہ شعور صرف اسلام دیتا ہے۔ یہ معیار، کسوٹی، پیمانہ یا پرکھ جو حق و باطل کی تمیز سکھائے وہ اسلام ہے۔ یہ راستہ جو قرآن نے بتایا اور جس پر نبیِ مہربانؐ نے عمل کر کے دکھایا۔

حصہ