زیبا جب اس گھر میں بیاہ کر آئی تھی تو لبنیٰ اور ان کی ساس اس کے پڑوس میں ہی رہتی تھیں۔ زیبا کی ساس کی بہت دوستی تھی تو اُس کی ان کی بہو لبنیٰ سے بھی دوستی ہوگئی۔
کل کی ہی بات ہے، لبنیٰ اٹھلاتی ہوئی آئی ’’زیبا! بڑا سوٹ کیس ہے کیا؟‘‘
’’خیریت ہے… کہاں کا پروگرام ہے؟‘‘ زیبا نے پوچھا۔
’’وہی ہر سال کی طرح پاکستان ٹور کا‘‘۔ لہجہ خاصا جلاتا ہوا تھا۔
’’کیا ہوا زیبا! بڑا سوٹ کیس نہیں ہے کیا؟‘‘ اِس بار لہجہ انتہائی خوش گوار تھا۔
’’ہے کیوں نہیں، بڑا سوٹ کیس بھی ہے اور بڑا صندوق بھی ہے الحمدللہ۔‘‘ طنزیہ لہجے میں بولتی زیبا نے لبنیٰ کو دیکھا۔ ’’بولو کیا دوں؟‘‘
’’بہت شکریہ! بس بڑا سوٹ کیس دے دو۔‘‘ زیبا کا لہجہ سمجھتے ہوئے اس نے تھوڑے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’اس بار تو پورا سسرال ساتھ جارہا ہے۔ تینوں بچوں کے ہینڈ کیری تو لے لیے، کیا بتاؤں زیبا ایسے خوب صورت کلر ہیں۔‘‘ لبنیٰ بولتی رہی اور زیبا سنتی رہی۔
’’لو تو اس سے بہتر نہیں تھا کہ ایک بڑا سوٹ کیس ہی لے لیتیں؟‘‘
’’اگر تم نہیں دینا چاہ رہیں تو اور بات ہے۔‘‘ لبنیٰ کو یہ بات بہت بری لگی۔
’’ارے میری بہن! میں اس لیے تھوڑی کہہ رہی تھی، تم سوٹ کیس کے لیے پریشان تھیں نا، اسی لیے کہہ دیا۔ شام تک بھجوا دوں گی۔‘‘ زیبا نے بھی دوستی کا بھرم رکھا۔
’’بھئی! پورا سسرال جارہا ہے، اپنی ٹور بھی تو رکھنی ہے، بچوں کے ہاتھوں میں اپنے اپنے ٹریول بیگ ہوں گے تو اسٹائل لگے گا۔‘‘ لبنیٰ آرام سے صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
’’ہونہہ… منہ نہ متھا۔ بچے بھی تو خوب صورت ہونے چاہئیں نا۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔
’’مما! پپا بلا رہے ہیں۔‘‘ لبنیٰ کے بیٹے نے آکر اطلاع دی، ورنہ اس کا ارادہ لمبا بیٹھنے کا لگ رہا تھا۔
’’اچھا… اچھا آرہی ہوں، تم چلو۔‘‘ لبنیٰ بے زاری سے بولی۔
’’نہیں، پپا نے بولا ہے ساتھ لے کر آنا، تمھاری مما چائے بِنا وہاں سے اٹھیں گی نہیں۔‘‘ بیٹے صاحب پول کھولنے میں لگے تھے۔
’’پیسے زیادہ خرچ ہوگئے نا، توصاحب کا موڈ خراب ہے۔ سوٹ کیس بھجوا دینا یاد سے۔‘‘
موڈ کی خرابی کا سن کر دلی سکون ملا۔ لیکن پھر وہی خود ترسی۔ پاکستان میں وہ صرف کراچی اور حیدرآباد تک ہی گئی تھی، دو دفعہ عمرہ بھی کرچکی تھی۔ اپنا ملک ہی نہ دیکھا تو کیا دیکھا!
اس کے سسرال کے بھی کچھ اصول تھے جن پر سب ہی عمل کرتے تھے، عمل تو زیبا کو بھی کرنا پڑتا تھا لیکن اس کے لیے یہ بہت مشکل کام تھا۔
اس کی ساس مذہبی خاتون تھیں، روزہ نماز، اس کے علاوہ نفلی عبادات، صلۂ رحمی میں بھی آگے آگے ہوتی تھیں اور اپنے پانچوں بیٹوں کی تربیت بھی انہی اصولوں پر کی تھی۔ ہر بیٹے کی تنخواہ کا دس فیصد صدقہ اور خیرات کے نام پر بٹور لیتیں۔ اُس کو بٹورنا ہی لگتا تھا۔
پھر وہ کسمساتی ہوئی اٹھی، اسٹور روم کا رُخ کیا۔ سوٹ کیس بھی تو دینا تھا۔کھانا تو آج ہرگز بھی نہیں بنائے گی۔
بچے اس کی شکل دیکھ کر پریشان۔ نہ جانے اماں کو کیا ہوگیا ہے! بیٹی زیبا کے گلے لگ گئی ’’کیا ہوگیا ہے کیوں پریشان ہیں؟‘‘
’’جان چھوڑو… کچھ نہیں ہوا۔‘‘ اس نے بیٹی کو پرے دھکیلا۔
اتنا لاڈ اٹھانے والی اماں کو آج کیا ہوگیا ہے؟ بیٹے نے ماں کی ایسی صورتِ حال دیکھتے ہوئے باپ کو فون ملا دیا۔
بابا بھی ایک گھنٹے میں گجرے اور مکس چاٹ لے کر حاضر۔ آخر کو زندگی کی ساتھی تھی، اس کے مزاج کی اونچ نیچ کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔
’’اماں! بابا آگئے۔‘‘ بیٹے نے زیبا کو آواز لگائی۔ وہ حیران کہ اتنی جلدی کیسے سے آگئے؟
’’کہاں ہو بھئی! بچوں کی اماں…‘‘ میاں کی آواز میں پیار ہی پیار تھا۔
’’جہنم میں…‘‘ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔
’’دیکھو تمہارے لیے چاٹ لے کر آیا ہوں، جائو بیٹا! اماں کو چاٹ لاکر دو۔‘‘پھر وہی نرم لہجہ۔
’’مجھے نہیں کھانی چاٹ واٹ… لبنیٰ پاکستان ٹور پر جائے اور میں چاٹ کھاکر خوش ہوجاؤں، اب ایسا کچھ نہیں ہورہا، مجھے بھی پاکستان ٹور پر جانا ہے… کہیں سے بھی پیسوں کا بندوبست کریں۔‘‘ اس نے تھوڑی اونچی آواز میں میاں کو سنایا۔
’’پیسوں کا بندوبست؟ پیسے تو ہیں میرے پاس۔‘‘ میاں بیڈ سے ٹیک لگاتے ہوئے بولے۔
’’سچ! کیا ہم جا سکتے ہیں؟‘‘ وہ خوشی سے اچھل پڑی۔ ساری ڈپریشن غائب، بولی ’’چل رہے ہیں نا، جب کوئی پیسوں کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ لبنیٰ بھی تو ہر سال جاتی ہے۔‘‘
’’چلیں گے ضرور چلیں گے، میرا تم سے وعدہ ہے، لیکن اِس بار نہیں۔‘‘وہ اسی نرم لہجے میں کہہ رہے تھے۔
’’کیوں نہیں جائیں گے؟‘‘ اس کی آواز میں ضد کا عنصر زیادہ تھا۔
’’میں نے پیسے جمع کیے تھے، سوچا تھا کہ ہم سب عمرہ پر جائیں گے، لیکن اِس سال عمرہ بھی نہیں۔‘‘
’’تو چل پڑے پھر کسی کی مدد کو؟‘‘اس کو شدید غصہ چڑھا ہوا تھا۔
اس کے غصے کو کم کرنے کے لیے زیبا کے کندھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر بولے ’’انہیں بہت ضرورت ہے ہماری مدد کی۔‘‘ ان کا لہجہ درد سے بھرا تھا۔
’’کون ہے بھئی ایسا جس کے لیے عمرے جیسی سعادت بھی چھوڑی جارہی ہے؟‘‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
میاں جی بڑے جذباتی انداز میں بولے ’’فلسطین کو ضرورت ہے۔‘‘
اس نے سر اٹھا کر میاں کو دیکھا، اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’ہم نے بائیکاٹ کیا تو ہے۔‘‘ اِس بار لہجہ بہت دھیما تھا۔
’’صرف بائیکاٹ… ہمیں اپنی بہت سی فضول ضروریات سے بھی بچنا ہوگا، کیا یہ وقت ہے پاکستان ٹور پر جاکر لاکھوں روپے اڑا دینے کا؟ فتویٰ آچکا ہے کہ ’‘اگر آپ پہلے عمرہ کرچکے ہیں تو دوسرے عمرے کے پیسے فلسطین بھیج دیں‘‘ اور تمہاری سوئی پاکستان ٹور پر اٹکی ہے، حد کرتی ہو تم۔‘‘
اتنا نرم مزاج شوہر لیکن آج اس کا لہجہ بھی تلخ ہوگیا۔ وہ مستقل بول رہے تھے اور زیبا کے پاس الفاظ نہ تھے۔
’’روزِ قیامت ان کے ہاتھ ہوں گے اور ہمارے گریبان۔ ہم ٹھنڈی ہوائوں میں بغیر کمبل کے تھے تم نے اپنے نرم وگرم بستر نہ چھوڑے… ہم بھوکے تھے تم مرغن کھانوں سے پیٹ بھر رہے تھے، ہم تمہیں یاد نہ آئے… بڑے بے حس لوگ ہو، اپنے مسلمان بھائیوں کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا۔‘‘
مجھے اس دن سے خوف آتا ہے زیبا! تم کو پتا ہے ہمارے تمام بچوں نے اپنی سیونگ غزہ فنڈ میں دے دی۔ اماں کے پاس جو زیور تھا، سارا غزہ فنڈ میں دے دیا۔‘‘
وہ ان کے آخری جملے پر چونکی، ہائے ’’وہ کنگن بھی؟‘‘ وہ مزید ڈپریشن میں چلی گئی‘‘۔کچھ لوگ کبھی نہیں سدھرتے۔