دوریاں کم ہوگئیں

50

’’میری بہن اتنے برسوں بعد بنگلہ دیش سے آرہی ہے۔‘‘شائستہ بیگم نے خوشی سے شوہر کو مخاطب کیا۔

’’کیا دن تھے جب ہم پٹ سن کے سنہرے کھیتوں میں بھاگتے پھرتے تھے… پھر میں شادی ہوکر یہاں آگئی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد تو گویا ان میں آگ لگ گئی تھی۔‘‘ شائستہ بیگم ائرپورٹ جاتے ہوئے پرانی یادوں میں کھوئی ہوئی تھیں۔

شہناز کا جہاز مغرب کے وقت کراچی ائرپورٹ پر لینڈ کر چکا تھا۔ جلد ہی دونوں بہنیں گھر کی طرف رواں دواں تھیں۔

دونوں بہنیں گرم جوشی سے بغل گیر ہوئیں، خون کی محبت تو جوش مار رہی تھی، مگر دونوں ملکوں کی تلخ یادوں نے اجنبیت سی پیدا کردی تھی۔

گھر پہنچتے ہی کھانے کا انتظام مکمل تھا۔ مہمانوں کو ٹیبل پر بٹھایا۔ بچے پہلی بار خالہ سے مل رہے تھے، پُرتکلف ماحول برقرار تھا مگر خوشی چہروں سے چھلک رہی تھی۔

’’خالہ! آپ سے ہم پہلی بار مل رہے ہیں، اتنی دوریاں کیوں ہیں؟ آپ جلدی جلدی آسکیں، ہم بھی وہاں جائیں، یہ اجنبیت کی دیواریں کیسے گریں گی؟ صدیوں کے فاصلے کیسے مٹیں گے؟‘‘ جواں سال شایان نے شہناز کو مخاطب کیا۔

شہناز نے مسکراکر بھانجے کو دیکھا اور بولیں ’’بیٹا! جب زبان اور رنگ کی اہمیت لا الٰہ الااللہ کے رشتے سے بڑھ جاتی ہے تو ایسے سانحے رونما ہوتے ہیں جن سے انسانیت بھی شرماتی ہے۔‘‘

’’ارے چھوڑیں خالہ! ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ اب تو انسان مریخ پر جانے کی باتیں کررہا ہے، پلاٹ کی بکنگ کرا رہا ہے۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے… نیو ورلڈ آرڈر آچکا ہے۔‘‘ شایان نے گویا اُن کی معلومات میں اضافہ کیا۔

’’مگر ہم آج بھی لسانیت اور فرقہ بندیوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔‘‘ شائستہ بیگم بولیں۔

اوہ…!‘‘ شہناز کو جھٹکا سا لگا۔ ’’یعنی پاکستانیوں نے سقوطِ ڈھاکہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔آج بھی کنویں کے مینڈک بنے ہوئے ہیں۔ جب تک اسلامی اخوت اور بھائی چارے کو نہیں اپنائیں گے، نفرتیں پھلتی پھولتی رہیں گی، کیوں کہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘

شائستہ بیگم نے دور خلاؤں میں گھورتے ہوئے بات کو آگے بڑھایا ’’پنجاب کی ہریالی، سندھ کے سمندر، بلوچستان کے معدنی وسائل، کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے حسین مناظر کے بغیر ہمارا ملک ادھورا ہے… کاش! سب اپنا اپنا مفاد دیکھنے کے بجائے حب الوطنی کا ثبوت دیتے۔‘‘

شہناز بچوں کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بولیں ’’آج 16 دسمبر ہے، سقوطِ ڈھاکا کو نصف صدی مکمل ہوئی۔ عصبیت کی نفرت نے اپنوں کو خون میں نہلایا۔ اتنی نفرت کہ بیٹیوں کے سروں سے چادریں کھینچ لیں، گھر جلا ڈالے،کاروبار تباہ کردیے۔ مگر نفرت کی آگ کو دشمن ہوا دیتا رہا اور وہ بھڑکتی رہی۔

آج بھی بنگلہ دیش میں پھنسے محصورین پر زمین تنگ ہے، اُنہیں پاکستان بھی قبول کرنے کو تیار نہیں، وہ بنگلہ دیش کے چھوٹے چھوٹے کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس شناخت نہیں ہے۔ وہ تعلیم و روزگار کے اہل نہیں رہے۔‘‘

’’اوہ اچھا…!‘‘ شائستہ بیگم کراچی کی حالتِ زار سے پردے اٹھانے لگیں ’’ہاں آج کراچی کا یہی حال کیا جارہا ہے، مگر اِس بار یہ بے وقوف امسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں، جس پر خود بیٹھے ہیں۔کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے ساری تجارت ہوتی ہے، سب سے زیادہ آبادی والا شہر سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ سندھ حکومت نے کرپشن سے شہر کا بلدیاتی نظام تباہ کردیا ہے۔ لینڈ مافیا نے الٰہ دین پارک پر قبضے کے بعد اب یونیورسٹیوں کی زمین اور میرٹ پر قبضے کے لیے ایک نیا بل پاس کرایا ہے کہ وائس چانسلر اب ان کے سفارشی بیوروکریٹ بھی بن سکیں گے۔ اگر کراچی سویا رہا تو گِدھ اس کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے۔‘‘ شائستہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’ان سے سوتیلوں والا سلوک کیا جارہا ہے۔ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں وہ تباہ ہوجاتی ہیں۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘‘

’’واہ…! امی نے کیا برجستہ شعر پڑھا ہے۔‘‘شایان نے تالیاں بجاکر ماحول کو بدلنے کی کوشش کی۔

’’اگر آج ہم نے اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے نہ پکڑا تو ہمیں دشمن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔‘‘ شائستہ بیگم تاسف سے بول رہی تھیں۔

’’لیکن بنگلہ دیش کی موجودہ صورتِ حال تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہے۔‘‘ انہوں نے امید بھرے لہجے میں کہا، ساتھ ہی سب سفر کی تھکان اتارنے کی غرض سے آرام کے لیے اٹھ گئے۔

حصہ