دسمبر کی کڑکتی سردیوں کی ایک صبح تھی جب حمزہ نے کسمساتے ہوئے امی کو آواز دی۔
امی دوڑی ہوئی آئیں اور پوچھا ’’کیا ہوا میرے پھول سے بچے کو؟‘‘
’’امی سردی بہت ہے، میں آج اسکول نہیں جاؤں گا۔‘‘ حمزہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
امی نے ماتھے پر بوسہ دیا اور نرمی سے گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے کہا ’’میرا بہادر بیٹا گرمی سردی برداشت نہیں کرے گا تو بڑا ہوکر فوجی کیسے بنے گا…؟ چلو شاباش اب جلدی سے اٹھ جاؤ، ہم دونوں مل کر نماز پڑھتے ہیں، پھر تم اسکول کی تیاری کرنا، میں ناشتا بناؤں گی، پھر ہم دونوں مل کر ناشتا کریں گے۔‘‘
کرامت علی اور صوفیہ کی شادی کو 12 سال ہوچکے تھے مگر ان کے آنگن میں ایک ہی پھول کھلا تھا جس کی خوشبو دونوں کے دل و دماغ کو تازہ رکھتی تھی۔ دونوں حمزہ کی ذرا سی تکلیف پر پریشان ہوجاتے تھے، لیکن وہ اس کا مستقبل بھی تابناک دیکھنا چاہتے تھے اسی لیے اسے جری اور بہادر بنانے کی کوشش کرتے۔ انہوں نے حمزہ کو حافظِ قرآن بھی بنایا تھا اور اب فوج میں بھیجنے کا ارادہ تھا، کیوں کہ کرامت علی خود بھی فوج کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ وہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کو دین اور دنیا کے ہر میدان میں کامیاب دیکھنا چاہتے تھے، اسی لیے انہوں نے آرمی پبلک اسکول کا انتخاب کیا تھا۔
حمزہ روزانہ فجر کی نماز پڑھ کر قرآن پاک کا کچھ حصہ تلاوت کرتا، پھر ناشتا کرکے اسکول چلا جاتا۔ آج بھی معمول کے مطابق اس نے امی کے ساتھ بیٹھ کر ناشتا کیا، اتنے میں وین کا ہارن بجا۔
امی اسے دروازے تک چھوڑنے آئیں اور اس کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر ماتھے پر بوسہ دیا اور پیار سے اللہ حافظ کہا۔
’’کیا ہوا امی! آج تو بہت پیار آرہا ہے آپ کو اپنے بیٹے پر؟‘‘
’’کیوں نہ آئے، میرا بیٹا ہے ہی اتنا پیارا۔‘‘ اور حمزہ مسکراتے ہوئے امی کو دیکھتے ہوئے وین میں جاکر بیٹھ گیا…صوفیہ تلاوتِ قرآن کے بعد گھر کے کاموں میں مصروف ہوگئیں۔
اسکول میں اسمبلی ہوئی اور بچے اپنی اپنی کلاسوں میں جاکر بیٹھ گئے۔ دوسرا پیریڈ شروع ہوچکا تھا۔ سب کلاسوں کی ٹیچرز پڑھانے میں مصروف تھیں کہ ’’تڑ… تڑ تڑ…‘‘ فضا میں گولیوں کی آواز گونجی۔
چند نقاب پوش جدید ہتھیار ہاتھوں میں اٹھائے کلاسوں میں گھس آئے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوا ہے؟ اچانک ایک نقاب پوش نے حمزہ کی کلاس میں گھس کر ٹیچر کے سر پر کلاشن کوف کی نالی رکھی اور بولا ’’سارے بچوں کو دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑا کروائو… ہم نے اسکول پر حملہ کردیا ہے… سارے اسکول میں ہمارے ساتھی موجود ہیں، کوئی اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش نہ کرے…‘‘ اور اس کے ساتھ ہی گولیوں کی بوچھاڑ سے سب بچوں کو شہید کردیا… اُف خدایا! دل دہلا دینے والا منظر تھا… ہر کلاس کا یہی حال تھا۔ کیا قصور تھا ان ننھے معصوم بچوں کا؟ ہر گھر کا پھول مسلا جا چکا تھا… یہ تو وہ بچے تھے جن کے خون میں وطن کی محبت دوڑ رہی تھی، جنہیں مستقبل میں ملک اور قوم کی حفاظت کرنی تھی، جو قوم کے معمار تھے۔
پورے پاکستان میں خبر پھیل چکی تھی کہ آرمی پبلک اسکول میں بزدل دشمن نے حملہ کردیا ہے۔ خبر سنتے ہی صوفیہ بھی اسکول کی طرف دوڑی آئیں۔ کرامت علی پہلے پہنچ چکے تھے اور اپنے اکلوتے شہید بیٹے کو ایمبولینس میں رکھ رہے تھے۔
صوفیہ نے نظر بھر کر بیٹے کو دیکھا…دل غم سے بھر گیا لیکن آنسو ٹپکاتے ہوئے صرف اتنا بولیں ’’میرے گلشن کا پھول اب جنت کے گلشن کا پھول بن چکا ہے۔‘‘